حکومتی علانات سے دل برداشتہ علاقہ

بنی نو ع انسان ازل سے اسی جستجو میں رہا ۔ کہ آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے بہتر ہو۔اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اپنے عقل و شعور کی دولت سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اسی طرح وہ اس میں کبھی کامیاب رہتا ہے اور کبھی ناکام۔اس کی لاتعداد مثالیں روزمرہ کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر شخض ان مقاصد کے حصول میں سرگرداں و پریشان ہیں ۔کوئی کامیاب و کامران ہے تو کوئی ناکام و نامراد ۔ انسانی شخصی زندگی سے بالا ملکی و قومی زندگی کے پہے بھی انہی خطوط پر استوار ہے۔ اور انہی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہر ریاست میں مختلف ادارے ، افراد اور تھینک ٹینکس شب و روز ترجیحات مرتب کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔قوموں کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کامیابی و ناکامی کے اس کھیل میں داو پیج کا بہت گھمسان رہا ہے ۔ اس طرح دنیا میں بہت سے ایسے قومیں وجود میں آئی ہیں۔جن کے حال ماضی سے بہت گنا بہتر رہاہے۔جن کے پاس پہلے کچھ نہ تھا آج بہت کچھ ہے۔ وہ پہلے مانگتے تھے آج دیتے ہیں ۔ کل دوسروں کی سنتے تھے آج دوسروں کو سُناتے ہیں۔ بنظر غائر مطالعہ کرئے تو ان کی کامیابی ان دو چیزوں کے گرد گھومتی ہے۔ بہترین تعلیمی نظام اور مخلص حکمران ۔تاریخ کے ان اوراق میں ایسی حکومتیں بھی معرض وجود میں آئی جن کی خواہش ارتکاز دولت کے پیمانے پر استوار رہی ۔ مگر دولت کا یہی انبار ان کے زوال و پستی کا سبب بنا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ہر انسان کی یہی خوہش ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف ترقی کرے بلکہ دنیامیں اپنا نام بھی روشن کرے۔ان عوامل کے حصول کے لئے خلوص نیت اور جہدو مسلسل کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کی انا اور خود غرضی جیسی بُرائیوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔اور یہی اصول ملکوں کی زندگی پر بھی اطلاق ہوتا ہے ۔ مذکورہ معاشرتی بیماریوں کی سبب اجتماعی ناکامی کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔یہی کچھ وطن عزیز کے ساتھ ہورہا ہے۔ خود غرض و عنانیت نے اس ملک کے جھڑوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔اور اس کی قسمت میں خوشی کی نسبت غم کا ترازوہمیشہ بھاری دکھا ئی دیاہے ۔جس کی بڑی وجہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بروقت حل نہ کرنے اور اس کی طرف متوجہ نہ ہونا ہے ۔ جو آہستہ آہستہ بڑی مشکلات کی شکل میں نمودار ہو جاتی ہے اور اس سے نبرد آذما ہونا مشکل امر بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔ اس معاملے میں تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم ہی کے مدد سے مہذب معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔اگرہم مہذب معاشروں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے حکومت وقت کو ملک کی نظام تعلیم کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ جس کی سنجیدگی تعلیم کے لئے مختص سالانہ بجٹ میں رقوم کے اضافے کی شرط لازمی ہے۔ ہماری حکومت کا تعلیم کے ساتھ لگاؤ ہمشہ سالانہ بجٹ سے معلوم ہوتا ہے ۔ کافی عرصہ تک تعلیم کے لئے ملکی بجٹ کا 2.5 فی صدحصہ رہا۔جو کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔شاید ہماری حکومت تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری اسلئے کم کرتی آرہی ہے ۔ کیونکہ یہ طویل المدت سرمایہ کاری ہے ۔ اور اس طویل مدت سرمایا کاری سے حکومت کو وقتی طور پر کو ئی نفع حاصل نہیں ہوتا ۔ اگر اپنی انا کو ملکی مفاد پر قربان کردیتے اور ایسی طویل مدت سرمایاکاری کر دیتے تو ملک آج سڑسٹھ سالوں کے بعد بھی خواندگی کی شرح 58 فیصد پر نہ رہتی ۔ہمارے سامنے کئی ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے اورترقی کے میدان میں ہم سے اگے نکل گئے ۔ کیونکہ یہ قومیں تعلیم کو ترقی کے انجن کے لئے انرجی سمجھتی ہے ۔ تعلیم ہی سے ملک کی انڈسڑی ترقی کرتی ہے ۔تعلیم ہی کے بدولت مہذب معاشرہ وجود میں آتاہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ملکی مفاد کے سامنے دوسرے رکاوٹوں کو ملحوض خاطر نہیں رکھتے ۔ اور ان ملکوں میں تعلیم کو طبقاتی نظام کے نذر نہیں کرتے ۔اور نہ ہی رنگ نسل ، مذہب ، علاقے کی بنیاد پر تعلیم میسر ہوتی ہے ۔بلکہ ایک قوم کے طور پر ایک ہی نظام تعلیم سب کے لئے رائج ہوتا ہے ۔ جہاں کوئی امیر اور غریب کا فرق نہیں ہوتا۔مگر ہمارے ملک میں نظام تعلیم کومختلف طبقات میں تقسیم کر دیاگیا ہے ۔ جس کے باعث عوام میں احساس محرومی و کمتری کو فرغ مل رہا ہے۔معاشرے کو سُدھارنے اور مہذب معاشرے کی تکمیل کے لئے ہر فرد اورہر طبقہ کی یکساں نظام تعلیم لازمی ہے۔اور دوسری طرف بڑے چھوٹے سب شہروں میں بہتر نظام تعلیم کا فقدان اور دور دراز علاقوں کا مکمل و یکسر نظر انداز کرنا ملک کے لئے بہت بڑا نقصان سے کم نہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا ہے ۔ جب تک اُس معاشرے کے عوام کو بنیادی حقوق میسرنہ ہو اور ان بنیای حقوق میں اولین درجہ تعلیم و صحت کا ہے ۔ اور جب تک معاشرے کو تعلیم ،صحت، اور روزگار کے سہولیات میسرنہ ہوترقی کے دیگر منازل طے کرنا ناممکن بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد سائنس و ٹیکنالو جی کے میدان میں اگے جا تے ہیں۔ کیونکہ جس معاشرے میں بنیادی تعلیم اور بنیادی حقوق کا فقدان ہو وہ علاقہ جدیدتعلیم سے کیسے آراستہ ہوسکتاہے۔ مغربی دنیا کاہر میدان میں سبقت لے جانے کی اصل وجہ وہاں کے حکومت کا عوام کے بنیادی حقوق پر ذور دینا ہے ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر مقصدکے حصول کے بعد بھی انسانی جستجو نہیں رُکتی۔ بلکہ اور آگے جانے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔اس کے لئے مناسب اور سازگار ماحول کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔اگر گلگت بلتستان کا ذکر کریں تو اس علاقے کی کہانی ہی عجیب ہے ۔ آزادی کے کئی سال گزارنے کے بعد بھی اس علاقے کی عوام اپنی بنیادی حقوق کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔اس علاقے کے عوام اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد سے آج تک وطن عزیز سے وفادار اور اسی کے خاطر جان حاضر رکھتے رہے ہیں۔مگراس خطے کے عوام کے ساتھ ہر حکومت وعدے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔پچھلی حکومت کا بلتستان میں یونیورسٹی بنا نے کا وعدہ صرف اور صرف باتوں کے حد تک محدود رہا۔ جس سے عوام کا حکومتی علانات سے دل برداشتہ ہو نے کی روایت قائم رہی ۔ مگر موجودہ حکومت کے علانات اور وعدوں پربھی اب تک کوئی عمل ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ خواندگی کے لحاظ سے یہ علاقہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اعلی مقام رکھتا ہے۔ مگر اب تک حکومتی سطح پر کوئی ٹھوس اقدام اٹھائی گئی اور نہ ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ طلبہ وطالبات کے لئے اعلٰی تعلیم کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے طلبہ و طلبات اپنے تعلیمی کیریر کو خیر باد کہنے پر مجبور ہے۔اس طرح کے امتیازی سلوک سے نہ صرف طلبہ و طلبات احساس محرومی کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ ملک و قوم ان قیمتی اثاثوں سے محروم بھی ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان کامعاشی اور سیاحتی لحاظ سے سب سے اہم علاقہ ہونے کے باوجود حکومت کا اس علاقے کی تعلیمی سرگرمیوں میں غیر سنجیدگی لمحہ فکریہ ہے۔عوام کی مطالبات تو زیادہ ہے مگر ان کا پُرسان حال کوئی نہیں ۔لہذا حکمران حقیقی معنوں میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ان کی اولین فرض ملک میں تعلیم کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ اور ملک میں موجود مختلف طبقہ ہائے تعلیم کو یکساں کرنا ہوگا۔تاکہ معاشرے میں اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے محرومیوں کا ازالہ ممکن ہو۔ اور ملک ترقی کی راہ پر ہموار ہو سکے۔ جب تک ملک کا ہر طبقہ اعلی تعلیم کی زیور سے آرستہ نہیں ہوتا ہر قسم کے تبدیلی کے کھوکھلے نعروں سے ملک و قوم سنور نہیں سکتا۔
Shakeel Ahmad
About the Author: Shakeel Ahmad Read More Articles by Shakeel Ahmad: 9 Articles with 6831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.