مولانا کی سیاست
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
آپ مولانا سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں ، ان
کے سیاست ، سوچ اور مذہبی نعروں ، سیاسی اور مذ ہبی نظریے سے بھی جو وقت کے
ساتھ ساتھ بدل جاتا ہے لیکن ایک کریڈٹ اب مولانا کی سیاست اور بصیرت کو دے
کہ وہ جس کی بھی حکومت ہو ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، باوجود یہ کہ ان کے
اسمبلی سیٹ کم ہوتے ہیں لیکن وہ حکومت سے اپنا شیئر زیادہ حاصل کرتا ہے۔ اب
بھی وہ میاں نواز شریف کے اتحادی ہے جس کی ضرورت سیٹوں کے حساب میاں نواز
شریف کو نہ تھی جس کو شروع شروع میں میاں نواز شریف نے بہت کوشش کی تھی کہ
مولانا سے چھٹکارہ ملیں اور ان کو حکومت میں شامل کرنے سے بچیں لیکن مولانا
نے کچی گولی نہیں کھائی تھی انہوں نے شروع میں کم حصے پر رضامندی ظاہر کرکے
حکومت کا حصہ بنے جبکہ بعد میں میاں نواز شریف کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا
کر حکومت میں اپنے بساط سے زیادہ حصہ لیا جبکہ خود پیپلز پارٹی کے دور سے
کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی برقرار رکھی جس کا پروڈکول یعنی مرعات وفاقی
وزیر کے برابر ہے یعنی مولانا صاحب کی حیثیت پیپلزپارٹی دور سے ایک وفاقی
وزیر جتنی ہے جن کو اسلام آباد کے پوش علاقے میں گھر بھی ملا ہے۔ اس طرح
اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مولانا صاحب پرویز مشرف کے دور میں بھی اپوزیشن
لیڈر تھے جن کی حیثیت و فاقی وزیر سے زیادہ ہوتی ہے اس سے پہلے میاں صاحب
اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی حکومتوں میں رہے ہیں ۔ اب ناقدین کا کام ہے
کہ وہ مولانا پر اعتراض کرے کہ وہ ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں اور مرعات
لیتے ہیں ، ان کی خدمت میں صرف یہ عر ض ہے کہ پاکستان میں سیاست اسی کا نام
ہے کہ عوام سے ووٹ لوں یاحاصل کروں اور بعد میں مزے کروں ۔ مولانا کو اس
وجہ سے ملک کا بہترین سیاسی رہنما سمجھاجاتا ہے کہ وہ ہر کسی کو قابل قبول
ہے ۔ملک میں آمریت ہو یا جمہوری حکومتیں مولانا صاحب ان کا حصہ ہوتے
ہیں۔مولانا کا ایک آور پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ وہ دینی حلقوں کو بھی قابل
قبول ہے جبکہ غیر مذہبی لوگوں کو بھی قابل قبول ہے بس ان کو آپنا حصہ ملنا
چاہیے اگر حصہ نہیں دیتے تو آپ کی سیاست اور جمہوریت سمیت اسلام بھی خطرے
میں آسکتا ہے جبکہ اسمبلی میں خواتین کے حقوق کا بل پاس ہونے سے مرد مظلوم
بھی بن سکتے ہیں ۔ ویسے مجھے یاد آیا کہ پنجاب اسمبلی نے خواتین حقوق کے
متعلق جوبل پاس کیا تھا جس پر مولانا صاحب نے اعتراض کیا اور بہت شور مچایا
تھا اور اس کو اسلام مخالف کہا تھا۔ حکومت کوپتہ نہیں 28فروری یا28 مارچ کا
وقت دیا تھا کہ وہ واپس لے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مولانا نے سال نہیں بتایا
تھا کہ اس وقت تک واپس نہ لیا تو پھر ہم سڑ کوں اور اسلام کے پروانے مر
مٹنے کوتیار ہوں گے لیکن مولانا کی بہتر ین سیاست کہ وہ وزیر اعظم میاں
نواز شریف جو مولانا کو ملنے کا وقت نہیں دیتا تھا۔ مولانا نے اس بہانے
میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کر لی ، بہترین حکمت عملی کے تحت ان سے اپنے
مطالبات منوا لیے اس کے بعد قصہ ختم ۔ باقی مذہبی جماعتیں بھی خاموش ۔اس
طرح اب پاناما لیکس انکشاف کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف ملک کے سیاست
میں تنہا ہوگئے تھے کہ لوٹی ہوئی دولت کا حساب دیا جائے ۔ مولانا نے ایک
دفعہ پھر وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میان نواز شریف کا ساتھ دیا جس کے
بدلے میں میاں صاحب نے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دورے کیے اور وہاں پر
مولانا کی مرضی کے تر قیاتی سکمیوں کے اعلانات کیے جس میں اکثر اعلانات صرف
اعلانات تک ہی محدود ہوں گے وہ کبھی بھی میاں نواز شریف پورا نہیں کریں گے
لیکن وقتی طور پر بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کو تسلی کیا اور
مستقبل کے لیے سیاست بھی چھوڑی گئی۔اس طرح اب مولاناصاحب اپنے سیاست کو
پروان چڑھانے اور ملک کے سیاست میں رہنے کے لیے میاں نواز شریف کی مدد اور
بچانے کیلئے اس عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کے پاس بھی گئے جس کے بارے میں
ایک سال پہلے کہا تھا کہ وہ ملک کی سیاست میں مردہ سانپ ہے اس پر بات کرنا
وقت کا ضیاع ہے لیکن مولانا صاحب کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ مولانا اب
اپنے دوست آصف علی زرداری کو منانے لندن میاں نواز شریف کے خرچے پر چلے گئے
تاکہ وہاں پر دونوں محسنوں یعنی میاں نواز شریف اور اصف علی زرداری کے
درمیان ملاقات کرائی جائے اور پیپلز پارٹی کو متحدہ اپوزیشن سے جدا کیا
جائے۔ مولانا نے اس سلسلے میں اصف زرداری سے ملاقات بھی کی ہے اور ان کو
ڈرایا بھی کہ اس دفعہ اسلام نہیں بلکہ جمہوریت اور میاں نواز شریف کو خطرے
ہیں اور بعد میں آپ کا نمبر بھی ہے جس پر زرداری نے ملاقات میں مولانا کو
کہا کہ کسی فرد کے چلے جانے سے جمہوریت کو خطرہ نہیں ہوتا، البتہ یہ حقیقت
ہے کہ مولانا کی کوشیش رنگ لائے گی اور دونوں یعنی میا ں نواز شریف اور
زرداری کے درمیان اوپن یا خفیہ ملاقات ہوگی۔ ناقدین تو یہ الزام بھی مولانا
پر لگاتے ہیں کہ مولانا یہودیوں کے ملک میں کیا کرنے گئے ہیں وہاں تو سارے
کے سارے یہودی ہوتے ہیں ۔ اب ناقدین کو کو ن سمجھائے کہ مولانا اب دینی
فریضے کو پورا کرنے گئے ہیں جس کی اسلام میں بھی اہمیت ہے۔ خدانخواستہ اگر
میاں نواز شریف سے لوٹی ہوئے دولت کا حساب ہوتا ہے اور میاں صاحب گھر نہیں
بلکہ جیل چلے جاتے ہیں تو یہ کتنا ظلم ہوگا میاں نواز شریف اور ان کے
خاندان کے ساتھ اور وہ لوگ دکھی بھی ہوں گے ۔ اس دکھ سے بچانے کیلئے مولانا
صاحب سرگرم ہے ۔ کچھ ناقدین مولانا صاحب کا عمران خان کے ساتھ تعلقات کو
آئین وقانون اور اسلام کے رو ح کے منافی قرار دیتے ہیں۔اب ناقدین کو کون
سمجھائے کہ یہ مستقبل کا سوال ہے ۔ مولانا کو عمران خان کی سیاست اور سوچ
معلوم ہے کہ یہ ہمارے قابو میں نہیں آئے گا اور ان کی حکومت میں ہم پتہ
نہیں کہاں ہوں گے۔ اس لئے ناقدین یہ بات سمجھیں جو اختلافات کی بنیادی وجہ
ہے کہ عمران خان کی حکومت آنے میں مولاناصاحب حکومت کا حصہ نہیں رہیں گے۔
اسلئے ان کے خلاف ہوناآئین وقانون سمیت اسلام کی بھی خلاف ورزی نہیں کہ
دشمن کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے جومولانا صاحب کر رہے ہیں کہ
عمران خان کی حکومت کسی طور پر بھی ملک میں نہ آئے۔اب ناقد ین یہ سوال بھی
اٹھاتے ہیں کہ مولانا صاحب جو سیاست کررہے ہیں۔ کیا اسلام میں یہ جائز ہے؟
اب اس سوال کا جواب تو مولانا صاحب ہی دے سکتے ہیں کیوں کہ وہ مولانا ہے ہم
تو اس سلسلے میں بے بس ہے۔ |
|