ڈرون کی آڑ میں امریکی در اندازی
(Abid Ali Yousufzai, Sawat)
جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
امریکہ کا حلیف بنا ہے تب سے اس کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ 9/11 کے
بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مختلف ممالک پر چڑھائی
شروع کردی تو پاکستان واحد غیر نیٹو ملک ہے جو ان کا ساتھی رہا ہے۔ افسوس
کی بات ہے کہ امریکہ کا ساتھی دینے میں پاکستان کو جتنا نقصان اٹھانا پڑا
ہے اتنا شائد کسے دوسرے اتحادی کو تو درکنار، خود امریکہ کو بھی نہیں
اٹھانا پڑا ہوگا۔
سب سے پہلے مختلف ائیر بیسوں پر قبضہ جمالیا۔ اپنے فوجیوں کے لیے رسد کا
راستہ حاصل کیا۔ امداد کے نام پر پاکستان کو مشروط قرضوں کے جھنجھٹ میں
مزید جھکڑایا۔ پاکستان کے جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف
علاقوں کو نشانہ بنایا ۔ وطن عزیز کے حدود کے اندر ڈرون حملوں کا آغاز کیا
اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کی
سرزمین پر 2004ء سے ڈرون حملوں کا آغاز کیا۔ یہ حملے جارج بش کی حکومت نے
دہشت جنگ کے سلسلہ میں شروع کیے۔ بارک اوبامہ کے صدر بننے کے بعد، اور
پاکستان میں زرداری حکومت کے قائم ہونے کے بعد ان حملوں کے تعدد اور شدت
میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ ڈرون حملے،پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف
کئے جانے والے امریکی اقدامات میں سر فہرست ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں کی
تعداد میں افراد ان حملوں میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق
سال 2010ء میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے، اور حملوں کی ذمہ دار امریکی CIA
ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنیوالے ایک ادارے انسانی حقوق
کمیشن کیمطابق 2010ء میں امریکی ڈرون حملوں سے900افرادہلاک ہوئے ہیں۔
اپریل 2011ء میں پاکستانی فوجی اور سیاسی حکام نے امریکہ سے ڈرون حملے بند
کرنے کے لیے کہا۔ زخمیوں کا علاج کرنے والے طبیبوں نے بتایا ہے کہ امریکی
ڈروں کے ذریعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ حملہ کے بعد امدادی
کاروائی کرنے والوں پر امریکی ڈرون دوبارہ حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے
والوں کے جنازہ پر بھی ڈرون حملہکیا جاتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق
امریکی صدر بارک اوبامہ ہر ہفتہ قتل کے لیے افراد خود چنتا ہے۔ اوبامہ نے
2012ء میں دوبارہ صدارت جیتنے کے بعد بھی پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھے۔
18جون 2004کوافغانستان سے اڑنے والے MQ-9ڈرون طیارے کے جنوبی وزیرستان کے
علاقے وانا پرمیزائل حملے میں نیک محمد وزیر سمیت5افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ
پاکستان پر پہلا ڈرون حملہ تھا۔
13جنوری2006 کو باجوڑ کے علاقے ڈاماڈولا میں میزائل حملے سے8معصوم بچے شہید
ہوگئے ۔ 11جون2008کو امریکہ کی جانب سے پاکستانی حدود میں کارروائی کا ایک
اور واقعہ پیش آیا جب امریکی طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند
ایجنسی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ایک ٹھکانے پر بمباری کر
دی جس کے نتیجہ میں11 اہلکاروں سمیت19 افراد شہید ہوگئے۔ 3ستمبر2008 کو
امریکی فوج نے جنوبی وزیرستان میں موسی نیکہ کے علاقے میں زمینی کارروائی
کی جس میں قریباً بیس مقامی افراد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں عورتیں
اور بچے بھی شامل تھے۔
8 ستمبر کو جاسوس طیاروں نے شمالی وزیرستان میں ڈانڈے درپہ خیل میں واقع
طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی کے گھر اور مدرسے کو 7 میزائلوں سے نشانہ
بنایا۔ اس حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران امریکہ کے
چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مائیک مولن نے امریکی کانگریس کی ایک
کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ امریکہ طالبان سے متعلق اپنی حکمتِ عملی تبدیل
کر رہا ہے جس کے تحت اب سرحد پار کر کے پاکستان کے اندر طالبان پر بھی حملے
ہو سکتے ہیں اور پھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ بھی منظرِ عام
پر آئی جس میں کہا گیا کہ امریکی صدر بش نے جولائی میں پاکستانی حکومت کو
مطلع کیے بغیر پاکستان کی حدود میں کارروائی کی خفیہ اجازت دی تھی۔ تاہم ان
رپورٹوں کی اشاعت اور پاکستانی حکام کی جانب سے ان پر سخت ردعمل کے باوجود
میزائل حملوں کا سلسلہ تھما نہیں اور جمعہ 12 ستمبر کو پاکستان کے قبائلی
علاقے شمالی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب امریکی جاسوس طیاروں نے ایک
مکان اور پرائمری سکول کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں 12
افراد ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مقامی طالبان بتائے جاتے
ہیں۔ 15 ستمبر کو انگور اڈہ کے قریب افغانستان کے علاقے میں امریکی گن شپ
ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کی آمد پر پاکستانی فوجیوں نے ہوائی فائرنگ کی تھی۔
انگور اڈہ باغاڑ چینا سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مقامی لوگوں کے
مطابق امریکی جہازوں کے اترنے کے بعد قریبی پہاڑی سلسلوں میں موجود
پاکستانی فوج کے ٹھکانوں سے بگل بجائے گئے اور فائرنگ بھی کی گئی۔
2010 میں سب سے زیادہ ڈرون حملے کیے گئے۔ 1 جنوری دو امریکی حملے، 5 افراد
ہلاک۔ 6 جنوری، دو یکے بعد دیگرے حملے، 15 افراد قتل۔ 17جنوری کو امریکیوں
نے حملہ کر کے 201فراد ذبح کر دیے۔ 16مئی خیبر علاقہ میں امریکی حملہ میں
پانچ سے زائد افراد شہید۔ 19جون نجی گھر پر امریکی حملے میں کم از کم 11
افراد جاں بحق۔ 17دسمبر خیبر پر حملے میں24افراد جان بحق۔26دسمبر امریکی
حملے میں 21افراد ہلاک۔
اقوام متحدہ ڈرون حملوں کا خاموش تماشائی بنا رہا۔ جب ڈرون حملوں کا خدشہ
دوسرے ممالک کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کا ہوا، تو ادارے نے
2013ء میں امریکی ڈرون حملوں کا قانونی جائزہ لینے کا اعلان کیا۔ اقوامِ
متحدہ نے اس سلسلے میں ایک قرارداد بھی منظور کر لی ہے۔
وزارت دفاع کے مطابق 2004 سے 2013 تک 67بیگناہ شہری ڈرون حملوں میں قتل،
وزارت خارجہ کے مطابق 400بیگناہ شہری قتل۔ یہ تعداد ان افراد کے علاوہ ہے
جن کو شدت پسند گردانا گیا ہے۔ نیو امریکن فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں
کئے گئے ڈرون حملوں کی اعداد و شماربمطابق 2013 کل369 ڈرون حملے کیے گئے جن
میں2291 دہشت گرد مارے گئے۔ 286 شہری شہید ہوگئے جبکہ274 نامعلوم افراد جان
بحق ہوگئے۔ مرنے والوں کی کل تعداد2851 ہے۔
بیورو آف انویسٹگیٹو جرنلزم کے مطابق حملوں کی اعداد و شماربمطابق 2015
کل بمباریاں:419
کل اموات: 2467 تا 3976
عام شہریوں کی اموات: 423 تا 965
بچوں کی اموات: 172 تا 207
زخمی: 1152 تا 1731
بش حکومت میں حملے: 51
اوباما حکومت میں حملے: 368
ہزاروں اموات میں سے صرف 84کا تعلق القاعدہ سے تھا۔
پچھلے دنوں ایک بار پھر پاک سرزمین کے صوبہ بلوچستان کو ڈرون حملے کا نشانہ
بنا کر وطن عزیز کی سالمیت کو قد غن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت پاکستان
اور عسکری اداروں کے سربراہان کو چاہئے کہ دو ٹوک الفاظ میں صاحب بہادر کو
جواب دے کر کہے کہ ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان میں ڈرون
کی آڑ میں امریکی در اندازی ہر گز قبول نہیں۔ وطن عزیز کے محب وطن شہریوں
اور امن پسند مسلمانوں کو لڑنے پر مجبور نہ کریں۔
|
|