سارا ملک مفاد پرستوں کی اسٹیٹ بنا ہوا ہے
ایک طرف تو ناجائز سرمایہ باہر بھیج کر وہاں اربوں ڈالرز دفنا ڈالنے والے
افراد موجود ہیں صرف ایک ملک میں پانامہ لیکس کے ذریعے رقوم بھجوانے اور
وہاں کاروبار کو بغیر ٹیکس چمکانے والے چار سو کا اعلان بھی ہو چکا ہے باقی
ملکوں میں کتنے اربوں ڈالرزکے انھی و دیگر کاروباری اور سیاسی لیڈروں کا
روپ دھارے افراد کے اکاؤنٹس موجو د ہیں خدائے لم یزل ہی بہتر جانتے ہیں
محتاط اندازے کے مطابق بیس کھرب ڈالرز کالادھن کی صورت میں محیرا لعقول
ھیرا پھیریوں کے ذریعے ملک سے باہر لے جائے جا چکے ہیں کب تک یہ مکمل عقدہ
کھلے گااور کب ان کے گلوں میں رسہ فٹ ہو گا قوم بے تابی سے اس کی منتظر ہے
دوسری طرف اندرون ملک کرپٹ دندناتے ہوئے پہلوان نما افراد شیروں کی کھالیں
اوڑھے ہوئے گیدڑوں کا راج ہے سود خور سرمایہ داروں ،کرپٹ جاگیرداروں اور بے
دین وایمان کرپٹ بیوروکریٹوں کی تکون ہمیشہ ہی مقتدر رہتی ہے یہ چڑ ھتے سور
ج کے پجاری گھسے پٹے افرادسیاست کو اپنی زر خرید لونڈی بنائے بیٹھے
ہیں۔دنیا سے الگ تھلگ ہمارے ملک کی سیاست انوکھے دور سے گزر رہی ہے فراڈیے
سرمایہ پرستوں نے سیاسی لیڈروں کو ڈھیروں مال متال کے ذریعے خرید رکھا
ہے۔یعنی وہ لیڈروں کی اے ٹی ایم مشین بنے ہوئے ہیں یا پھرپارٹی لیڈرزکروڑوں
ڈالرز جمع کرکے سیاسی اٹ کھڑ کا کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی کاروبار میں
منافع سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ ہے۔15-20کروڑ خرچ کرکے اسمبلی کے ممبر
منتخب ہو جاؤ پھر تو وارے نیارے ہیں ااور کھرب پتی بن جانا کوئی بعید نہ ہے
خربوزوں کے کھیت کا گیدڑ رکھوالایابلی کو دودھ کی رکھوالی بٹھاؤ گے تو ہاتھ
ملتے رہ جاؤ گے۔اسی طرح سیاست کے نام پر مکروہ کاروباروں کے ذریعے اربوں
ڈالرز کمانے والوں کاکوئی بال بھی بیکا آج تک نہیں کرسکا۔موجودہ ممبران
اسمبلی نے ایک ہی جست میں اتفاق رائے سے ایسابل پاس کر لیا ہے جس میں ان کی
تنخواہیں یکمشت ساڑھے چار گنا بڑھ گئیں ہیں۔اگر فرض محال پہلے تنخواہ اسی
ہزارروپے ماہانہ تھی تو اب الاؤنسز وغیرہ ڈال کر تقریباً ساڑھے چار لاکھ سے
بھی زیادہ ہو جائے گی۔اس بل کی نہ تو کسی نے مخالفت کی ،نہ واک آؤٹ ہوا اور
دھرنے بازانصاف پسندوں نے بھی کسی جلسے جلوس اور دھرنے کی جعلی کال بھی نہ
دی۔ایسے مثالی اتحاد کا مظاہرہ اسمبلی میں ہوا جس کی مثالیں تاریخ میں کم
کم ہی ملتی ہیں ایسا محسوس ہوا کہ اپوزیشن ممبران اور حکومتی بنچوں پر
براجمان ممبران ایک ہی ماں کے جنے ہوئے ہوں ۔پچھلے سال بھی ان کی تنخواہوں
میں جب اضافہ ہوا تو میں نے احتجاجاً "ممبران اسمبلی کی تنخواہیں"کے عنوان
سے کالم میں اس کا فوراًاظہار کردیا تھا۔اس دفعہ بھی دوبارہ ذاتی مفاداتی
بل منٹوں میں پاس کرکے ثابت کردیا گیا ہے کہ ہم صرف اور صرف پیسے کے پجاری
ہی نہیں بلکہ سرمایہ ہی ہمارا باپو بلکہ دادا ابو ہے۔ایسا بل پاس کرنا جس
سے عوامی مفادات پرضرب پڑے غیر آئینی ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی بھی ٹھہرایا
جاسکتا ہے اور ساری اسمبلی دفعہ 62-63پر پورا نہ اترنے کی بنا پر نااہل
ہوسکتی ہے۔ایسے ممبران مشرقی پاکستان(حال بنگلہ دیش)میں مکروہ حسینہ دیوی
کی سینہ زوری کی مذمت کیونکر کرسکتے ہیں۔انھیں محب وطن افراد کی پھانسیوں ،شہادتوں
پر فکر کرنے کا وقت تک ہی نہیں ہے کہ وہ تو سبھی سرمائے کے حمام میں اکٹھے
ننگے نہارہے ہیں۔پہلے وکی لیکس اور اب پانامہ لیکس پرانکوائریاں ،تفتیشیں
اور نام نہاد کمیٹیوں کی تشکیل در اصل ایک دوسرے کو رقوم ہڑپ کرنے دینے اور
خود کو بری کروانے کے انوکھے جدید حربے ہیں۔یہاں خود ہی ملزم ،خودہی تفتیشی
اور تحقیقات کرنے والے حتیٰ کہ جج اور منصف بھی خود ہی ہیں یہ جو فیصلہ
سنائیں گے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔"انا ں ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ کے اپنیاں
نوں"کرپشن کنگزیعنی لوٹ کھسوٹ کے اجارہ داروں نے اپنا 95فیصد سے زیادہ مال
باہر بھجوا رکھا ہے اور یہاں انہوں نے ہی بمعہ اپنے ساتھیوں کے تنخواہیں
کئی گناہ بڑھالی ہیں کیا کوئی مائی کا لا ل ان پرٹیکس عائد کرسکتا ہے نہیں
ہر گز نہیں اور نہ ہی کرپشنوں یا بدکرداریوں پر پکڑ دھکڑکہ عزت اور نو کری
سبھی سرکاری ملازموں کو پیاری ہوتی ہے۔وگرنہ یہاں تو بہاولنگری ن لیگی
جاگیردار ایم این اے کے نشہ میں دھت صرف نوکروں کی گرفتاری بھی ڈی پی او
شارق کمال صدیقی کو صوبہ بدر کرسکتی ہے قصور وار ملازموں کو پکڑنے پر"
شریفوں" نے یہ سز ا دے ڈالی ہے اگر کسی نشئی ایم این اے کو پکڑا جاتا تو
متعلقہ ڈی پی او کو شاید دنیا بدر ہی ہونا پڑ جاتا۔خدا دیکھ رہا ہے اب ایسی
اسمبلی کا وجود قائم رہنا جس کے ممبران صرف اپنے اپنے مفادات کے دائرے میں
گھوم رہے ہوں ایک معجزہ ہی ہو گا۔ان ممبران میں سے73فیصد تو وہ ہیں
جو2013سے لیکر آج تک کسی اجلاس میں ایک لفظ بھی نہیں بولے۔انھیں آپ گونگے
بہرے ممبران کہہ سکتے ہیں۔سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے150میگا کرپشن کیسزمیں
تیسرے حصہ سے زائدمنتخب ممبران اسمبلی ملزم ہیں خودہی پیر خود ہی مرید مال
کون برآمد کرسکتا ہے کسی دو رمیں تو ہر ممبر حکومت کو تین کروڑبیس لاکھ
سالانہ میں پڑتا تھا آجکل جو بڑھوتری ہوئی ہے اسے کلکولیٹ کیا جائے تو6کروڑ
سالانہ میں پڑ رہا ہو گا الامان و الحفیظ۔ویسے تو اسی تناسب سے سرکاری
ملازمین اور مزدوروں کی تنخواہیں بھی بڑھائیں تو وہ بھی ایک تولہ سونا کی
قیمت کے برابر وصول کرسکیں گے۔مگر کون جیتا ہے تیر ی زلف کے سر ہونے تک ان
بیچاروں کو کون پو چھے گا ممبران ایک لاکھ چار ہزار روپے ماہانہ کا فون مفت
استعمال کرسکتے ہیں پچاس ہزار یونٹ یعنی ماہانہ آٹھ نو لاکھ کی بجلی
استعمال کرنے کی اجازت ہے عام ہوٹلوں سے ان کی کینٹین پر ہر قسم کا کھانا
پندرہ گنا کم قیمت پر موجود ہے اس کے علاوہ ماہانہ دفتر کی آرائش و زیبائش
کے لیے بھی ایک لاکھ بیس ہزار روپے خرچ کرسکتے ہیں خلفائے راشدین کے دور
میں لاکھوں مربع میل علاقوں پر حکمرانی مساجد کی چٹائیوں پر بیٹھ کرچلتی
رہی۔امیر ملک کا صدر اوبامہ سفر پر جاکر اپنے ملک کی ایمبسی میں قیام کرتا
ہے۔اور غریب ملک پاکستان کا وزیر اعظم جب ادھار مانگنے بھکاری بن کرکشکول
اٹھائے جاتا ہے توچھ لاکھ روپے روزانہ کرایہ کے کمرہ میں قیام کرتا ہے۔
ہمارے ہاں سیکولر جمہوریت ایسے ہی لیڈر منتخب کرتی ہے جو غریبوں کے جمع
کردہ ٹیکسوں سے عیاشیاں کرتے ہیں۔92فیصد تو وہ ممبران ہیں جو صنعتکار
یاجاگیردار طبقات سے تعلق رکھتے ہیں انھیں تو تنخواہوں کی ویسے ہی ضرورت نہ
ہے مگر پھر بھی "اﷲ کا فضل" کے نام سے لاکھوں کروڑوں کی دیہاڑیاں لگاتے ہیں
کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔پارٹی قائدین کو ٹکٹ حاصل کرنے
کی صورت میں چار پانچ کروڑ روپے دیے تھے اب وہ کمائیں نہ تو ان کا سٹیٹس
خراب ہوتا ہے۔ممبران کے منہ کوخون لگ گیا ہے ہر سال تنخواہ بڑھا لیا کریں
گے اور غریبوں کے خون سے جمع شدہ خزانہ کیایو نہی لٹتا رہے گا؟مگرنہیں! اب
کی بار عوام ضرور اﷲ اکبر اﷲ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلیں
گے اور مقتدروں کے مقدر میں ٹکٹکیاں ہی ہوں گی کہ یہی مشعیت ایزدی بھی ہے۔ |