’بیدار مسلماں سوتا ہے‘
(nazish huma qasmi, mumbai)
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ چند مسلمان
ہندوستان آئے انہوں نے اپنے اخلاق وکردار اطوار اور طرز زندگی سے
ہندوستانیوں کو متاثر کیا اور حکومت کے منصب عظمیٰ پر فائز ہوئے ترقی شان و
شوکت عزت و عظمت دولت و شہرت سب کچھ ان کے قدموں پر نثار تھی … پورے ملک
میں انکا سکہ چلتا تھا … تعداد میں چند پر انکی شان نرالی و یکتا تھی …
لیکن پھر گردش دوراں اور وقت کے بدلاو تلک الایام ندوالہا بین الناس کے
لافانی اصول کے تحت نے زمانہ کے گرداب نے انہیں شکست وریخت سے دوچار کیا
اور وہ قوم جسکی مثالیں دی جاتی تھیں … تاریخ میں اسکی ذلت خواری بھی رقم
ہوگئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھیک کی آڑ میں انکے تخت کو متزلزل کیا اور
انکی حکومت کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا اور احساس ہزیمت و شکست کا احساس
تب ہوا جب سب کچھ لٹ چکا تھا … اور یہ سب کیوں ہوا…؟ تو اس کا جواب یہ ہے
کہ کہ مسلمان خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے … مستقبل کے فکر سے مست و مگن …
حقائق سے انہوں نے آنکھیں چار کرنا چھوڑ دیا تھا … ملت کے مسائل کے لئے
اقدامات کرنا بند کردیا تھا ، آپسی چپلقش ان میں پیدا ہوگئی تھی ۔ لیکن
حکومت کا جانا انہیں جھنجھوڑ گیا ، انکی غیرت کو للکار گیا اور بہت سی
تحریکیں اٹھیں جس سے مسلمانوں کو ہوش نصیب ہوا ، بے پناہ جد و جہد کوششیں ،
سعی وکاوشیں اور قربانیاں جن کے بدلہ میں آزادی کا پروانہ ملا اور ملک میں
پھر سے آزادی کی فضا عام ہوئی… سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا کے نعرے
بلند ہوئے … لیکن اب حکومت کا طرز بدلا ہوا تھا اب حکومت اسلامی یا مسلمانی
نہیں تھی بلکہ جمہوری تھی اب ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا تھا… مسلمان جو بہت
سے مصائب سے دوچار ہو کر آئے ان کے لئے یہ مشکل ترین مرحلہ تھا ۔ اب یہاں
سے خود کو اس شان کے ساتھ ملک میں باقی رکھنا، آگے بڑھنا ، اقلیت میں ہونے
کے باوجود اپنے مقام اور حیثیت کو ثابت کرنا مشکل تھا۔ کچھ وقت تو ایسا
مشکل تر گذرا کہ جس میں یہ سب سوچنا بھی جرم گردانا جاتا اور مسلمانوں کے
لئے اس وقت میں آگے بڑھنا ناممکن سا محسوس ہوتا تھا ۔ لیکن مسلمان وہ عظیم
قوم ہے جسکے ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو احساس ہوجاتا ہے کہ یہ حالات
اسکے لئے نئے نہیں تھے … بلکہ ہمیشہ ڈوبتی کشتی کواس قوم کے نونہالوں نے
اپنے حوصلوں، عزائم اور کوششوںکے بل ساحل سے لگایا ہے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس
کا اعتراف دنیا کی ہر قوم کرتی ہے مگر مسلمان اپنے ماضی کی بنیاد پر عمارت
تعمیر نہ کر سکے اور آزاد ہندوستان مین اپنی خاطر خواہ نمائندگی درج کرانے
میں ناکام ثابت ہوئے ۔ وقت گذرتا رہا شب وروز تبدیل ہوتے رہے مسلمانوں کی
حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ سچر کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنی پڑی
کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے۔
آج آزادی کو تقریبا 69سال گذر چکے ہیں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا
اعدادوشمارکہتے ہیں کہ مسلمان اس وقت ملک میں18.2فیصد ہیں لیکن اگر انکی
نمائندگی کی بات کی جائے تو ہر شعبہ اس سے کہیں کم سیاست ، تجارت ، معیشت ،
تعلیم ہر جگہ مسلمانوں کی نمائندگی حوصلہ شکن ہے ۔ اس امر کا احساس کرانے
کے لئے کافی ہے کہ مسلم قوم ابھی آنکھیں نہیں کھولی ہیں ، سیاست میں کوئی
ایسا رہبر نہیں ہے جوہمارے مسائل کو لیکر آگے بڑھے ، رہنمائی کے مقدس
فریضہ کو انجام دے ، جس کے پیچھے پوری ملت بلاکسی تفریق مسلک کے چل پڑے اور
جمہوری ملک میں اپنا وقار ، اپنی حیثیت ثابت کرسکے ۔ آگے بڑھئے اور شعبہ
تعلیم پر نگاہ ڈالئے تو ہر دردمند دل اور فکر رکھنے والے فرد کی آنکھیں
ساون کی طرح برس پڑیں گی اور احساس ہوگا کہ ہماری زیست کن حالات سے دوچار
ہے اور قوم کے مستقبل کا رخ کس جانب ہے ۔ کون ہے جس نے ہمارے ہاتھوں سے قلم
چھین لئے …؟ کون ہے جس نے ہماری زبانوں سے تہذیب چھین لی؟ ساری کائنات کو
سلیقہ سکھانے والوں کی پہچان آج بدسلیقگی بداخلاقی سے مزین ہے۔ جس نبی ﷺ
کا فرمان یہ ہے کہ ’’اطلبو العلم من المعہد الی الحد‘‘اس قوم کے افراد کا
یہ حشر یقینا تکلیف کا باعث ہے ۔ ابھی سول سروسیز کے نتائج آئے جس میں
مسلمانون کی نمائندگی پورے ملک سے 34افراد کی شکل میں آئی اگر اندازہ
لگایا جائے تو معلوم ہوتاہے ہماری یہ نمائدگی 144افرادکی شکل مین ہونی
چاہئے تھی لیکن آدھے سے بھی کم ۔ مگراب بھی خدا کا شکر ادا کیجئے صفر بھی
ہوسکتی تھی … حالات اسکی دستک دیتے ہیں اگر کوئی بچہ اعلی تعلیم کی طرف قدم
بڑھاتا ہے تو بہت سی زبانین دراز ہوتی ہیں… طرح طرح کے مسائل پیدا کرکے
انہیں پیچھے ڈھکیلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں… مشورے دئے جاتے ہیں کہ میاں
کہاں اتنے مشکل کورس مین بھیج رہے ہیں زندگی گذر جائے گی کامیاب نہیں ہوگا
۔ مزدوری کرنے پر مجبور ہوگا … یہ حوصلہ شکن کلمات اسکی راہ مین ایسی چٹان
بن کرحائل ہوتے ہین جن کے سامنے لاکھوںمیں کوئی ایک مانجھی بنتا ہے… غریب
مفلس ماں باپ کے حوصلہ پست ہوجاتے ہیں وہ صلاحیت مند بچہ جو قوم کامستقبل
تھا جس کو بہت اعلی اور بلند کارنامے انجام دینے تھے اس ستم ظریفی کے باعث
کسی ہوٹل کے برتن دھورہا ہوتا ہے… کسی لوکل کمپنی کے سم فروخت کررہا ہوتا
ہے۔ اس طرز اور طریقہ سے ہم نے قوم کے نہ جانے کتنے فرزندوںکی راہ میں روڑے
اٹکائے ہیں اور روک دئے جب کہ ہم اس قوم کے فرزند ہے جہاں طارق بن زیاد نے
کشتیاں پھونک دی ہے … جہاں اسلحہ بم وبارود سے نہیں صرف حوصلوں سے معرکہ سر
کئے جاتے ہیں… جہاں قاسم کے بیٹے چند نفریوں پر اپنے عزائم کے بل بوتے
ہندوستان آجاتا ہے ۔ اگر ہم نے دوسرا رویہ اور طریقہ اختیار کیا ہوتا اور
ایک دوسرے کی مدد امداد حوصلہ افزائی سے کام لیا ہوتا تو نتائج کچھ اور
ہوتے ۔
اس ملک میں جہاں ہرطرف سے ہمارے خلاف صدائیں بلند ہوتی ہیں ہم خود بھی اپنے
خلاف ماحول پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اس طرز اور رویہ سے ہم نے
ہر شعبہ میں اپنی نمائندی کم کرلی ہے۔ آپ دیکھئے سول سروسیز کے یہ نتائج
ہمیں بتارہے ہیں کہ اگر ہمارہ طریقہ بدلتا ، ہم حقائق کوسمجھتے ہوئے مستقبل
کو بھانپتے ہوئیاگے بڑھتے تو تصویر کچھ اور ہی ہوتی ۔ 17بچے ایک ایسے ادارے
سے آئے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کررہا ہے کوچنگ کرارہاہے ۔ اگردوسراایسا
ادارہ ہو تو کیا نتائج بدلیں گے نہیں ؟ صلاحتیں آج بھی مسلمانون میں ہے۔
ضرورت روش بدلنے اور سوچ بدلنے کی طریقہ کار مین تبدیلی کی ہے ۔ ہماری زبان
حوصلے توڑنے کے لئے نہیں بلکہ ہمارے ہاتھ مدد کے لئے آگے بڑھیں تو ہمارہ
مقدر بدل جائیگا ہمیں کسی کے بھروسے نہیں بیٹھنا ۔ اب نیند سے بیدار ہونا
ہوگا۔ قوم کے مستقبل کی فکر کرنی ہے تعلیم کے شعبہ مین زریں اور کارہائے
نمایاں انجام دینے ہوں گے۔ دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم ہی دنیا میں
نوادرات اور اعلیٰ ایجادات کے موجد ہیں۔ جب ایک نانوتوی ؒ ایک سرسید ؒ قوم
کی بلندی کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں تو آج ہم سب مل کر کیوں نہیں غور
کریں۔ 2فیصد ہمیں پورے سال میں بینک قرض دیتے ہیں جبکہ ہماری قوم میں ایسے
افراد بھی ہیں جو کروڑوں کا ٹیکس جمع کرنے والے ہیں ۔ پھر کونسی چیز ہے جو
ہمیں بھیک مانگنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کیوں ہم اسلامک بینکنگ نظام کی کوشش
نہیں کرتے ؟ کیوں اس سلسلے میں ہم اقدامات نہیں کرتے ۔ جیلیں مسلمانون کے
دم سے آباد ہیں … پھر ہمارا کیوںلاء فارم نہیں؟ ان سب سوالوں کا ایک ہی
جواب ہے ہم سوئے ہوئے ہیں۔ دوسروںکے بھروسے زندگی گذار رہے ہیں۔ اپنی طاقت
اور قوت کو بھول چکے ہیں ۔ اتحاد ویکجہتی سے منہ موڑ کر آمین بالجہر اور
سر میں پڑے ہوئے ہیں۔ دیوبندی بریلوی کے چکر میں پڑ کر ایک دوسرے کو کافر
گرداننے میں لگے ہوئے ہیں خدارا اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانیں ۔ خودی کاجو
درس اقبال علیہ الرحمہ نے دیا اسے یاد کرنا ہوگا تبھی ہم پھر سے ترقی کر
پائیں گے جبھی خوف وہراس کے بادل چھٹیں گے … اور تنزلی ختم ہوگی … ترقی کی
راہیں ہموار ہونگی ۔ پھر سے وہ مقام و منصب ہمارے قدموں میں آجائے گا جو
ہمارے لئے رب کائنات نے خیر امت بنا کر ہمارے حصہ میں کررکھا ہے۔ |
|