یہ سوال ہمیشہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے حکمران
ملکی ہسپتالوں کو کیوں مسترد کردیتے ہیں۔ وہ کیوں چھینک آنے پر بھی علاج کے
لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے وطن کے مایہ ناز ڈاکٹروں پر اعتماد
کیوں نہیں۔ پاکستانی ڈاکٹرز اور دیگر پروفیشنلزکی دنیا میں شہرت ہے۔ انہیں
قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ان کا ٹیلنٹ بے مثال ہے۔ ہم اپنے لوگوں کی بے
قدری کیوں کرتے ہیں۔
اگر وزیراعظم نواز شریف لندن کے بجائے اسلام آباد راولپنڈی میں اوپن ہارٹ
سرجری کرتے تو اس سے یہاں کے ہسپتالوں کی شہرت میں اضافہ ہوتا۔ لندن اور
دنیا سے مریض اگر یہاں علاج کے لئے نہیں آتے مگر اس بار میں ایک بار غور
ضرور کرتے۔ اگر پاکستان کے صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف، وزیر، مشیر
اور دیگر ارباب اختیار اپنے ملک میں علاج و معالجہ کو ترجیح دیتے تو اس کے
ملکی نیک نامی پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ہماری ترجیح
ہمارا اپنا وطن نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے بچے باہر تعلیم حاصل کریں گے تو
ہمارا نظام تعلیم کبھی قیامت تک بھی بہتر نہ ہو گا۔ ہمارا نصاب تعلیم ہمیشہ
خراب رہے گا۔ اگر ملکی صدر ، وزیراعظم کا بچہ اپنے سکول ، کالج ، یونیورسٹی،
میڈیکل کالج، انجیئرنگ کالج میں تعلیم حاصل کرے گا تو اس نظام کی کوتاہیاں
بھی دور ہو سکیں گی۔ حکمران اس نظام کو بہتر کرنے پر توجہ دیں گے۔ کیوں کہ
ان کی اولاد یہاں زیر تعلیم ہو گی۔ حکمران تعلیمی ادارے میں بہترین فیکلٹی
یقینی بنائیں گے۔ تعلیم کا معیار بلند ہوگا۔ نیز یہاں کے عوام کا احساس
محرومی اور امتایزی سلوک والا احساس قدرے کم ہو گا۔ ایک حکمران اور ایک
غریب کا بچہ جب ایک جگہ تعلیم حاصل کرے گا۔ ایک ساتھ اس کا علاج ہو گا۔ پھر
انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ایک دوسرے کی اچھائیاں اپنانے
اور کوتاہیاں دور کرنے میں دلچسپی پیدا ہو گی۔ غریب امیر کا اھساس کمتری یا
برتری ختم ہو گا۔ جب حکمران ہی اپنے ادارے کو ٹھکرا دیں گے۔ تو پھر عوام
کدھر جائیں۔
وزیراعظم نواز شریف ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والے پہلے حکمران نہیں۔ وہ
اس دوڑ میں تن تنہا شامل نہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی کو اﷲ نے دولت سے مالا
مال کیا ہے۔ اسے نوازا گیا ہے تو وہ جہاں چاہے چلا جائے۔ تعلیم، علاج،
نوکری، کاروبار ہر ایک کی اپنی مرضٰ و منشاء کے مطابق ہو سکتا ہے۔اس کا
فیصلہ کرنے میں ہر کوئی آزاد ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں دو وقت کی
روٹی مشکل سے ملتی ہے۔ وہ کیسی باہر جا کر علاج کا سوچ سکتے ہیں۔
عدم مساوات اور محرمیوں کے شکار لوگہی آگے چل کر معاشرے کے لئے خطرہ بن
جاتے ہیں۔ پھر جہالت اور ناخواندگی بھی غالب آتی ہے۔ یہ کا جاتا ہے کہ اگر
مجھے نہ ملا تو کسی اور کو کیوں ملے۔ ایک جھونپڑی کے آگے شیش محل کھڑا ہو۔
یہ اس کی اپنی محنت ہے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے، راتوں رات کسی کی ظاہری آمدن
سے بڑھ کر محلات، پلازے، گاڑیاں، عیش و عشرت اچانک شروع ہو جائے تو پھر
سوال ضرور ہو گا۔ یہ سب کہاں سے آیا۔ بلا شبہ لاٹریا بھی نکل آتی ہیں۔
بانڈز بھی نکلتے ہیں۔ جو لوگ چوری، قتل کے ڈر سے سب پر ظاہر نہیں کرتے۔ مگر
لاٹری نکلے بغیر اگر کوئی میدان میں اتر جائے تو شک وشبہ کی گنجائش بنتی ہے۔
تو پھر وہ جھونپڑی والا شیش محل پر پتھراؤ کر سکتا ہے۔ ہمارے سامنے یہ بد
بخت رشوت خور بھی ہیں۔ یہ کمیشن مافیا بھی ہے۔ یہ میرٹ پامال کرنے والے بھی
ہیں۔ لیکن ہم خاموش ہیں۔ یہ کرپٹ اور رشوت خور، یہ مافیا زندگی ک مزے لوٹ
رہا ہے۔ حرام کمائی پر عیش کر رہا ہے۔ ملک سے باہر علاج کے لئے بھی یہ چلے
جاتے ہیں۔ قومی خزانے کو یہ لوٹ لیتے ہیں۔ ٹی اے ڈی اے کے نام، دیگر مدات
کے تحت یہ قانون کو بالائے طاق رکھ کر مراعات حاصل کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں
قانون کے ہاتھ لمبے ہیں۔ یہ اس کی گرفت میں آئیں گے۔ قانون کو ہاتھ میں نہ
لینا چاہیئے۔ یہ من مانیاں کرتے رہیں۔ سب ہمارے آس پاس ہو رہا ہے۔ ہم یہ
تماشہ دیکھ رہے ہیں۔مگر افسوس ہے قانون بھی انہیں کالا دھن سفید کرنے کی
رعایت دیتا ہے۔ گندگی کبھی صاگ نہیں ہوتی۔ کالا کبھی سفید نہیں ہو سکتا۔
مگر ہم کمال کے لوگ ہیں۔ ہم ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرتے ہیں۔ بلیک منی وائٹ
ہو جاتی ہے۔
وزیراعظم لندن کے بجائے اسلام آباد ، کراچی، لاہور میں علاج کراتے۔ دنیا
میں بھی خبر پہنچتی۔ پاکستان کے ہسپتالوں کی شہرت ہوتی۔ ہم بھی اس کی تشہیر
کراتے۔ یہ ملک کے مفاد میں تھا۔ لیکن جب ملکی حکمران کو اپنے ڈاکٹر، استاد،
پروفیشنل پر اعتماد نہیں ہو گا تو باہر والا کیوں کرے گا۔ آرمڈ فورسز انسٹی
چیوٹ آف کارڈیالوجی(اے ایف آئی سی)راولپنڈی اسلام آباد میں ہی نہیں بلکہ
ملک بھر میں صف اول کا قابل اعتماد ہسپتال ہے۔ جو امراض قلب کے جملہ علاج
کرتا ہے۔ بائی پاس سرجری، اوپن ہارٹ سرجری سمیت یہاں ہر قسم کا علاج ہو
سکتا ہے۔ اسی طرح نیشنل انٹی چیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز بھی ہے۔ ہارٹ اینڈ ہارٹ
بھی ہے۔ شفا ہسپتال ، آغا خان ہسپتال سمیت لا تعداد ہارٹ سپیشلائزیشن کے
مراکز ہیں۔ مگر ہم اپنی دولت باہر لے جاتے ہیں۔ دوسروں کو شہرت بخشتے ہیں۔
اس وجہ سے ہم دولت اور شہرت دونوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اگر ہمارے حکمران، وزیر مشیر، بیوروکریٹ مخلص ہوں تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اس
ملک میں اﷲ کی ہر ایک نعمت ہے۔ بلکہ یہاں نعمتوں کے ذخائر موجود ہیں۔ ٹیلنٹ
ہی ٹیلنٹ ہے۔ لیکن میرٹ کی پامالی ہے۔ وزیراعظم کا علاج کے لئے باہر جانے
بھی میرٹ کی پامالی ہے۔ میرٹ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے ملک کے کسے ہسپتال
میں داخل ہوتے۔ پھر ان کی وجہ سے اس ہسپتال میں سہولیات بہتر ہو جاتیں۔
مشینری دستاب رکھنے کا بندو بست ہو جاتا۔ اغلے حکمران کے یہاں آنے تک اس
ہسپتال کا معیار اوپر چلا جاتا۔ ادویات کے معیار پر توجہ دی جاتی۔ جب ہمارے
سکول ہسپتال صرف غرین اور محروم طبقوں کے لئے رہ جائیں گے تو کوئی کیوں ان
کے معیار پر توجہ دے گا۔ اﷲ کرے وزیراعظم کا آپریشن کامیاب ہوا ور وہ صحت
یاب ہو کر ملک کے اداروں کو ہی ترجیح دینے کی پالیسی تشکیل دیں۔ باہر ایسا
کیا ہے جو یہاں دستیاب نہیں رکھا جا سکتا۔ پی پی پی ، پی ٹی آئی یا کسی نے
بھی وزیراعظم کے بیرون ملک علاج کی مخالفت نہیں کی کیوں یہ سب بھی امریکہ
برطانیہ کے علاج کو پاکستان کے علاج پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان سب کی نظر میں
یہاں بسنے والے انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے ہیں۔ |