دونوں ممالک کے درمیان جاری مذاکرات میں
ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے۔ ایران نے بات چیت جاری رکھنے کے بجائے اسے ناکام
قرار دے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہران نے رواں سال حج کا بائیکاٹ کرنے کا
اعلان کیا ہے۔ حج کا بائیکاٹ ایران کا غیر معمولی فیصلہ ہے۔ اسی فیصلہ کے
تناظر یہ الزام لگایا جار ہا ہے کہ سعودی عرب نے ایران کے خلاف سائیبر جنگ
چھیڑ دی ہے۔ ایران کے وزیر ثقافت علی جاننتی نے اپنے سرکاری ٹی وی پر جو
کہا ، اس کے مطابق سارا قصور سعودی عرب کا ہے۔ اس لئے ایران اس سال زائرین
حج مکہ اور مدینہ نہیں بھیجے گا۔ سعودی عرب نے ایران کے لئے کیا رکاوٹیں
کھڑی کی ہیں ، اس بارے میں ایران کی جانب سے کوئی معقول وضاحت پیش نہیں کی
گئی ہے۔ ایرانی تنظیمیں سعودی عرب پر عدم تعاون کا الزام لگا رہی ہیں۔
سعودی وزارت حج و عمرہ کا بھی اپنا موقف ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ایرانی وفد
نے بات چیت کے کئی دور کئے۔ جب معاہدہ پر دستخط کرنے کا وقت آیا تو انہوں
نے بات چیت ختم کر دی۔ ایرانی وفد نے ایشوز کو حل کرنے کے لئے ہونے والے
معاہدہ پر دستخط کرنے سے کیوں انکار کیا، اس بارے میں کوئی معقول جواز یا
دلیل پیش نہیں کی جا سکی ہے۔ سعودی وزارت نے کوئی الزام لگائے بغیر کہا ہے
کہ ایرانی مسلمانوں کو حج نہ کرنے دینے پر ایرانی وفد اﷲ تعالیٰ کے سامنے
جوابدہو گا۔ یہ موقف سعودی وزارت حج نے ایک بیان میں پیش کیا ہے۔
حج دین کا ایک اہم رکن ہے۔ یہ دین کا ایک ستون ہے۔ ہر ایک عاقل وبالغ اور
صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار حج بیت اﷲ فرض ہے۔
ایران کی جانب سے حج بیت اﷲ کا بائیکاٹ افسوسناک فیصلہ ہے۔ اس سے دونوں
ممالک کے درمیان کشیدگی اور دوریاں بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ شام تنازعہ کی وجہ
سے دونوں کے درمیان پہلے ہی تناؤ ہے۔ تعلقات بگڑ چکے ہیں۔ ایران اس تنازعہ
میں دمشق میں صدر بشر الاسد کی حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب ملیشیا کا حامی ہے۔
گزشتہ سال سعودی عرب میں دوران حج حادثات میں لا تعداد حجاج کران شہید ہو
گئے۔ بھگدڑ مچنے سے سعودی عرب کے مطابق 700ہلاکتیں ہوئیں۔ایران کے 60ہزار
مسلمان حج پر آئے تھے۔ اس بھگدڑ میں ایران ان ہلاکتوں کی تعداد 4500بتاتا
ہے۔ امریکہ کے خبرساں ادارے اے پی نے یہ تعداد 2411بتائی۔ اس کشیدگی کے
دوران رواں سال سعودی عرب نے لا تعداد جرائم پیشہ لوگوں کو سزائیں دیں۔
سعودی عرب میں مجروں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ سزا پانے والوں میں ایک
شیعہ عالم شیخ نمر النمر بھی شامل تھا۔ جس پر ایران نے سخت احتجاج کیا۔ اگر
کوئی مجرم ہے۔ اس کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔ تو
بیرون ملک کوئی ریاست سرکاری طور پر اس عدالتی فیصلے پر تنقید کا کیسا حق
رکھتی ہے۔ یہ سوال بحث طلب ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اسے دوسرے ممالک کے
اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایران میں اگر کسی
کو ملکی قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔ اس میں ظلم یا کسی امتیاز یا نا
انصافی کا کوئی عنصر موجود نہ ہو تو سعودی عرب یا کوئی بھی ملک اس کے خلاف
کیسے آواز بلند کر سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اسے بے جا مداخلت کہا
جائے گا۔ سعودی عرب میں شیعہ عالم جو سعودی شہری تھا، کو سزا دی گئی۔ اس پر
ایران کے مذمتی بیانات آئے۔ یہاں تک کہ تہران می سعودی سفارتخانے پر
مظاہرین نے حملہ کر دیا۔ جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات
خراب ہو گئے۔ کیوں کہ ایران حکومت نے مظاہرین کو سعودی سفارتخانے پر حملے
سے روکنے کے لئے معقول بندو بست نہیں کیا۔
ایران میں جب کئی سرکاری ویب سائیٹس کو ہیک کر لیا گیا تو اس کا الزام بھی
سعودی عرب پر لگا دیا گیا۔ ایران کی سائیبر پولیسویب سائیٹس بھی ہیک ہوئی۔
جس پر دیجیٹل پولیس کے کمانڈر حسین رمزانی نے کہا کہ ہیکرز کے آئی پی ایڈرس
سعودی عرب کے تھے۔ ایران کی ڈیفنس آرگنائزیشن کے سربراہ جنرل غلام رضا
جلالی نے چند روز قبل سائیبر حملوں کا الزام لگاتے ہوئے سعودے عرب کو
وارننگ بھی دی تھی۔ ابھی تین برس قبل سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی کی ویب
سائیٹ کو ہیک کیا گیا۔ اس کا الزام اس لئے ایران پر لگایا گیا کہ یہ خلیج
فارس میں ایران کے تیل ٹرمینل پر سائیبر حملے کا ردعمل ہو سکتا تھا۔ رواں
سال مارچ میں امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ایرانی ہیکرز پر امریکہ میں سائیبر
حملے کرے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
یہ درست ہے کہ اسلام دشمن سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ کرانے کی
منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب وہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں
مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ سبھی کو معلوم ہے کہ اسلام دشمن متحد ہیں۔ وہ
مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ خانہ جنگی چاہتے ہیں۔ ایرانی ہیکرز پر سائیبر
حملوں کا الزام امریکہ نے بھی لگایا تھا۔ لیکن اس نے خود کوئی کارروائی نہ
کی۔ اس کی یہی کارروائی ہے کہ ایران پر حملوں کا الزام سعودی عرب پر ڈال
دیا گیا ہے۔ عرب دنیا میں شیعہ سنی معرکہ آرائی کے لئے مسلم دنیا کی دشمن
طاقتیں سرگرم ہو چکی ہیں۔ ایرانی مسلمانوں کو حج سے روکنا ان کا بڑا ہتھیار
ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ جبکہ مسلمان کو حج سے روکنا
بالکل جا جائز ہے۔ سعودی عرب نے آج تک کسی مسلمان کو حج سے نہیں روکا۔ وہ
ایسا نہیں کر سکتا۔ اگر ایرانی عازمین کی سکورٹی اور تحفظ کا مسلہ ہے تو
اسی سلسلے میں بات چیت ہو رہی تھی۔ ان مذاکرات کو ناکام قرار دے کر مغالطہ
پیدا کیا گیا۔ سعدی وزیر خارجہ عادل الجبیر مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ سعودی
حکومت کسی مسلمان کو حج سے نہیں روکتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران نے معاہدے
پر دستخط سے انکار کیا ہے۔ معاہدے کے تحت سعودی عرب میں سوئس قونصل خانہ
ایرانی زائرین کے سفر ، ویزا، قونصل خدمات پیش کرتا۔ ایرانیوں کو ای ویزا
جاری کئے جاتے۔ سعودی عرب ایرانی حجاج کی سلامتی کی ذمہ داری قبول کر رہا
تھا۔ ایران حج کے دوران مظاہرے کرنے کا حق دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ حج کے
دوران مظاہرے کرنے کا حق کیا ہے۔ حجاج کے جائز مطالبات ہو سکتے ہیں۔ انہیں
سہولیات اور رعایتیں در کار ہوتی ہیں۔ اگر وہ پر امن بات چیت کے بجائے
مظاہرے شروع کر دیں تو اس سے بلا وجہ افراتفری اور کشیدگی پیدا ہو گی۔ حج
کے مقاصد پورے کرنے میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لئے یہ مطالبہ بالکل درست
نہیں ہو سکتا۔ اس کی آڑ میں ایرانی مسلمانوں کو حج سے روکنا ناجائز ہو گا۔
ایران نے اس سے پہلے بھی 1987میں حج کے دوران سعودی عرب میں مظاہروں کی
منصوبہ بندی کی۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرائے۔ اس وجہ سے 400سے
زیادہ حجاج کرام شہید ہو گئے۔ پھر ایران نے حج کا بائیکاٹ شروع کر دیا۔ یہ
بائیکاٹ تین سال تک جاری رکھنے کے بعد ختم کیا گیا۔ 1979میں اسلامی انقلاب
کے بعد سے ایران کے سعودی عرب سے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ اس انقلاب
میں شاہ محمد رضا پہلوی کی بادشاہت ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ایران عراق
جنگ میں 10لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہو گئے۔ سعودی عرب نے عراق کا ساتھ
دیا۔ اس سے تلخی بڑھتی گئی۔ جبکہ اس جنگ سے مغربی اسلحہ بیچنے والوں کا
فائدہ ہوا۔ مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچا۔ آج بھی فائدہ مسلم دشمنوں
کو ہو گا۔ آپسی کشیدگی سے مسلمان نقصان میں رہیں گے۔ اگر آج بھی سعودی عرب
اور ایران شاہ عبد اﷲ اور صدر محمد خاتمی جیسی پالیسی پر چلیں تو دونوں
ممالک میں تعلقات دوستانہ ہو سکتے ہیں۔ |