اپوزیشن کے قومی اسمبلی اورسینیٹ سے
باربارواک آؤٹ ، میڈیاپرتندوتیزاورتلخ بیانات نے بالآخرنوازشریف کو قومی
اسمبلی میں آنے پر مجبورتوکردیالیکن اپوزیشن کے مجوزہ سات سوالوں کے تسلی
بخش جوابات نہ ملنے پر اپوزیشن لیڈر کی دومنٹ کی مختصراحتجاجی تقریر کے
بعددوبارہ واک آؤٹ اورپھرمیڈیاپرالزامات کی جنگ نے سیاست کے میدان کواس قدر
گرم کردیا کہ ملک کے دیگرتمام مسائل اس پاناما کی دھول میں گم ہوتے نظرآرہے
ہیں۔ وزیراعظم اس سے پہلے اسی سلسلے میں ٹی وی پردومرتبہ قوم سے خطاب
اوراسی پانامالیکس ایشو کے سامنے آنے کے بعدمولانافضل الرحمان کی ترتیب دی
گئی حکمت عملی کے تحت کئی عوامی جلسوں سے خطاب کرکے کئی منصوبوں کے
آغازاورلمبی چوڑی گرانٹس کااعلان کرکے مشترکہ سیاسی حریف عمران خان کوچاروں
شانے چت کرنے کی کوششوں میں بھی مگن ہیں لیکن اس کے باوجودوہ اس موضوع
پرشروع میں پارلیمنٹ کے سامنے لب کشائی کومشکل مرحلہ سمجھ رہے تھے مگرپیرکی
شام اپوزیشن کایہ مرحلہ شوق بھی انہوں نے طے کرلیا اوربہت سوں کے نزدیک خوب
طے کیاہے۔
میاں نوازشریف کے ساتھ ارادت کے تعلق میں بندھے ہوئے دانشورہی نہیں بلکہ ان
کے بعض مخالفین بھی میاں صاحب کی اسمبلی میں آمد اورخوب بولنے کوان کی بڑی
کامیابی سمجھ رہے ہیں جبکہ اپوزیشن کی حکمت عملی کے ناکام رہنے
کونہیں،متحدہ اپوزیشن کی حالیہ دنوں میں بروئے کاررہنے والی اصلاح بھی بے
معنی نظرآرہی ہے۔پیپلزپارٹی سمیت بعض جماعتوں کے حکومت کے ساتھ اس معاملے
پربھی بیک ڈور رابطے ،اہم فیصلوں خصوصاً پیر کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس
کاوزیراعظم کی تقریرکے بعداچانک واک آؤٹ اوراگلےروزایم کیوایم کا رخ بدل
کراپوزیشن کی ٹوکری سے اچھل کر باہر جاگرنامسلسل اوربڑی علامتیں ہیں۔
بالآخرحکومت اوراپوزیشن کے درجن بھر افرادکی ایک کمیٹی اب پاناماکی تحقیق
کیلئے ضابطہ اخلاق اور طریقہ کار طے کرے گی لیکن اس کمیٹی میں اپوزیشن کے
افرادکی نامزدگی میں ایم کیوایم کی جس طرح بے توقیری سامنے آئی اورآخراسی
پرانی تنخواہ پراسے بھی شامل کرلیاگیااورساری قوم نے ایم کیوایم کی وقعت کو
ملاحظہ کرلیا۔
دوسری جانب خودتحریک انصاف جس کے ساتھ بہت سے مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی
نے ہاتھ کردیا اور عملاً عمران خان کے سارے نوٹس،تیاریاں،
سوالات،وضاحتیں،خطابی جولانیوں کی ممکنہ آمداوردستاویزاتی شواہد دھرے کے
دھرے رہ گئے اور''پہ تماشانہ ہوا''کی روایت برقراررہی اوراس پرمستزاد جب
پارلیمنٹ کے باہر مشترکہ اپوزیشن کے ہمراہ خورشیدشاہ احتجاج کیلئے پریس سے
خطاب کررہے تھے تو وقت نے عوام کویہ منظربھی دکھایاکہ عمران خان جوکل
خورشیدشاہ کی کرپشن کے حوالے سے خوب خبرلیاکرتے تھے، ان کے پیچھے مؤدب اور
بے بس کھڑے تھے۔
وزیراعظم نوازشریف نے بعض اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تقریباًڈیڑھ ماہ سے
پانامالیکس کے بارے میں کئے جانے والے شوراور مطالبات کے بعد سولہ مئی
کوقومی اسمبلی سے خطاب کیا۔قومی اسمبلی میں ان کی یہ آمدمیڈیا رپورٹس کے
مطابق ۸۱دن کے طویل وقفے کے بعدممکن ہوئی۔اتفاق ہے کہ وزیر اعظم کی
پارلیمنٹ سے اپنے پارٹی کے اعلیٰ ترین فورمزتک دستیابی اورعدم دستیابی کی
بحث چلتی رہتی ہے۔ وزیراعظم کے بارے میں یہ تاثر پارلیمنٹ کی حدتک تودرست
ہوسکتاہے لیکن جہاں تک مسلم لیگ(نواز)کاتعلق ہے اس کا کم ازکم پچھلے۳۸ماہ
سے ایساکوئی اجلاس سرے سے ہواہے،طلب کیا گیاہے جس میں وزیراعظم کی عدم شرکت
کااعتراض کیاجاسکتاہو؟ سچی بات تویہ ہے کہ اقبال ظفرجھگڑاکے گورنر خیبر
پختونخواہ بننے کے بعدایک جانب پارٹی کے سیکرٹری جنرل کاعہدہ خالی ہے
تودوسری جانب مرکزی سیکرٹریٹ کاایشوبھی چند ماہ سے چل رہاہے۔نیزیہ کہ میاں
نوازشریف کی اہم سیاسی و جمہوری فورمزکیلئے آسانی سے دستیاب نہ ہونے
کااعتراض صرف ان کے سیاسی مخالفین ہی کرتے ہیں۔پارٹی کے کسی بھی فردنے کبھی
اس جانب خود توجہ کی ہے نہ ان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔
بہرحال وزیراعظم گزشتہ پیرکی شام پانامالیکس کے حوالے سے قومی اسمبلی میں
آئے اورانہوں نے اپنی تقریرسے بظاہرمیدان مارلیا، اپوزیشن اس تقریر
دلپذیرکی قطعاً توقع نہ کرتی تھی اگرکرتی بھی تواسمبلی اجلاس سے بعدازاں
واک آؤٹ کے باعث اپوزیشن جماعتوں نے اس پربرسرپارلیمان نقدونظرکے اپنے
پارلیمانی حق سے خودہی دست برداری اختیار کر لی ۔ اپوزیشن کی یہ دستبرداری
کس کس کی کوشش،خواہش اورشاہی فرمان یامجبوری کے سبب ممکن ہوئی اس پرابھی
جرح چلتی رہے گی۔وزیراعظم کی تقریرختم ہوتے ہی خورشیدشاہ کے جادؤئی اختصار
اور خاموش اظہارکے ساتھ ہی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں اورمیڈیاکومحسوس
ہوگیاتھاکہ پس پردہ بھی کچھ کھیل جاری ہے۔گویاوفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی
ہدائت کی روشنی میں جورابطے ہو رہے تھے اورجوپیغام رحمان ملک کے ذریعے سابق
آصف علی زرداری کو بھجوایاگیاتھاوہ اپنااثردکھاگیا اورپیپلز پارٹی نے ایک
جانب بڑی خوبصورتی کے ساتھ خودکوحقیقی اپوزیشن کے تعارف سے لیس کرنے کی
کامیاب کوشش کی اوردوسری جانب پاکستان تحریک انصاف سمیت سبھی اپوزیشن
جماعتوں کوغیررسمی طورپریہ باورکرادیاہے کہ تلناہے توسبھی کوایک ہی تکڑی
میں تلناہوگا۔یہ نہیں ہوسکتاکسی کوتوگندگی میں لت پت دکھایاجائے اوردوسری
کے کپڑوں سے خوشبوکا دعویٰ کیا جائے۔اپنااہم پتہ پھینک کروزیراعظم نے
اپوزیشن جماعتوں کوعملاًکام پرلگادیاہے۔
وزیراعظم کی تقریرکے بعدایک جانب اپوزیشن جماعتوں کویہ سوچنے کاموقع فراہم
کردیاگیاہے کہ ان کی اس معاملے میں اہلیت اورباہمی اتفاق کی حدکیاہے نیزیہ
کہ کون سی جماعت کس وجہ سے کس حدتک ساتھ دے سکتی ہے اور کس حدتک جانااس کے
پروں کے جلنے کاسبب بن سکتا ہے۔اپوزیشن جو پارلیمنٹ میں تماشادیکھنے
یالگانے کی کوشش اورامید لیکرگئی تھی ،اس میں توبری طرح ناکام ہوگئی البتہ
اگلے دن وزیراعظم کی عدم موجودگی میں اپوزیشن لیڈراورعمران خان نے دل کے
بھڑاس تونکالی لیکن اس کے جواب میں حکومتی ارکان نے بھی انہیں لمبے ہاتھوں
لیا ۔اب اپوزیشن بالخصوص عمران خان اپنے بکھرے پتوں کومختلف شہروں میں جلسے
کرکے سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن وزیراعظم بھی جوابی جلسوں میں
اپنے بہترپتے کھیلنے کاتاثردے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں بالعموم
اپوزیشن جماعتوں کی کمزوری اور صلاحیت ہی نہیں بروقت اورٹھیک ردّ عمل دینے
میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی کے فلورکوچھوڑکرپارلیمنٹ سے باہر
جاکربولنے کاآپشن استعمال کرکے پارلیمنٹ پربھی ایک طرح کاعدم اعتماد
ظاہرکردیاہے۔یہی بات نواز شریف کے حوالے سے اپوزیشن کررہی ہے کہ وزیراعظم
نے اسمبلی میں اپوزیشن کے سات سوالوں کاجواب نہ دیکرسب سے بڑے قومی فورم کی
اہمیت کوکم کرتے ہوئے اپوزیشن کی بھی توہین کی ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم نے جس اندازسے اپوزیشن جماعتوں کے بعض رہنماؤں کا نام لئے
بغیرانہیں تیرونشترکی زدمیں لانے کی کوشش کی اس پرمتعلقہ رہنماؤں
کاتڑپنا،بھڑکنااورپھڑکنا بنتاہے لیکن اس اعتراض کوبھی نظرانداز نہیں
کیاجاسکتاکہ وزیراعظم نے بطورقائدایوان جہاں اپنے خاندان کی کاروباری تاریخ
کا قبل ازپاکستان تفصیلی جائزہ پیش کیاوہیں ایوان کو اعتمادمیں لیتے ہوئے
کم ازکم یہ ضرورکہہ سکتے تھے کہ ہاتھ کنگن کوآرسی کیا،میں اپوزیشن جماعتوں
کے ہرسنجیدہ سوال کاجواب دینے کوتیارہوں لیکن اس پر ابھی کام ہورہاہے
اورجیسے ہی یہ کام مکمل ہوجائے گا،یہ معتبرایوان کے سامنے آجائے گا،خواہ یہ
پارلیمان کی مجوزہ کمیٹی کے ٹی اوآرزکی بنیاد پر قوم کے سامنے آئے لیکن یہ
حقیقت ہے کہ وزیر اعظم نے اپوزیشن کے سوالات کے جوابات نہ دیکر ایوان کے
ماحول کوخوشگوارکرنے اور ایک بڑے لیڈرکی طرح سب کوساتھ لیکرچلنے کے داعیے
سے کام نہیں لیا بلکہ اپوزیشن کی بعض جماعتوں کو اپنے غیر مصلحانہ خطاب سے
مزیدناراض کردیا ہے۔یہ اوربات کہ ان جماعتوں کی قیادت خودبھی دفاعی پوزیشن
پرآ جانے کے باعث پہلے والی شدومدکے ساتھ وزیراعظم کے خلاف اب اپنی مہم
جاری رکھ سکتی ہے یانہیں۔
بلاشبہ پی ٹی آئی اورپی پی کے بعض لوگوں کی آف شورکمپنیوں کاریکارڈ سامنے
آنے کے بعدبالعموم عمران خان کی اپنی آف شورکمپنی کے انکشاف کے بعدبالخصوص
معاملہ پہلے سے مختلف ہوچکاہے اورعمران خان دفاعی پوزیشن پرمجبورہوچکے ہیں۔
انہیں اس مرتبہ پارٹی کے کئی رہنماؤں کے پورے ساتھ کابھی یقین نہیں جبکہ
پیپلز پارٹی جس نے اپنی قیادت کے خلاف بہت سارے مقدمات کی وجہ سے جنرل مشرف
کے ساتھ این آراو کرناضروری سمجھاتھا،ابھی تک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ کم
ازکم کرپشن کے خلاف ایک کھلی جنگ لڑ سکے یاکسی کھلے عام حصہ بن سکے۔اس
تناظرمیں وزیراعظم کی جانب سے اپنی تقریرمیں میثاق جمہوریت کے تحت نئے
احتسابی ڈھانچے کیلئے مل کرکام کرنے کے پیپلزپارٹی کے ساتھ پرانے ساتھ
اتفاق کاحوالہ دیکر ایسا پتہ پھینکاکہ پی پی اس پیشکش کوکسی بھی صورت
ردنہیں کرسکتی ۔
بلاشبہ ضربِ عضب کاحصہ بن جانے والی کرپشن مخالف لہرکے ہوتے ہوئے پی پی
کیلئے یہ اوربھی ضروری ہے کہ ایک جانب حکومتی تحفظ کی چھتری تلے رہے
اوراحتساب کے کوڑے کوکسی اورکے ہاتھ میں جانے دینے کی بجائے میثاق جمہوریت
کے تحت نئے احتسابی فورم کی داغ بیل خودڈالنے میں اپناکرداراداکرتے ہوئے
خودکوزیادہ محفوظ بنائے ،رہی بات خورشید شاہ کی سیاسی ترنگ کی کہ وزیراعظم
سات سوالوں کے جواب نہ دیکرسترسوال کھڑے کردیئے ہیں،اس میں سنجیدگی کی تلاش
مشکل ہے۔تاہم اس کے باوجود اپوزیشن اپنی زبان کابھرم قائم رکھنے کیلئے ستر
سوالوں کاتحفہ پیش کردیا ہے۔بہرحال سوال جتنے زیادہ ہوتے جائیں گے ان کی
اثرپذیری اور سنجیدگی ومعنویت اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ان ستر سوالوں کی
اثرپذیری کے فوری کم ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کوپارلیمنٹ
کابائیکاٹ ختم کرنے کامل کرفیصلہ کرناپڑگیا۔آئندہ دنوں جوں جوں وقت آگے
بڑھے گا حکومت اس پاناما لیکس کے معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان
مزید لیکس پیدا رککرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے،اس کی ایک واضح مثال اپوزیشن
کے چھ رکنی وفدمیں آفتاب شیرپاؤ کابظاہررضاکارانہ دستبردارہوکرایم کیوایم
کی شمولیت سے بھی حکومت کو ایک کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔
خیبرپختونخواہ حکومت کے اتحادی آفتاب شیرپاؤ کی جماعت پہلے بھی ایک حدسے
زیادہ آگے جانے کوتیارنہیں تھی اورایک اطلاع کے مطابق سی پیک کے حوالے سے
ایک اہم ذمہ داری کیلئے آفتاب شیرپاؤ کانام وفاقی حکومت کے زیرغورہے۔ اس
لئے یہ کہناشائدمشکل ہورہاہے کہ اب پانامالیکس کے حوالے سے حکومت
پرمزیدکوئی دباؤبڑھ سکتاہے کہ نہیں لیکن یہ اپنی جگہ ابھرتی ہوئی حقیقت ہے
کہ ملک میں شفافیت کیلئے کوششیں ایک مرتبہ پھر الجھاؤکاشکارہونے جارہی
ہیں۔ایک ایسے مرحلے پرجب عسکری قیادت ملک میں دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے
ٹیررفنانسنگ کیلئے کرپشن کے پیسے کے کام آنے کوایک خاص زاویۂ نگاہ سے
دیکھتی ہے،کی کوشش کے مستقبل پر بھی سوال اٹھیں گے۔ خیبرپختونخواہ حکومت کی
ایک اوراتحادی جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کرپشن کے خلاف ایک باضابطہ
مہم شروع کئے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں جہاں وہ نوازشریف کے خلاف
بلاامتیاز احتساب کی بات کررہے ہیں وہاں وہ تحریک انصاف کے آف شورکمپنیاں
رکھنے والے رہنماؤں کے ساتھ بھی کسی نرمی کے حامی نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے
کہ ایسے مبینہ کرپٹ اتحادیوں سے اپنا فاصلہ بڑھانے یاقربت میں کمی کافیصلہ
بھی امیر جماعت اسلامی اوران کی مجلس شوریٰ کے سامنے زیرِ غور ابھی تک ہے
یانہیں،اگرایساکچھ نہیں تولامحالہ سراج الحق سے بھی میڈیا پوچھ سکتاہے کہ
آپ اس بارے میں اپنی پوزیشن کب واضح کریں گے جبکہ خیبر بینک کے بارے میں
بھی تنازعے کاابھی تک کوئی حل سامنے نہیں آیا۔
وزیراعظم نے بڑی صفائی کے ساتھ پانامالیکس کے ایشوسے سپریم کورٹ کوبھی
عملاًدوررکھنے کی کامیاب کوشش کرلی ہے کہ معاملہ اب ایک مجوزہ پارلیمانی
کمیٹی کے مرہونِ منت ہوگا پہلے کمیٹی متفقہ ٹی اوآرزتیارکرے گی جس کیلئے
یقیناً وقت درکارہوگااوراس کے بعدتحقیقات کی ذمہ داری کسی ادارے کے
سپردہوگی،گویااس زلف کے سرہونے میں کئی مراحل طے ہوناہوں گے جبکہ اس وقت تک
بہت ساپانی پلوں کے نیچے سے گزرچکاہوگا۔ وزیر اعظم کی طرف سے یہ پتے بہرحال
بڑی مہارت اورتجربہ کاری کے سے کھیلے گئے ہیں جس کاسیاسی سطح پراعتراف
بہرحال کیاگیااور کیاجارہا ہے لیکن یادرکھئے ایک اورادارہ اس کھیل
کوبغوردیکھ رہاہے جس کے ہاں دیرتوہے لیکن اندھیرنہیں۔اس کی لاٹھی اس دفعہ
نہ توبے آواز ہو گی اورنہ ہی کڑے احتساب کے بغیرجان چھوٹے گی کہ’’بہت
ہوچکا‘‘اب اللہ کے نام پر بنائی گئی ریاست میں غریبوں کی آہ وپکارکی قبولیت
کاوقت آن پہنچاہے! |