قیامِ امن میں صحافت کا کردار!

 اب تو اس بات کے زیرِ بحث آنے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہاکہ میڈیا ابلاغ کے ساتھ ساتھ رائے سازی میں اہم ترین کردار ادا کررہا ہے۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا سیلاب لے کر طلوع ہوئی۔ انسان صرف بیس برس ہی پیچھے مڑ کر دیکھ لے تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں۔میڈیا کے پھیلاؤ کے بہت سے فائدے بھی ہیں، مگر مقابلہ بازی کی صورت حال نے ہر طرف سنسنی پیدا کر رکھی ہے، جو چینل بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سنسنی خیزی کا سخت مخالف ہے، اس کارِ خیر میں اپنا حصہ وہ بھی ملاتا ہے، کیونکہ جب مقابلہ ہی سنسنی خیزی کا ہو تو پھر کون اور کیوں پیچھے رہے گا؟ ان ہنگامہ خیز حالات میں عام خبر بھی ہیجان انگیز ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو ڈاکٹر خبریں دیکھنے اور اخبار پڑھنے سے پرہیز کا مشورہ ہی دیتے ہیں۔ دوسری جانب ستم یہ ہے کہ وطنِ عزیز جس خطے میں واقع ہے وہاں دہشت گردی اور بدامنی نے اپنے پنجے نہایت مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔ معاملہ صرف ایک یا دو ملکوں کا نہیں، بات براعظموں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں لوگوں کو امن کا درس کون دے، عوام کو برداشت کی بات کون سکھائے؟ ظاہر ہے میڈیا اس میں سب سے آگے ہے، یہی وجہ ہے کہ میڈیا کو رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔

میڈیا میں سب سے اہم کردار صحافی کا ہوتا ہے، وہی خبر تلاش کرتا اور وہی اس کو رنگ اور رُخ دیتا ہے، وہی اس کی نوک پلک سنوارتا اور وہی اس کو میزائل کی مانند بعض اوقات تباہ کن بنا دیتا ہے۔ صحافیوں کو ہر جگہ ایک نہایت ہی معتبر پلیٹ فارم دستیاب ہوتا ہے، جسے عرفِ عام میں پریس کلب کہتے ہیں۔ پریس کلب جہاں صحافیوں کی آواز بنتا ہے، ان کے مسائل کا حل تلاشتا ہے، ان کے لئے علاج اور رہائش کی سہولتوں کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہاں یہی ادارہ صحافیوں کے لئے تربیتی ادارے کا کام بھی کرتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ یا اس میں کام کرنے والے افراد اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے اور ان کی کاوشیں ثمر بار نہیں ہوسکتیں، جب تک اُن کی تربیت کا اہتمام نہ کیا جائے۔ گزشتہ دنوں بہاولپور میں بھی ایک سہ روزہ ایسی ہی تربیت گاہ کا اہتمام کیا گیا۔ تربیت گاہ کے روحِ رواں تو اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ماس کمیونی کیشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر اقبال تھے، جو وقتاً فوقتاً شرکا سے گفتگو کرتے رہتے تھے، ان کے علاوہ گومل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی ، ڈاکٹر اکرم رانا، آصف علی بھٹی، متین حیدر اور عدیل وڑائچ نے بھی ٹریننگ میں لیکچر دیئے۔ مقامی طور پر انتظامات برادرم جنید نذیر ناز نے سنبھال رکھے تھے۔ چونکہ یہ پروگرام پریس کلب کے پلیٹ فارم پر ہو رہا تھا، اس لئے بہاول پور پریس کلب کے صدر توصیف احمد بھی ہمہ وقت موجود رہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ میڈیا قیامِ امن، مسائل کے حل اور سماجی رویوں میں تبدیلی پر اثرا نداز ہوتا ہے، جس کے لئے صحافیوں کو ذمہ دارانہ صحافت کی تربیت کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو تنازعات کو ہوا دینے کی بجائے صلح جُو کا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ سماجی شعبے میں مسائل میں کمی واقع ہو سکے۔ میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شہرو دیہات کے بہت سے لوگ اپنی معلومات کا دارومدار میڈیا پر ہی کرتے ہیں، بلکہ اکثریت کا یہی خیال ہے۔ کیونکہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے میڈیا کو عوام تک پہنچنے، ایجنڈا ترتیب دینے اور لوگوں کی خواہشات پر اثرانداز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس لئے میڈیا کا فرض ہے کہ وہ محتاظ اور ذمہ دارانہ صحافت کرے اور اپنے قارئین، ناظرین اور سامعین کو مثبت اور حق پر مبنی خبریں پہنچائے۔ اگر چہ اس راہ میں بے شمار مشکلات بھی آتی ہیں، مگر ہر طرف سے بچ بچا کر اور سلیقے سے خبریں حاصل کی جائیں۔ لوگوں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے اور اظہار کی آزادی نہ دینے سے بھی تنازعات جنم لیتے ہیں، آزاد اور غیر جانبدار میڈیا مباحثے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جس سے سنسنی خیزی کی بجائے باہمی مشاورت، امن اور برداشت کا ماحول دستیاب ہوتا ہے۔ مذہب اسلام بھائی چارے کا درس دیتا ہے، کسی بھی اسلامی مملکت میں اقلیتوں کے حقوق کا اسی طرح خیال رکھا جاتا ہے، جس طرح خود اس ملک کے اپنے شہریوں کا۔ اسلام زبردستی کا نہیں محبت اور اخوت کا دین ہے۔ مقامی سطح پر ایسی تربیت گاہوں کی بڑی ضرورت ہے، اگر صحافی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دے گا تو معاشرے پر اس کے مثبت اور خوش گوار اثرات مرتب ہونگے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472544 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.