مشکوک پاکستان
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
پانامہ پیپرز کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا‘
ملا منصور مارا گیا‘ پاکستانی حکومت نے تصدیق نہیں کی۔ امریکہ سے تصدیق آ
گئی‘ طالبان نے جنازہ پڑھا دیا۔ لاش کی تدفین کر دی گئی‘ نیا امیر مقرر ہوا
مگر پاکستانی حکومت ڈی این اے ٹیسٹ میں لگی رہی۔ 3 دن گزر گئے مگر تصدیق نہ
ہوئی کہ مرنے والاتحریک طالبان کا امیر ملا منصور اختر تھا یا کوئی
اور‘قربان جائیے اس سادگی پر‘ کیا با خبر حکومت ہے۔ہمیشہ کی طرح اس سیزن
میں ملک کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی جاری ہے ‘ پرانے معاملات پر طفلانہ
حرکتوں کا خمیازہ بھگت رہے تھے کہ اچانک قوم پر شناختی کارڈز کی دوبارہ
تصدیق کا ایٹم بم چلا دیا گیا‘ رہی سہی کسر پوری ہوگئی ۔ میڈیا صبح ، دوپہر
،شام طویل عرصے سے کرپشن کرپشن چیختا رہا مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔
ہر سرکاری ادارے کی طرح نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں
بھی کرپشن کہانیاں منظر عام پر آئیں لیکن وہ پاکستانی ہی کیا جو اس پر کان
دھر لیں۔ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کم از کم نادرا میں ہونے والی کرپشن
پاکستان کیہر شہری کو لے ڈوبے گی۔ مزید باتیں کرنے سے پہلے ذرا نادرا سے
متعلقہ ’’کارستانیوں‘‘ پر تھوڑی سی روشنی ڈال دوں۔ چوہدری نثار جب سے وزیر
داخلہ بنے نادرا میں مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آئیں‘پچھلے اڑھائی‘تین
برسوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جعلی شناختی کارڈز بلاک کئے گئے، موبائل سموں
اور وائرلیس فونز سمیت وائرلیس انٹرنیٹ ڈیوائسز کی بائیو میٹرک تصدیق ہوئی
جو خوش آئند بات ہے۔ لیکن مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ زور پکڑتے گئے۔ احتساب
کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ، اثر کچھ نہیں ہوا۔ ستمبر 2015 ء کی بات ہے نادرا میں
کرپشن کی وجہ سے معطل ہونے والے ایک افسر کو کاغذائی کارروائی پوری کرکے
پھر نادرا سینٹر کا انچارج لگا دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل ایک اور واقعے میں
وفاقی انٹی کرپشن کورٹ میں غیرملکیوں کو شناختی کارڈ دینے کے مقدمے کی
سماعت ہوئی‘رپورٹ میں بتایاگیا کہ نادرا افسران سنتوش کمار، محمد علی اور
محمد سبحان نے 2014 سے 2016 کے درمیان بنگلہ دیشی اور افغانی باشندوں کو
لاکھوں روپے کے عوض جعلی شناختی کارڈ بنا کردیئے۔مگر کیا کہنے ، اداروں کی
کرپشن کی دوڑمیں کوئی پیچھے کیوں رہتا۔۔خیر عدالت نے لاکھوں کے عوض بنگلہ
دیشی و افغان باشندوں کو شناختی کارڈز بنا کر دینے والے نادرا افسران کو 50
ہزار کے مچلکے جمع کروانے کے بعد رہا کر دیا‘اسی مقدمے میں نادرا کے دیگر 8
افسران عدالتی ریمانڈ پر جیل میں رہے لیکن ان کا کیا بنا معلوم نہیں۔ماہ
اگست 2015ء میں وزارت داخلہ نے نادرا کے 9 ڈائریکٹرز سمیت 40سے زائد افسران
کوبدعنوانی میں ملوث ہونے کے نتیجے میں برطرف کردیاجرائم میں ملوث نادرا
افسران کے خلاف آپریشن کلین اپ میں اعلیٰ افسران کرپشن میں بھی ملوث پائے
گئے۔چوہدری نثار جب سے وزیر داخلہ بنے اس وقت سے لیکر اب تک تقریباََ 16
ڈائریکٹر جنرلز‘ سینکڑوں افسران و ملازمین کو برطرف کیا گیا۔ امید کی کچھ
کرنیں نظر آئیں اور وزیر داخلہ کی دور اندیشی کام کر گئی۔
چند روز قبل ایک کارروائی میں ملا منصور بلوچستان کے علاقے میں مارا گیا‘
یہ کارروائی امریکہ نے کی تھی جس میں افغان طالبان کا امیر ملا منصور مارا
گیا‘ ملا منصور اس وقت ولی محمد کے روپ میں تھا اور اس کے پاس شناختی کارڈ
بھی تھا۔ نادرا کی کرپشن کام کر گئی اور اہم طالبان رہنما کو شناختی کارڈ
مل گیا وہ بھی نئے نام سے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ٹھیک دو روز بعد بلوچستان
سے ہی افغان انٹیلی جنس ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس)
کے 6 ایجنٹ گرفتار کر لئے گئے اور ان کے اعترافی بیان وڈیو کی صورت میں
عوام کے سامنے لائے گئے۔ گرفتار ہونے والے ایجنٹس کے اعترافی بیان کے مطابق
نادرا کے اہلکاروں نے انہیں 40 سے 50 ہزار روپے فی کس میں شناختی کارڈز
بنوا کر دیئے۔ افغان مہاجرین کی آڑ میں پاکستان میں بد امنی پھیلانے والے
ایجنٹس کے سامنے آتے ہی وزیر داخلہ نے اہم فیصلے کر لئے۔ اس حد تک تو ٹھیک
تھا کہ چوہدری نثار افغان مہاجرین معاملے کے حل میں کوئی لائن آف ایکشن
اختیار کرتے اور اس پر عملدرآمد کروا لیتے لیکن چوہدری نثار جلد بازی کر
گئے۔ یکے بعد دیگرے کئی پریس کانفرنسیں کر ڈالیں اور نادرا کا تمام کچا
چٹھا کھول کر پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا‘ اسی پر بس نہیں بلکہ وہ ادارے
میں کرپشن کی تمام تفصیلات بھی منظر عام پر لے آئے‘ ایک بار پھر اس ملک کی
جگ ہنسائی ہوئی جس کا ایک عام آدمی، چپڑاسی سے لے کر وزیر اعظم تک کرپٹ ہے
لیکن کسی کو اثر نہ ہوا‘ ہوتا بھی کیسے پانامہ ‘ پانامہ کا کھیل جو کھیلا
جا رہا ہے۔ افسوس کے تمام تر دو نمبریوں کی طرح ہم بے غیرتی میں بھی اپنی
مثال آپ ہیں۔ ذاتیات پر حملے، قوم کو بیوقوف بنانا اور مملکت کو ’’بنانا
ریپبلک‘‘ بنا دینا بلا شبہ ہمارا ہی خاصہ ہے‘ سیاستدانوں کی بے شرمی اور
ڈھٹائی کے بارے میں لکھنے کو الفاظ نہیں ملتے ۔ الامان ‘ الحفیظ۔
کوئی شک نہیں (ہو بھی کیسے سکتا ہے؟) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی
قابلیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چوہدری نثار علی خان موجودہ حکومت میں وہ واحد
آدمی ہیں جو ہر معاملے کو ہینڈل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک
نہیں کہ موجودہ حکومت جو اب تک چل رہی ہے اس میں چوہدری نثار کا بڑا عمل
دخل ہے اور اس کا کریڈٹ وزیر داخلہ کی سیاسی بلوغت و دانشمندی کو جاتا ہے‘
لیکن مقام حیرت ہے کہ وہ علی الاعلان اپنے زیر کنٹرول ادارے کی’’
کارستانیوں ‘‘کو اتنے سیدھے انداز میں سامنے لے آئے۔ وزیر داخلہ نے احکامات
جاری کر دیئے کہ ملک بھر میں جاری کردہ تمام کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کی
ازسر نو تصدیق کی جائے اور یہ اپنے تئیں واقعتا ایک بہت بڑی خبر ہے جس کا
سخت عوامی رد عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیر داخلہ نے دوبارہ شناختی
کارڈز کی تصدیق کا حکم دے کر گویا تمام پاکستانیوں مشکوک قرار دے دیا بلکہ
پورے پاکستان کو ’’مشکوک پاکستان‘‘ قرار دے دیا۔شاید چوہدری نثار کو اس
معاملے کے سنگین ہونے کا ادراک نہیں تھا ، اگر تھا تو انہوں نے قوم اور
مملکت کے ساتھ سنگین مذاق کیا۔ بتاتا چلوں کہ وزیر داخلہ کے شناختی کارڈز
کی دوبارہ تصدیق پر بعض حلقے خوش ہیں کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے ۔
بات کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن شاید کسی نے اس فیصلے کے منفی ترین نتائج پر
غور نہیں کیا۔ وزیر داخلہ کے بیانات و احکامات پر غور کیا جائے تو دور رس
نظر رکھنے والے سمجھ جائیں گے ۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کیلئے پہلے ہی
بہت مسائل موجود ہیں ‘ایسے میں وزیر داخلہ کے جاری کردہ احکامات سے بیرون
ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے کتنے سنگین مسائل پیدا ہوں گے اس کا اندازہ کرنا
فی الحال مشکل نظر آتا ہے۔چوہدری نثار نے پوری قوم کے شناختی کارڈز کی
دوبارہ تصدیق کے احکامات اس لئے جاری کئے کہ ان کی نظر میں اب ہر پاکستانی
کا شناختی کارڈ مشکوک ہو چکا ہے اور جب شہریوں کا شناختی کارڈ اپنے ہی ملک
میں مشکوک قرار دیا جائے اور اپنی ہی حکومت اپنے شہریوں کی تصدیق کرنے لگے
تو غیروں سے کیا بعید؟ اگر ان احکامات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بیرون
ممالک حکومتیں پاکستانیوں کو گرفتار بھی کر سکتی ہیں اور ان کے پاس باقاعدہ
جواز بھی ہوگا کیونکہ ہر پاکستانی کوباقاعدہ طور پر ’پاکستان‘ کی جانب سے
ہی مشکوک قرار دیا جا چکا ہے۔ گرین پاسپورٹ اوران پر لگے ویزوں کا بیڑہ غرق
ہو گیا ‘ ہم بحیثیت قوم اور وطن مشکوک ہو چکے ہیں کیونکہ ہمیں ہماری ہی
وزارت داخلہ مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کیلئے مسائل
کھڑے کرنے والے وزیر داخلہ نے شاید یہ نہیں سوچا کہ ان کا یہ فیصلہ ان کے
گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ عام شہری کو چھوڑیئے‘ وزیر داخلہ کا اپنا شناختی
کارڈ اور پاسپورٹ بھی مشکوک ہو چکا ہے۔ امریکی جو اپنے ایئر پورٹس پر
پاکستانی اعلیٰ حکام ‘ وزراء تک کے کپڑے اتروانے میں بھی تردد نہیں کرتے وہ
آنے والے دنوں میں عام پاکستانیوں سے کیا سلوک کریں گے؟ ان سوالات کا جواب
کون دے گا؟ وزیر داخلہ یا کوئی اور؟مزید تعجب کی بات وزیر داخلہ نے اس وقت
کی جب انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ولی محمد ہی ایک ایسا شخص نہیں
بلکہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک افراد بھی نادرا کا شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں
‘ یعنی ابھی عوام کو مزید مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا‘ ایک طرح سے چوہدری
نثار عوام کو ڈرا بھی رہے ہیں اور غیروں کو سرزمین پاک پر مزید کارروائیوں
کے اشارے بھی دے رہے ہیں‘ کہاں کا انصاف ہے کہ چند افراد کی غلطیوں کا
خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے‘ وزیر داخلہ عالمی میڈیا کے سامنے اپنے ہی
کچے چٹھے کھولنے کی بجائے اور کوئی راستہ اختیار کرتے تو بہتر ہوتا۔وہ اس
فیصلے پر عمل ضرور کرتے لیکن غیر ضروری پریس کانفرنسوں سے گریز کرتے۔
چوہدری نثارجلد بازیوں میں اپنے ساتھ ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کے پیروں پر
کلہاڑی چلا چکے ہیں اور وہ بھی’’ مشکوک پاکستان ‘‘کے’’ مشکوک باشندے ‘‘ہیں۔
آخر میں پیارے دوست شعیب الطاف کا ایک خوبصورت شعر کہ
اب تماشہ بنیں گے یا تماشائی ہم لوگ
فیصلہ رونقِ بازار پہ رکھا جائے |
|