پاکستان ایٹمی طاقت کیوں بنا ۔۔۔۔

1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کو اپنے دفاع کے خاطر ایٹمی دوڑ کا حصہ بننا پڑا۔ 24 سال کی محنت اور جد و جہد کے بعد بلا خر وہ دن آگیا جس دن پاکستان نے دنیا کو اپنی طاقت دکھا کر نا قابل تسخیر ہونے کا ثبوت پیش کر دیا۔ مئی 1998 میں جب بھارت نے خطے پر اپنا رعب جمانے کے لیے مزید 5 ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے جواب میں 28مئی1998کو دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو برابر کیا بلکہ اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی قوت کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔

ایٹمی طاقت بننے کے بعد وطن عزیز کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کر نا پڑا۔ شروع میں بین الاقوامی پابندیوں کو برداشت کرنا پڑا۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے دہشت گردی کے نام پر جنگ نے مختلف ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو براہ راست دہشت گردی کاشکار ہوا۔ امریکہ کا عراق اور افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد غیر ملکی ایجنسیوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر مختلف طریقوں سے وطن عزیز کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی کوششیں کی۔ خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی پاکستانی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کی اور مختلف موقعوں پر فضائی و زمینی حملے کیے۔

ایٹمی دھماکوں کے بعد جمہوری حکومت کے خاتمے اور پر ویز مشرف کے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے بعد ملک میں سیاسی بحران کا آغاز ہو گیا۔ جمہوری سیٹ آپ متاثر ہونے کی وجہ سے بیرونی پابندیوں میں مزید سختی آگئی۔ ملک اندرونی انتشار کا شکار ہوگیا۔ دہشت گردی کی آڑ میں دینی طبقہ کو ہراساں کرنے کا آغاز کیا گیا۔ مدارس و مساجد کے اوپر پابندیوں کا آغاز ہوگیا۔ علماء و طلباء کے پکڑ دکڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ معاشرے اور دینی طبقہ کے درمیان دوریاں پیدا کی گئی۔ فرقہ بازی اور گروپ بندی کو بنیاد بنا کر مختلف دینی جماعتوں کو بد نام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

وطن عزیز میں آئے روز دھماکے ہوتے رہے۔ ٹارگٹ کلنگ عروج پر پہنچ گئی۔ دشمن ایک ہی وطن کے باسیوں کو آپس میں لڑا کر خوشیاں منانے لگے۔ مسلمانوں کے باہم اتفاق و اتحاد کو عداوت، دشمنی اور توہم میں تبدیل کر دیا گیا۔ شیعہ سنی فسادات کر وائے گئے۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کو سیاسی رنگ دے کر اچھالا گیا۔ لبرل ازم، جدیدیت اور لادینیت کے لئے ماحول بنایا جانے لگا۔ عسکری اداروں اور عوام کے درمیان خلا پیدا کیا گیا۔ عوام فوج کو دشمن جبکہ فوج عوام کو غیر ملکی سمجھنے لگے۔

بجلی، پانی اور گیس کے بحران پیدا کیے گئے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان تک پہنچائی گئی۔ منی لانڈرنگ، سوئس اکاونٹس اور سرمائے کی بیرونی ممالک میں منتقلی سے ڈالر سالوں میں سینچری مکمل کر گیا۔ فی کس آمدنی میں ریکارڈ کمی ہوگئی۔ ملک کی اکثر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی۔ غربت، افلاس اور بھوک کی ماری قوم فاقوں پر مجبور ہوگئی۔ صنعتی ترقی رک گئی۔ کارخانے بند ہونے لگے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے۔ ملکی نظام کو چلانے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لینا پڑا۔

دہشت گردی کے نام پر جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد امداد کے نام پر مشروط قرضوں کا آغاز کیا گیا۔ ملک میں نئے ٹیکس لگانے کا سلسلہ شرو ع کیا گیا۔ آمدنی کا تقریبا 45 فی صد حصہ ٹیکسوں کے نذر ہو گیا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں عوام کو دئے جانے والے ریلیف میں کمی ہونے لگی۔ مہنگائی کی وجہ سے کاروبار زندگی ماند ہونے لگی۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ترقی کا پہیہ رکنے لگا۔ عوام بھیک مانگنے پر مجبور ہونے لگی۔

سیاسی کشمکش میں تیزی آنے لگی۔ سیاست دان کرسی کے دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے لگے۔ ذاتی مفادات کو عوامی مسائل پر مقدم کر دیا گیا۔ مخصوص حلقے کو نوازا جانے لگا۔ عوامی وسائل کو اپنی شاہ خرچیوں پر خرچ کیا جانے لگا۔ عوام کی خدمت کی جگہ دھرنوں کی سیاست نے لی۔ اسمبلیوں میں عوام کے مستقبل کے فیصلوں کی جگہ گالی گلوچ نے لی۔ سیاست دان تجزیہ نگاری کے حد تک محدود رہ گئے۔ ٹاک شوز میں براہ راست گندی زبان کا استعمال ہونے لگا۔ ایک دوسری کی پگڑیاں اچھالنا محبوب مشغلہ بن گیا۔ شرافت عیب بن گئی۔

آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ کب ہمارے حکمرانوں کو عقل آئے گی؟ کب عسکری ادارے اور عوام ایک دوسرے کو اپنا سمجھنے لگیں گے؟ کب عوام کو ان کے بنیادی حقوق مہیا کیے جائیں گے؟ کب عدالتوں میں انصاف میسر ہوگا؟ کب مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہوگا؟ کب بغض و عداوت دوستی اور محبت میں بد لے گی؟ کب دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا؟ کب اندرونی فسادات سے وطن عزیز پاک ہوگا؟ کب فرقہ بندی اور توہم پرستی ختم کی جائے گی؟ آخر کون اس قوم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرے گا؟ کون اس قوم کو بیرونی غلامی سے نجات دلائے گا؟ کب تک ذاتی مفادات کے لیے عوام کو قربان کیا جائے گا؟ کیا یہ دن دیکھنے کے لیے ہم ایٹمی طاقت بنے؟
 
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76259 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.