سگریٹ نوشی، ایک فیشن ایک بیماری!

عالمی دن تو ایک روز کے لئے منایا جاتا ہے، تقریبات ہوتی ہیں،سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں، صدر اور وزیراعظم کے پیغامات بھی ضروری ہوں تو جاری کر دیئے جاتے ہیں، کہیں واک بھی ہو جاتی ہے۔ طرح طرح کے پروگرام ہوتے ہیں، تاکہ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ اکثر قومی دن واقعی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں منانے والے باقی اہم اور ضروری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دن صرف ایک روز ہی نہیں منایا جانا چاہیے، اس کی ضرورت تو ہر روز ہوتی ہے۔ یہی سب کچھ سیگریٹ نوشی کے عالمی دن کے موقع پر بھی ہوا۔ ماہرین نے سیگریٹ کے مضر اثرات پر روشنی ڈالی۔ کسی نے اسے کینسر کی وجہ بتایا تو کسی نے خون گاڑھا کرنے کی وجہ، کسی نے اسے پھیپھڑوں کے لئے زہر قاتل کہا تو کسی نے نشہ کی علامت اور ابتدا بتایا۔ یہ بھی کہ سیگریٹ چالیس بیماریوں کی جڑ ہے۔ بتایا گیا کہ دنیا میں ہر سال ایک لاکھ کے قریب افراد سیگریٹ نوشی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ اطلاع بھی دی گئی کہ سیگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ کہا گیا کہ عام نارمل آدمی سے سیگریٹ نوش کی عمر چودہ برس تک کم رہ جاتی ہے۔ اس دن کے موقع پر یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیگریٹ نوشی کے خلاف مضمون کو نصاب میں بھی شامل کیا جائے۔

ہزار جتن کئے جاتے ہیں۔ چند برس قبل تک قوم کو یاد ہے کہ سیگریٹ کے اشتہارات کو ٹی وی پرا س جوش وخروش سے دکھایا جاتا تھا کہ سیگریٹ کا کش لگا کر نوجوان کوئی بھی معرکہ سر کرنے کی پوزیشن میں آجاتا تھا، بڑی بڑی مشکلات سے صرف ایک ہی جست میں نکل جاتا تھا، دریاؤں کے سینے چیر کر پار اتر جاتا تھا، پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ جاتا تھا، ناممکنات کو ممکن بنا دیتاتھا۔ مگر پھر صحت کے حوالے سے حکومت نے انگڑائی لی اور طے ہوا کہ اشتہاروں کی آمدنی والا نقصان برداشت کر لیا جائے گا، مگر اس زہر کو گلیمر بنا کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا۔ یہ بلا شبہ حکومت کا احسن اقدام تھا، جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے اس پر عمل تو ہوا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، اشتہار کے زمانے میں سیگریٹ کی ڈبیا پر سیگریٹ کے مضر صحت ہونے کا جملہ تو لکھا جاتا تھا، مگر اب اضافہ یہ ہوا کہ ڈبیا پر ہی سیگریٹ کے ذریعے منہ کے کینسر ہونے کی تصاویر شائع ہوتی ہیں، جو نہایت کراہت آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ واقعی پریشان کن ہیں۔ عام آدمی اس قسم کی تصویر والی چیز خریدنے سے پرہیز ہی کرتا ہے۔ ہزار ڈرائیں، بیماریوں کا یقین دلائیں، عمر میں کمی کی خبر دیں، کینسر جیسے موذی مرض کی بات کریں، یا پھر یہ کہ اپنی جیب سے خرچ کرکے زہر خریدا جاتا ہے، اور عام یا غریب آدمی بھی پیسوں کا دھواں بنا کے اڑا دیتا ہے، مگر سیگریٹ نوش ہیں کہ کسی کا اثر نہیں لیتے، کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے، زہر پئے جارہے ہیں۔

دراصل سیگریٹ کی کسی زمانے میں ایسی تصوراتی منظر کشی کی گئی ہے، کہ لوگوں کے دلوں سے چپک کر رہ گئی ہے، سیگریٹ پینے کا انداز ہی وہ دلکش چیز ہے، جس کی بنا پر بہت سے لوگ سیگریٹ شروع کرتے ہیں ا ور بعد ازاں اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی بڑے اور مقبول آدمی کو جب اس کے چاہنے والے سیگریٹ پیتے دیکھتے ہیں تو تقلید کو ضروری جانتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف سیگریٹ کو دانشوری اور تصورات کی دنیا میں جانے کا ذریعہ جانا جاتا ہے، شاعر ہوں یا دانشور ان میں سے اکثر سیگریٹ کے رسیا ہوتے ہیں، جب میز پر چائے کی پیالی کے ساتھ ایک سیگریٹ سلگایا جاتا ہے، اور کاغذ پر کسی افسانے کا آغاز کیا جاتا ہے، چائے سے اٹھتی بھاپ اور سیگریٹ سے اٹھتا دھواں ایک ماحول بنا دیتا ہے، تخیلات کو جِلا ملتی ہے، نئے نئے تصورات ابھر کر سامنے آتے اور دھوئیں کے بادل میں مضمون کا خاکہ بناتے ہیں۔ سیگریٹ پینا بھی ایک فن ہے، شاید اس فن سے بھی بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ سیگریٹ کی دکانوں کے باہر کم عمر کے نوجوان سیگریٹ نوشی کرتے دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ سیگریٹ سرِ عام فروخت ہوتی اور پی جاتی ہے، اس کے باوجود اسے نوجوانوں کے لئے اچھا نہیں سمجھا جاتا، گھر سے مخالفت ہوتی ہے، مگر جب چوری چھپے یہ عادت بن جائے تو اس سے جان چھڑوانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ کم عمر نوجوانوں اور عوامی مقامات پر سیگریٹ نوشی پر پابندی ہے، مگر قانون وہی جس پر عمل ہو۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.