’’آیتِ ہجر‘‘

تحریر۔۔۔اسد قریشی
فروری ۲۰۱۳؁ میں شائع ہونے والا شعری مجموعہ ، خوبصورت سرِورق جس کو ’’گرافک زون‘‘ نے ڈیزائن کیا، یہ کتاب ۱۶۰ صفحات پر مشتمل جناب امجد بخاری صاحب کا دسواں شعری مجموعہ ہے جی ہاں دسواں ، امجد بخاری صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن ممکن ہے کہ میرے جیسے کچھ آدم بیزار لوگ بھی ہوں جنہیں علم نہ ہو تو ان کے لیئے مختصر اً بیان کردوں کے امجد بخاری صاحب معروف شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ رائٹر اور ووکلسٹ بھی ہیں۔ اے آر وائی زندگی سے نشر ہونے والا ایک حالیہ سیریل، ’’بہو بیگم‘‘ آپ ہی نے لکھا اور اس وقت بھی چند ایک ڈرامے اس ہی چینل پر نشر کیئے جا رہے ہیں جن کے ناموں سے ناواقف ہوں، بہر کیف مقصد یہ ہے کہ امجد بخاری حلقہ ء علم و دانش کے لییے کوئی انجان شخصیت یا نیا نام نہیں۔ ویسے راقم الحروف انہیں بطور پبلشر بھی جانتا ہے۔خوبصورت سرِورق والی یہ کتاب آیتِ ہجرمجھے آپ کے مبارک ہاتھوں سے عطا ہوئی اور گھر پہنچ کر ایک ہی نشست میں چاٹ ڈالی جی بالکل ’’چاٹ‘‘ ڈالی، کیوں کہ یہ کتاب ایک نشست میں پڑھنے کی نہیں تھی اور میں ’’نیانیا فقیر‘‘ اپنی ہوس میں کتاب کے ساتھ یہ زیادتی کر بیٹھا، کچھ عرصہ بعد یہ کتاب پڑھنے کا پھر اتفاق ہوا، دو چار صفحے پلٹے اور پھر رکھ دی۔ اس عدم دلچسپی کی وجہ شاید خود صاحبِ کلام بھی رہے ہوں، آپ اپنے افسانوں اور ٹی وی سیریلز میں اس قدر مصروف ہوئے کے شاعری کو پہلی بیوی کی طرح نظر انداز ہی کردیا۔ ابھی پچھلے دنوں امجد بخاری صاحب کے چند اشعار نظر سے گزرے ، تو اچانک خیال آیا ۔۔۔۔’’آیتِ ہجر‘‘ اتری تھی کہیں۔۔۔جھٹ شیلف سے کتاب نکالی اور پڑھنا شروع کردیا، اس بار بہت سنجیدگی سے اور پہلے صفحے سے ابتداء کی تھی، اس کتاب میں مجھے جو کچھ ملا وہ احوال آپ احباب کی نذر:
حسبِ روایت انتساب ضروری تھا، اب امجد بخاری اس سے پہلے نو مجموہائے کلام اہلِ ادب کی نذر کر چکے تھے تو ظاہر ہے کہ انتساب بھی فرداً فر اً سب ہی کے نام کرچکے ہونگے، لہٰذا آپ نے یہ انتساب بہت ہی خوبصورتی سے اس ہستی کی نذر کیا جس سے کسی کو انکار نہیں:
ساری سوچیں، گلاب تیرے نام
میری آنکھوں کے خواب تیرے نام
ابتدا تُو ہے ، انتہا بھی تُو
اس لیے انتساب تیرے نام

انتساب کے بعد فہرست اور پھر جناب ارشد ملک صاحب کا اظہارِ خیال اور شاعر کا عرضِ حال، ایک اور اہم بات بتاتا چلوں کہ اس کے ٹائٹل ، فلیپ جناب مرتضیٰ برلاس اور جناب فرحت عباس شاہ نے اپنے ذریں خیالات سے مزین فرمایا ہے۔کتاب میں حمدِ باری تعالیٰ اور نعتِ رسولِ مقبول کے بعد قریب ۸۰ غزلیات و نظمات موجود ہیں جو کہ امجد بخاری کے علمی و فکری سفر کانچوڑ بلکہ ان کی طویل ریاضت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں۔امجد بخاری کہنہ مشق شاعر ہیں، بلند پروازِ خیال، جداگانہ اسلوب اور تازہ کاری کے ساتھ ساتھ روایت کے بھی امین ہیں، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو روایت کا پابند نہیں کیا اور عصری تقاضوں کابھی بھر پور حق ادا کیا ہے۔ امجد بخاری نہ صرف اپنے فن میں ماہر بلکہ بہت پراعتماد بھی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ زبانِ خلق کسی کو بخشنے والی نہیں اور اس ہی خیال کے تحت آپ نے اپنے قارئین کو متنبہ بھی کردیا ؂
یہ مرے شعر ہیں، اقبال یا غالب کے نہیں
ہاں مرے شعر پہ تنقید نہیں ہوسکتی
یہ شعر فقط دل کی تسلی کے لیئے ہیں
نقاد کی رائے سے یہاں کون ڈرے ہے

خوداعتمادی کے ساتھ ساتھ شاید خود پرستی کا بھی شوق رہا ہو، جس کے تحت آپ نے فرمایا کہ ؂
میں پھروں ہجر کی راتوں میں ستارے گنتا
خود سے اس درجہ مری جان عداوت بھی نہیں

جیسا کہ میں نے عرض کیا امجد بخاری بلندپروازِ فکر کے حامل ہیں اور اپنے خیالات کو اس خوبصورتی سے نظم کرتے ہیں کہ بے ساختہ واہ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ، آپ اپنے مضامین میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ جدت کے بھی قائل ہیں ؂
چلو کچھ پھول لے آئیں نئی خواہش کے موسم سے
نئے دالان میں یادیں پرانی رکھ نہیں سکتے

علم انسان کے ذہن کی گرہیں کھولتا ہے اور یہی علم نہی و منکر کا ادراک بھی عطا کرتا ہے، اور جہاں حق و باطل کا معرکہ ہو وہاں حسین ابن ِ علی کی یاد سے کون غافل رہ سکتا ہے ؂
پڑا ہے واسظہ امجد محبت کے یزیدوں سے
یہاں ہم اپنی آنکھوں میں بھی پانی رکھ نہیں سکتے

امجد بخاری خود بھی تخیل کی آزادی اور بلند پروازِ فکر کے قائل ہیں اوراس بات کاثبوت انہوں نے اپنے کلام میں جابجا پیش کیا ہے،
تخیل میں اگر پرواز کی طاقت نہیں شامل
تو رنگوں کو سجانے سے کہاں تصویر بنتی ہے
یہ سوچا تھا برستی آنکھ اس کو روک لے شاید
مگر اشکوں کی کڑیوں سے کہاں زنجیر بنتی ہے

روایت ہر شاعر کے لیے شاید پہلا قدم رہا ہو، لیکن اس کو اپنااُوڑھنا بچھونا بنالینا درست نہیں، بہت سے شعراء نے روایت کو اپنایا اور پھر اس کے ہی ہو کر رہ گئے، بعض شعرا ء نے روایتی اسلوب کے باوجود دشتِ سخن میں نام پیدا کیا اور بہت سے گردِ راہ ہوکر رہ گئے۔امجد بخاری نے روایت اور جدت دونوں کو ہمراہ رکھا اور اپنے خیالات میں تازہ کاری کو نہ صرف اپنا ہنر بنایا بلکہ اس سے اپنی پہچان بھی نمایاں کی ؂
ہے چشم ِجہاں دید تو پرکار میں آجا
گردش کی طرح وقت کی رفتار میں آجا
بھیگی آنکھوں سے تیر کھا کھا کر
اب کلینڈر بھی خون روتا ہے
ریاضت بے ثمر جانی تو خود اپنے ہی ہاتھوں سے
پْجاری نے محبت کے خدا کا خون کر ڈالا
بوسیدہ پْرانے کسی سامان میں رکھ دے
یا پھر کسی ٹوٹے ہوئے گلدان میں رکھ دے
کچھ بزم سجاؤ، کسی شاعر کو بلاؤ
اس مفت کی چائے سے یہاں کون ڈرے ہے

جب کسی شاعر پر خیال کی دیوی مہربان ہو اور متاعِ سخن میں برسوں کی ریاضت سرمایہ بن جائے پھر اگر وہ روش سے ہٹ کر بھی چلے تو اہلِ ذوق محسوس نہیں کرتے لیکن صاحب کیا کیجیئے کہ ہم جیسے تنگ نظر ہر زمانے میں ہی خارِ مغیلاں رہے ہیں
ساون و پت جھڑ، بہاراں، سردیاں کہ گرمیاں
تیرے بن ہم کیا کریں گے موسموں کے سلسلے

اساتذہ ء سخن کے نزدیک مرکب یعنی اضافت کے ساتھ وہی الفاظ جائز ہیں جو یا تو عربی، عربی کے ہوں یا پھر عربی فارسی یا فارسی عربی سے مصدر ہوں، ہندی الفاظ کی ترکیب اساتذہ کے نزدیک نہ صرف نا پسندیدہ ہے بلکہ ناجائز بھی۔ اب ’’ساون و پت جھڑ‘‘ یہاں اس ترکیب کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، ساون پت جھڑ از خود ایک مرکب ہے اور بغیر اضافت کے بھی جائز ہے۔ خیر کوئی بات نہیں
اب ترے بعد ہر اک رات ہے شبرات مری
کیا ترے بعد مری عید نہیں ہوسکتی

عجب حیرت کی بات ہے کہ آپ اس قدر ریاضت ، شعر و افسانہ نگاری میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے باوجود ایسی غلطی کر گئے جو کم از کم اردو زبان کے لیے خطرہ ضرور ثابت ہو سکتی ہے، اصل لفظ شبِ براٗت ہے ، شبرات ممکن ہے علاقائی زبان میں رائج ہو لیکن ادبِ لطیف اور جہاں سوال فصاحت کا ہووہاں ہرگز جائز نہیں، اس طرح ہم اپنی زبان میں بہتری لانے کے بجائے اس کی اصل شکل کو مسخ کر رہے ہیں، جو کہ میرے نزدیک احسن امر نہیں۔
میری آغوش میں وہ طلوع ہوگیا
شرم سے چاند چہرا چھپاتا رہا

یہاں بھی حضرت نے شاید اپنا شاعرانہ استحقاق استعمال کیا اور ’’طلوع‘‘ کی عین سرے سے ہی غائب کردی، ایسی غلطیوں کی رعایت تو ہم جیسے مبتدی کوہو سکتی ہے پر آب۔۔۔۔۔
اجسام کے مابین مسافت نہ ہوئی کم
مل کر بھی رہی تم سے ملاقات ادھوری

اب یہاں پہلے مصرع میں فرماتے ہیں کہ ’’اجسام کے مابین مسافت نہ ہوئی کم۔۔۔۔۔مل کر بھی رہی تم سے ملاقات ادھوری‘‘ صاحب اگر مل لیے تو پھر اجسام کے مابین مسافت کا شکوہ کیوں، میری ناقص رائے میں اگر پہلا مصرع کچھ یوں ہوتا کہ ’’اجسام کے مابین مسافت تو ہوئی کم۔۔۔۔۔مل کر بھی رہی تم سے ملاقات ادھوری‘‘ تب بات بن سکتی تھی کہ ممکنہ تشنگی کا ذکر شعر میں کیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ میرا خیال غلط ہو پر یہ محض میرا خیال ہے۔
وصالِ یار کو اتنی کڑی سزا دوں گا
محبتوں میں اسے ایک دن تھکا دوں گا

یہاں پہلے مصرع میں ’’وصالِ یار‘‘ یعنی ایک فعل کی جانب نشاندہی کی جار ہی ہے اور اسے سزا دینے کا ذکر ہے جبکہ مصرع ثانی میں ’’محبتوں میں اسے ایک دن تھکا دوں گا‘‘ اب جبکہ وصالِ یار ایک فعل ہے نہ تو اس پر سزا کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ہی اسے تھکانے کا کوئی تک بنتا ہے، ممکن ہے یہ میری کم علمی وکم فہمی ہو کہ میں شعر کے اصل معنی و مفہوم تک نہیں پہنچ سکا۔
بے اثر ہوگئے سبھی کے سبھی
جتنے لہجے مری زبان کے تھے
’’سب کے سب‘‘ یعنی تمام تو سنا ہے ہم نے لیکن ’’سبھی کے سبھی‘‘ ہمارے علم میں تو نہیں میئسر ، میرے نزدیک یہ بھی زبان و بیان کی غلطی ہے جوکہ جائز نہیں۔
خاموش مسیحا نہ کرو بات زیادہ
ایسی بھی نہیں تجھ میں کرامات زیادہ
مذکورہ شعر بھی شترگربہ کا شکار ہے، پہلے مصرع میں ’’مسیحا نہ کرو‘‘ اور پھر دوسرے مصرع میں ’’تجھ میں‘‘ کا استعمال شعر کو نہ صرف کمزور کر رہا ہے بلکہ سقم کا حامل ہے۔
سارے ہوش اڑا کر رکھ دے
ساقی آج پلا کر رکھ دے
’’سارے ہوش اُڑا کر رکھ دے‘‘ شاید حو اسِ خمسہ کی جانب اشارہ ہے، لیکن پھر ساقی سے کہا جا رہا ہے کہ ’’پلاکر رکھ دے ‘‘ یعنی اے ساقی تو ہمیں پلا اور پھر ہمارے ہاتھ سے پیالا بھی لے لے کہ شاید ہم اس وقت رکھنے کی حالت میں نہ ہوں۔
دشت گردی ہی جب مقدر ہے
تیرے دجلہ فرات لاحاصل
یہاں بھی کچھ بات بنی نہیں، ’’دشت گر دی ہی جب مقدر ہے‘‘ صاحب جب آپ نے ارادہ کر ہی لیا ہے دشت گردی کو تو آپ کو تو دجلہ و فرات سے ویسے بھی کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے۔

خیرایسی چھوٹی موٹی غلطیاں تو اکثر شعراء سے ہوتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ میر و غالب کے یہاں بھی بہت سے ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں، ہاں لیکن لسانیات اور زبان و بیان کی اغلاط قطعاً موجود نہیں کیوں کہ اگر ایسا کہیں بھی ہوا ہوتا تو آج جو اردو اور اردو ادب جس شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے وہ ایسا نہ ہوتا، اسکی شکل کچھ اور ہی مسخ شدہ پائی جاتی، میرے خیال میں ہر شاعر اور ادیب کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ وہ اپنی ہر اس تخلیق میں جو کہ وہ عوام کی نذر بشکلِ مکتوب کر رہا ہے اس میں اس امر کو یقینی بنائے کے کسی بھی صورت زبان وبیان اور لسانیت کی کوئی غلطی ممکن نہ ہو، کیونکہ یہی مکتوب آئندہ وقتوں میں سند کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امجد بخاری ایک اچھے اور کہنہ مشق شاعر ہیں، ان کے یہاں روایت کے ساتھ ساتھ نئی راہوں کی نہ صرف امکان بلکہ جستجو بھی پائی جاتی ہے، ان کی شاعری میں محبت، معاشرت اور معاشرتی رویوں کی ہم آہنگی ہے، منظر کشی، کیفیت کا اظہار، امید ویاس کا بے پناہ اہتمام پایا جاتا ہے ۔ جس انداز سے امجد بخاری نے عصرِ حاضر کے لیے نئے استعارے اور جدید لب و لہجہکا استعمال کیا ہے انہیں بلاشبہ تازہ کار شاعر کہنا غلط نہ ہوگا۔میں امجد بخاری صاحب کے لیے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے تخلقی سفر کو جاری رکھیں اور ادب کی خدمت عام کرتے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.