قومی مفاہمتی پالیسی کے ڈھول کا پول

اس ملک میں ایک چیز کا بہت شور ہے اور وہ ہے مفاہمتی پالیسی۔ ہمارے اراکین اسمبلی اپنے ہر غلط کام کا جواز یہ دیتے ہیں کہ مفاہمتی پالیسی کے تحت ہم یہ کام کر رہے ہیں۔ میاں صاحب سے کہا جاتا ہے کہ جناب آپ اپوزیشن میں ہیں تو حکومت کے غلط اقدامات کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملتا ہے کہ ہم مفاہمتی پالیسی کے تحت ملک کے مفاد میں ان کو موقع دے رہے ہیں کہ جمہوریت پلتی رہے۔ پی پی پی اراکین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ جناب سابق آمر جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر کیوں رخصت کیا گیا؟ اس کا احتساب کیوں نہ کیا گیا؟ جواب ملتا ہے کہ ہم مفاہمتی پالیسی کے تحت ملک کے مفاد میں یہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیگر حکومتی اتحادی بھی این آر او، عدلیہ سے حکومت کے ٹکراؤ،اور دیگر غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات کو مفاہمتی پالیسی کا نام دیکر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ آئیں زرا جائزہ لیتے ہیں کہ ملک کی تین بڑی جماعتیں جو کہ اس وقت حکومت میں بھی شامل ہیں اور اسمبلی میں موجود ہیں جو کہ ملکی مفادات کے خلاف ہر بات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر کے مفاہمتی پالیسی کا نام دیتی ہیں وہ ذاتی مفادات میں کس طرح وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتی ہیں اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔

اس وقت ملک میں پی پی پی کی حکومت ہے پی پی پی سب سے زیادہ مفاہمتی پالیسی کی بات کرتی ہے لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ملک کے خلاف کوئی بات ہو تو اس کو مفاہمتی پالیسی کا نام دیا جائے لیکن اگر ذاتی دشمنی ہو یا ذاتی مفاد کو ٹھیس پہنچے تو ساری مفاہمتی پالیسی دھری رہ جاتی ہے۔ ٢٠ جون کو اخبارات میں بلاول باؤس کے ترجمان کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے سابق آئی جی سندھ رانا مقبول کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق آئی جی سنھ رانا مقبول کا قصور کیا ہے؟ جواب ہے کہ بقول پیپلز پارٹی سابق آئی جی رانا مقبول نے صدر آصف علی زرداری کی اسیری کے دوران ان پر تشدد کیا تھا۔ ترجمان بلاول ہاؤس کے مطابق انہوں نے صدر آصف علی زرداری کو جیل کسٹڈی سے غیر قانونی طور پر اغواء کر کے سول لائن تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ قارئین کرام اس بیان کو نوٹ کرلیں اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔

١٩ جون کو حیدرآباد میں ایم کیو ایم حقیقی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا، یہ پریس کانفرنس حیدر آباد پریس کلب میں منعقد ہونی تھی لیکن پریس کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی اس پر متحدہ کے کارکنان نے حملہ کیا اور پریس کانفرس کو درہم برہم کر کے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا، یہ مسلح کارکنان پولیس اور صحافیوں کی موجودگی میں پریس کلب حیدر آباد میں توڑ پھوڑ مچاتے اور فائرنگ کرتے رہے اور اس دوران انہوں نے پریس کلب آنے والے ایم کیو ایم حقیقی کے عہدیداران کو بھی اغواء کرنے کی کوشش کی، بعد ازاں ایم کیو ایم حقیقی کے ذمہ داران پولیس کی حفاظت میں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ متحدہ کے کارکنان نے پولیس کے سامنے ایم کیو ایم حقیقی کے کارکنان کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور اس میں ناکامی پر ان کی گاڑیوں پر فائرنگ کی اور حقیقی کے ذمہ داران پر لعنتیں دیں۔ قارئین کرام آپ یہ خبر بھی نوٹ کرلیں اور اب ہم مزید آگے بڑھتے ہیں۔

مسلم لیگ ن اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا نام نہاد کردار ادا کر رہی ہے نام نہاد اس لئے کہ حکومت کے ہر فیصلے کی تائید کی جاتی ہے اور بعد میں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ایک گرما گرم پریس کانفرنس کر کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے، مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بھی کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف صاحب سے بھی جب کسی قومی مسئلے پر رائے لی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اس مسئلے پر آواز نہ اٹھائی یا احتجاج نہیں کیا تو ان کا جواب بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم مفاہمتی پالیسی کے تحت خاموش ہیں یہی مسلم لیگ ن جو ہر قومی مسئلے پر مفاہمتی پالیسی کے تحت خاموشی اختیار کرتی ہے۔ وہی ملسم لیگ ن سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ہر ہر موقع پر جنرل پریوز مشرف کو لتاڑتی رہتی ہے جبکہ گورنر پنجاب کے معاملے میں تو ن لیگ کے رانا ثناء اللہ اخلاقیات کی حدووں کو بھی عبور کر جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

جواب ہے کہ چاہے پی پی پی ہو، مسلم لیگ ن ہو یا متحدہ قومی موومنٹ یا کوئی اور پارٹی سارے صرف اپنے مفادات کے غلام ہیں کوئی فرد یا پارٹی اگر ملک کو نقصان پہنچائے تو اس کو مفاہمتی پالیسی کے تحت معاف کیا جا سکتا ہے، اس کو چھوڑا جاسکتا ہے، اس کے جرائم سے پردہ پوشی کی جاسکتی ہے لیکن اگر کوئی ذاتی مجرم ہو، کسی سے ذاتی دشمنی ہو یا کوئی کسی پارٹی یا فرد کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچائے تو وہ فرد قابل گردن زدنی ہے اس کو کسی بھی صورت میں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر صدر آصف علی زرداری صاحب اتنے یہ بڑے دل والے ہیں کہ ملک کی ایک بڑی لیڈر کے قاتلوں کو بھرے جلسوں میں معاف کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ سابق آئی جی کو معاف کیوں نہیں کرتے؟ جواب اس لئے کہ وہ ذاتی دشمن ہے۔ متحدہ جو کہ مفاہمت، رواداری اور اس قدر رواداری کہ قادیانیوں کو مسلم تسلیم کرانے پر تلی ہوئی ہے، کو کہ اتحاد کی بہت بڑی داعی ہے اور اس کا بہت زور و شور سے چرچا بھی کیا جاتا ہے۔ وہی متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم حقیقی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے کیوں کہ وہ قائد کے ذاتی دشمن ہیں۔ انہوں نے قائد کے مقابلے میں ایک متوازی تنظیم بنا ڈالی ہے اور قائد کے اختیارات کو چیلنج کیا ہے اس لئے ان کو معاف نہیں کیا جاسکتا ہاں پی پی پی سے اتحاد ہوسکتا ہے جو کہ متحدہ کے آن دی ریکارڈ بیانات کے مطابق سانحہ پکا قلعہ اور کراچی آپریشن کے دوران متحدہ کے ہزاروں کارکنوں کو قتل کرچکی ہے ( یہ ہم نہیں کہتے بلکہ خود متحدہ کے ذًمہ داران کے بیانات ہیں ) اس پی پی پی سے اتحاد ہوسکتا ہے لیکن قائد کے غدار حقیقی والوں کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔

یہی حال میاں صاحب کا ہے کہ وہ ہر معاملے پر خاموشی اختیار کرتے ہیں لیکن چونکہ سابق صدر جنرل مشرف نے ان کے اقتدار کو نقصان پہنچایا تھا اس لئے ان کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر چونکہ ان کی حکومت کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اس لئے ان کو بھی معاف نہیں کیا جاسکتا، ہاں اس کے علاوہ ملک میں کچھ بھی ہو ان کو فکر نہیں ہے اور معذرت کے ساتھ یہ بھی عرض کردیں کی مسلم لیگ ن کتنا ہی قومی جماعت ہونے کا دعویٰ کرے حقیقت میں میاں صاحب ایک متعصب اور قوم پرست لیڈر ہیں اگرچہ ماضی میں بھی ہو جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر تعصب کو ہوا دے چکے ہیں لیکن حال ہی میں ان کی قوم پرستی اور تعصب ایک بار پھر کھل کر سامنے آیا ہے وہ اس طرح کہ وفاقی وزیر قانون بابر اعوان صاحب گزشتہ کچھ دنوں سے بار کونسلز کو رقوم کی فراہمی کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں جب تک وہ جنوبی پنجاب یعنی ملتان، کراچی بار۔ اور دیگر بارز کو رقوم تقسیم کرتے رہے اس وقت تک مسلم لیگ ن ان کے اس کام کو غیر قانونی و غیر آئینی کہتی رہی، چوہدری نثار صاحب نے قومی اسمبلی میں اس پر پر زور احتجاج کیا کہ وزیر قانون نوٹوں کے بریف کیس لیکر گھوم رہے ہیں۔ لیکن جب انہی وزیر قانون نے گزشتہ روز لاہور میں پنجاب بار کونسل کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تو میاں صاحب فرماتے ہیں کہ “ رقوم کی فراہمی غیر قانونی نہیں ہے بلکہ اس موقع پر متنازع تقاریر کام خراب کرتی ہیں “ بہت خوب میاں صاحب بہت خوب جب تک دیگر بار کونسلز کو رقوم دی جارہی تھیں وہ غلط اور غیر قانونی تھیں لیکن پنجاب بار کونسل کو رقوم دی گئیں تو یہ درست ہوگئیں بہت اچھے۔ قارئین کرام ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قومی مفاہمتی پالیسی کا نام پر صرف اپنے مفادات کو تحفظ دیا جارہا ہے اور جہاں اپنے ذاتی اور تنظیمی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے تو ساری مفاہمتی پالیسی دھری رہ جاتی ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1455422 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More