رمضان٬ ’’ روزہ‘‘دین ِ فطرت اسلام کاتیسرااہم رکن ہے

’’روزہ‘‘فارسی زبان کا لفظ ہے اوربرصغیرمیں رائج دوسری اصطلاحات کی مانند یہ بھی اپنے معنی ومفہوم میں پوری قوت کے ساتھ عربی لفظ ’’صوم ‘‘کے ہم معنی ومترادف کے طورپر اُردوزبان میں رائج ہے۔اسلام کی تیسری اہم عبادت ’’روزہ‘‘کیلئے بنیادی عربی لفظ ’’صوم‘‘ہے اوراس کا واحدیامصدر’’صیام‘‘ہے ۔ جس کے معنی ہیں ’’روزہ رکھنا‘‘۔دینِ اسلام کے پہلے دوبنیادی ماخذ ’’قرآن وحدیث‘‘میں یہ دونوں لفظ’’صوم وصیام ‘‘ہی استعمال ہوئے ہیں۔ماہِ صیام ترتیب کے لحاظ سے اسلامی تقویم کانواں مہینہ ہے ۔
۲ ہجری میں فرض قراردی گئی اس عبادت
’’صوم‘‘کالغوی معنی کسی چیزسے مطلق رک جانایااسے ترک کرناہے۔شریعت کی اصطلاح میں اس لفظ کامطلب صبح صادق سے لے کرغروبِ آفتاب تک خالص اﷲ کی رضاوخوشنودی کی خاطرکھانے پینے‘ازدواجی تعلق اور ہراُس شے سے پرہیز جوروزہ کوتوڑنے والاہوسے مکمل دستبرداری کانام روزہ ہے۔رمضان المبارک محض سلبی پہلو(منفی)نہیں رکھتا کہ جس کے مطابق اس ماہ میں ’’نہ کرو‘‘کی ہی تکرارہوبلکہ اس کے باطن میں بہت سے ایجابی(مثبت)پہلوبھی پوری قوت کے ساتھ جلوہ گرہیں‘جیسے اس بابرکت مہینہ میں بہت سی عبادات کیلئے ’’ضرورکرو‘‘کاحکم نامہ یا ترجیحی پہلوبھی شامل ہے۔جس میں انفاق فی سبیل اﷲ ‘خیرات ‘صدقات‘تلاوت قرآن مجیدفرقان حمیدبھی شامل ہیں۔
وقت سحرسے متعلق سورہ بقرہ میں ارشادربانی ہے ’’اس کے علاوہ رات کو اسوقت تک کھاپی سکتے ہو جب تک کہ صبح کی سفید دھاری‘رات کی کالی دھاری سے الگ ظاہرہوجائے۔‘‘
سحری کرناسنت بھی ہے اوریہ مسلمانوں کے امتیازات میں بھی شامل ہے ۔ حضرت عمربن عاص ؓ کی روایت کے مطابق ساقیء کوثرﷺ نے فرمایا’’ہمارے اوراہل کتاب کے روزوں کے درمیان میں فرق سحری کاکھاناہے۔‘‘(مسلم)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالمﷺ کافرمان مبارک ہے ’’سحری کھایاکرو‘اس لئے کہ سحری کھانے میں یقینابرکت ہے ۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
۔سحری صبح صادق سے قبل اورآخری لمحات میں کرناسنت مبارکہ میں شامل ہے ‘اسکی فضیلت بھی زیادہ ہے۔حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے شافعی روزجزا ﷺ کے ساتھ سحری کھائی ‘پھرہم نمازکیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ان سے پوچھاگیا‘سحری کے خاتمے اور نماز کے درمیان کتناوقفہ تھا؟انہوں نے فرمایا پچاس آیات کی مقدار‘‘(بخاری ومسلم)۔

روزہ کے احکامات قرآن مجید کی سب سے طویل سورہ بقرہ کی آیت 183 تا185میں اس طرح بیان ہوئے ہیں ’’اے اہل ایمان !تم پر روزے فرض قراردیئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گاربن جاؤیہ روزے گنتی کے دن ہیں پھر تم میں سے اگر کوئی بیماریامسافر ہو تو دوسرے دنوں میں قضاروزے رکھ کر تعدادپوری کرلے۔جن لوگوں کیلئے کسی اور عذر کی وجہ سے روزہ رکھنادشوارہو تو اس روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانادے پس جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دے دے تو اس کیلئے بہتر ہے اور ویسے روزے رکھناتمہارے لئے بہتر ہے اگرتم سمجھ دارہو۔اسی رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہواجولوگوں کیلئے ہدایت ہے اور جس میں سیدھی راہ کی نشانیاں ہیں اور یہ حق وباطل میں فرق کرنے والا ہے ۔اے مسلمانو!جب رمضان کامہینہ آئے توتم میں سے جومقیم ہو پس وہ روزے رکھے اور جوتم میں سے مریض یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں قضاروزے رکھ کرتعدادپوری کرلے ۔اﷲ تعالی تمہارے لئے آسانی چاہتاہے اور تم پرسختی نہیں کرناچاہتا تاکہ تم اس طرح روزوں کی تعدادپوری کرلو اور اﷲ تعالی کی بڑائی بیان کرو جس نے تمہیں ہدایت بخشی تاکہ تم اس کی شکرگزاری کرو۔‘‘
’’اسی رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا‘‘قرآن کارمضان میں نازل ہونااس مبارک ماہ کی اہمیت وفضیلت عیاں کرتاہے۔اس آیت میں جہاں مسافر کاذکرہے اس کیلئے علماء اڑتالیس میل کافاصلہ اورپندرہ دن سے کم قیام کی گرہ لگاتے ہیں۔
روزے کی شرعی اہمیت وفر ضیت سرورکائنات کے اس مبارک قول سے مزید مترشح ہوجاتی ہے ۔فرمان رحمت اللعالمین ﷺ ہے :بنی الاسلام علی خمس۔۔۔۔وصوم رمضان(متفق علیہ )
ترجمہ:اسلام کی بنیاد پانچ اشیاء پر ہے ان میں سے ایک رمضان کے روزے رکھناہے۔
ایک اورمقام پر حسنین ؓ کے نانا فرماتے ہیں
روزہ ڈھال ہے (مسلم)۔
ایک شخص نے سرکاردوجہاں ﷺ سے پوچھا کہ رجب کاثواب زیادہ ہے یارمضان کا؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ماہ صیام کے ثواب پر قیاس ممکن نہیں۔غفور ورحیم اس ماہ کے ذریعے بہانہ تراش رہاہے کہ کسی طرح میرابندہ میرے سامنے عجزوانکساری سے سرجھکائے تومیں اسے معاف کردوں ۔اس پررحمتوں اورنعمتوں کانزول کردوں۔
فرمان نبی کریم ﷺ ہے(مفہوم) اے لوگوں خداکامہینہ تمہارے پاس آیاہے ۔جس کے دن بہترین‘جس کی راتیں اعلی ترین اورجس کی گھڑیاں سب سے بہترین گھڑیاں ہیں۔
اپنی اُمت کی بہتری کی خاطرسرورکائنات ‘فخرموجودات پھرلطف وکرم کے موتی عنایت فرماتے ہیں(مفہوم):
’’اس ماہ میں تمہاراسانس لیناتسبیح اورتمہاراسوناعبادت شمارہوتاہے۔‘‘
اس حدیث کی اہل بیت میں سے خوب صورت ودلنشین تصویر خاتون جنت ‘سیدہ فاطمتہ الزہرؓاکے پوتے سیدسجادؓ تھے جو واقعہ کربلامیں اہل بیعت رسولﷺمیں سے علالت کی وجہ سے جہادمیں شامل نہ ہونے والے اورحیات رہنے والے واحد مردتھے۔
یہ فیضِ رسول پاکﷺکاہی اثرتھاکہ امام زین العابدینؓ کے متعلق کہاجاتاہے کہ ’’جب رمضان کامہنہ آتاتو امام کی زبان مبارک پر دعا‘تسبیح ‘استغفاراورتکبیرکے علاوہ کچھ جاری نہ ہوتا۔‘‘
رمضان کے فضائل ایک اور حدیث مبارک میں اس طرح واضح فرمائے گئے ۔حدیث مبارک کامفہوم ہے ’’ماہ صیام عظیم مہینہ ہے جس میں اﷲ نیکیوں کو دوبرابرفرمادیتاہے گناہوں کومٹادیتاہے اوردرجات بلندفرماتاہے‘‘۔
رمضان المبارک ایسابابرکت مہینہ ہے کہ اس میں باقاعدگی اورخضوع وخشوع کے ساتھ کی گئی عبادت کانہ صرف ثواب بہت زیادہ ہے بلکہ اﷲ کاجوبندہ اس ماہ میں خلوص دل سے روزہ سمیت تمام عبادات بجالاتاہے ‘اﷲ تعالی اس کے دل سے ‘اس کے باطن سے ‘اس کے شعورولاشعورسے گناہ وبرائی کوایسے خارج کردیتے ہیں کہ باقی کے گیارہ ماہ بھی وہ محفوظ رہتاہے ۔اس طرح رمضان کااحترام کرنے سے انسان نہ صرف تہذیب نفس سے آشناہوتاہے بلکہ تزکیہ نفس کی دولت سے بھی مالامال کردیاجاتاہے۔
روزہ کے متعلق الفاظ باری تعالی ہیں (مفہوم)روزہ میرے لئے ہی ہے اورمیں ہی اس کااجردوں گا۔روزہ دار کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ دوران روزہ وہ اشیائے خوردونوش سمیت اپنی جبلی ضروریات سے بھی کنارہ کش رہتاہے یوں وہ محبتِ خداوندی میں کچھ وقت کیلئے مزید پابندیاں برداشت کرکے محبوب کی خاطراپنی محبت کاعملی اظہارکرتاہے۔ازدواجی تعلق سے متعلق احکام خداوندی اسی سورہ بقرہ کی آیت 187میں اﷲ کریم فرماتے ہیں :
’’اے مسلمانو!روزوں کی رات میں مباشرت تمہارے لئے حلال کردی گئی ہے تم اپنی بیویوں کے پاس جاسکتے ہووہ تمہارے لئے لباس ہیں اورتم ان کے لئے لباس ہو ‘‘۔
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیاجاتاہے ۔اس کے متعلق اﷲ تعالی کچھ اس طرح حکم فرماتے ہیں
’’اورجب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو توپھررات کو گھرآکراپنی بیویوں سے ازدواجی تعلق قائم نہیں کرسکتے ۔یہ حدیں اﷲ نے قائم کی ہیں ان کے قریب نہ جاؤ اس طرح اﷲ اپنی آیات لوگوں کے لئے واضح طورپربیان کرتاہے تاکہ وہ تقوی اختیارکریں‘‘۔
البتہ متعکف جنازہ میں شامل ہوسکتاہے اورکسی مریض کی عیادت کیلئے بھی جاسکتاہے ۔اس ضمن میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ آقاجی ﷺ نے فرمایا :’’اعتکاف والا جنازے کے ساتھ جاسکتاہے اور بیمارکی بیمارپرسی کرسکتاہے۔‘‘
اسی طرح دیگراحتیاط بھی روزہ دارکیلئے لازم وملزوم ٹھہرتی ہیں ۔خاص طورپرزبان کااستعمال نہایت احتیاط سے کرناچاہیئے۔
صحابی رسول پاک ﷺ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ محبوب خداﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو تو نہ دل لگی کی باتیں کرے اورنہ شوروغل کرے۔چناچہ اگراس کو برابھلاکہے یااس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں ۔‘‘(بخاری ومسلم)
اسلام سچادین ہے اورصداقت کی تلقین کرتاہے ۔اپنے ماننے والوں کو حق بات پرکٹ مرنے کی تلقین کرتاہے۔جھوٹ توویسے بھی تمام برائیوں کی جڑ ہے اوردین اسلام میں اسکی سختی ممانعت کی گئی ہے مگرروزہ کی حالت میں اس کااستعمال انسان کو حددرجہ پابندیوں کے ساتھ کی گئی عبادت سے بھی لطف اندوزنہیں ہونے دیتااورسیدنامحمدﷺ کے خداکے آگے بھی ایسے روزے دارکی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی ۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہادی اعظمﷺنے فرمایا:’’جوکذب بیانی اوراس پر عمل کرنانہ چھوڑے تو اﷲ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ شخص اپناکھاناپیناچھوڑے۔‘‘(بخاری)
اسی مفہوم کو ایک اورحدیث مبارکہ میں اس طرح واضح فرمایا گیاہے:
’’کتنے ہی ایسے روزہ دارہوتے ہیں جنہیں اُن کے روزوں سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
رمضان سے قبل یانصف شعبان کے بعد احادیث مبارکہ میں روزہ نہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے ۔جس کامطلب رمضان کی تیاری اورقوت کی بحالی ہے تاکہ تازہ دم ہوکربھرپوراندازمیں رمضان المبارک جیسے بابرکت اوررحمتوں سے بھرپورمہینے کااستقبال کیاجاسکے ۔امام ترمذی نے اس ضمن میں حدیث روایت کی ہے ’’جب شعبان کاآدھامہینہ باقی رہ جائے تو تم روزے نہ رکھو۔‘‘
اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق دین ہے تب ہی اسے عالمگیریت حاصل ہے اوریہ قیامت تک کامذہب ہے ۔حدیث شریف میں ہے (مفہوم)میں ایسادین لایاہوں جس میں دن ہے اوررات ہے ہی نہیں ‘مطلب کہ اس میں انسان کیلئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔روزہ کوقصداتوڑنے والے کیلئے توساٹھ مساکین کوکھاناکھلاناواجب ہے مگرجس شخص سے نسیان یابھول چوک سے ایسی غلطی سرزدہوجائے اسلام اسے انسانی کمزوری قراردے کر’’استثنا‘‘دیتاہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’جب تم میں سے کوئی شخص بھول کھاپی لے تو اسے چاہیئے کہ اپناروزہ پوراکرے‘کیونکہ اﷲ نے اسے کھلایااورپلایاہے۔‘‘(بخاری ومسلم)
رمضان کاپورامہینہ کائنات کے مالک کی جانب خصوصی لگاؤ کاتقاضاکرتاہے مگراس کا آخری عشرہ اس ماہ مبارک کاعروج تصورکیاجاتاہے ۔یہ مغفرت کاعشرہ ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ’’ جب رمضان کاآخری عشرہ شروع ہوجاتاتو سرورکونین ﷺ شب بیداری فرماتے اوراپنے اہل خانہ کو بھی بیدارکرتے اورکمرکس لیتے ۔‘‘ان الفاظ سے آپ ﷺ کی آخری عشرے میں ریاضت وعبادت میں اضافے اورشب بیداری کے عمل کی جامع وضاحت ہوجاتی ہے جوہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
شیرخدا‘حیدرکرار‘صحابی رسولﷺ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ’’اے انسان !تیرے پاس تین دن ہیں ۔ایک وہ جوگذرچکاہے اوراس پرتیرااختیارختم ہوچکاکیونکہ اس دن کے حوالے سے جو تونے کرناتھاکرلیا۔دوسرادن کل والاہے اوراس کاکامل یقین نہیں کیاجاسکتاکہ وہ تیری حیات میں آکرتجھے کچھ کرنے کاموقع دے گایانہیں ۔تیسرادن آج والاہے اوریہی دن تیرادن ہے اسلئے جو کرناہے آج ہی کرلے ۔اگلارمضان المبارک ممکن ہے ہماری زندگی میں نہ آئے ‘اس لئے جونیکی کرنی ہے ‘کسی غریب کی مدد کرنی ہے‘کسی بیمارکی عیادت کرنی ہے‘منزل وتلاوت کرنی ہے‘ہمسایوں اورعزیزواقارب پرخرچ کرناہے تو اسی رمضان ہی میں کرکے ڈھیروں نیکیاں لوٹ کراپنے پیارے رب کی رضاحاصل کرلیں۔
فوائدرمضان
روزہ انسان کے اندرتحمل ‘برداشت وبردباری پیداکرتاہے۔انسان غصہ کی حالت میں رب کی رضاکی خاطرہربات برداشت کرلیتاہے اوریوں روزہ انسان کے اندرضبط نفس کی قوت پیداکرتاہے ۔تحمل وبرداشت اورضبط نفس کی یہ ترتیب تیس دن قائم رکھنے کی وجہ سے یہ انسان کی طبیعت کاخاصہ بن جاتی ہے اوروہ باقی کے گیارہ ماہ بھی اس سے دینی ودنیاوی فوائدحاصل کرتاہے۔
روزہ کی حالت میں انسان خالص رب کی رضاکی خاطربھوک وپیاس برداشت کرتاہے۔اس حالت میں اُسے غرباء ومساکین کی حالت زارکااندازہ ہوتاہے اور سختی وبے حسی کی جگہ جذبہ ترحم اس کے اندرپیداہوتاہے۔جونہ صرف اسے جودوسخاپرقائل کرتاہے بلکہ اس سے معاشرے میں بھی اعتدال قائم ہوتاہے اورعداوت وغصہ کی جگہ محبت ویگانگت ‘اخوت وبھائی چارہ کی مثالیں قائم ہو تی ہیں۔
بسیارخوری سے معدہ وپیٹ کی متعدد بیماریاں پیداہوتی ہیں۔ایک ماہ مسلسل دوپہرکاکھانا تر ک کرنے سے ہردواعضاء کو مہلت میسرآتی ہے جس سے انسان متعددموذی امراض سے محفوظ رہتاہے۔
روزہ جیسی عبادت انسان کے اندراخلاص پیداکرتی ہے ۔ روزہ فقط اسکی ذات کی وجہ سے ہوتاہے اوراسی کیلئے ہوتاہے۔یہ عبادت تضنع وبناوٹ سے پاک اوراخلاص ومحبت کامظہرہوتی ہے۔
روزہ دار‘روزہ کے دوران فقط رب کائنات کے خوف ومحبت میں منع کی گئی ہرشے سے احتراز برتتاہے ۔وہ خداکوحاضروناظرتصورکرکے تنہائی میں بھی جرم کاارتکاب نہیں کرتااسطرح مسلسل تیس دن کاعمل اس کی رگ رگ ‘لوں لوں میں یہ عقیدہ راسخ کردیتاہے کہ رب کائنات کی اس کے ہرعمل پرنظرہے اوریوں وہ عصیاں کے قعرمذلت میں گرنے سے محفوظ رہتاہے۔
رمضان المبارک کو خدائے بزرگ وبرتر نے یہ فضیلت بھی دی ہے کہ وہ روز محشر پورے اہتمام سے روزہ رکھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔اس ضمن میں سیدہ فاطمہ ؓ کے بابا فرماتے ہیں ’’رمضان اورقرآن دونوں شفاعت کریں گے۔‘‘
رمضان اورہم
ماہ صیام کے آغاز سے ہی مختلف نجی ٹی وی چینلزپررمضان شریف سے متعلق ’’مخلوط‘‘پروگرام نشرکئے جاتے ہیں ۔دوچارسال سے تو یہ معمول بن چکاہے کہ لوگ رات گئے تک ٹی وی کے آگے بیٹھ کرپروگرام تکتے ہیں اوراسے ہی عبادت سمجھتے ہیں ۔چند نام نہاد علماء خواتین کے ساتھ عامیانہ اندازمیں گفتگوفرماتے ہیں اوراسلام میں رمضان کی اہمیت وافادیت بیان کرکے ایساسحرطاری کرتے ہیں کہ عوام بیچارے تسبیح وتہلیل سے رہ جاتے ہیں۔لیلتہ القدرکی رات جہاں ہزارہاراتوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہیں اس رات سے میڈیاچینلز بھی خوب کماتے ہیں اوراتنے دلفریب اندازمیں پروگرام کااشتہارچلاتے ہیں کہ لوگ ہاتھ میں موجود تسبیح کے دانے کوحرکت دینابھی بھول جاتے ہیں اوراس رات ہمہ قسم کی عبادت سے محروم ہوکراس پروگرام کی جلوہ گریوں کوہی جنت کاٹکٹ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
عمرہ کرنابلاشبہ ایک دینی عمل ہے ۔اس سے روح کونفاست وپاکیزگی ملتی ہے مگرکیاہم نے فرائض کی ادائیگی کردی ؟رمضان المبارک میں جہاں عمرہ کرانے والی کمپنیوں کے ریٹ آسمان کوچھورہے ہوتے ہیں وہیں ہم بھی اپنے قرب وجوارسے بیگانہ ہوکرعمرہ کرنے تشریف لاجاتے ہیں ۔
رمضان المبارک ہمیں ہمدردی واخوت کاسبق دیتاہے مگر ہم اس بابرکت مہینہ میں اس قدربسیارخوری اپناتے ہیں کہ بعض افرادتوماہ مقدس میں ہی متعددبارہسپتال کی ہواکھالیتے ہیں۔ہم کلی طورپراپنے ہمسائے سے بیگانہ ہوکرسحروافطارمیں انواع واقسام کے کھانے سجاتے ہیں اوربیشترکھاناضائع ہوجاتاہے مگرکسی بشرکی خوراک نہیں بن پاتا۔
رمضان کاآخری عشرہ صوم صلوتہ اورعبادت کاتقاضاکرتاہے مگرہم اس میں سے بیشتروقت عیدالفطرکیلئے خریداری کرتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔اورعیدآتے ہی ہم تمام ترعبادات کوبھلاکراپنی پرانی عادتوں کی جانب لوٹ آتے ہیں جواس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ہماری کی گئی عبادت میں کوئی کمی رہ گئی ہے وگرنہ خلوص نیت سے کئے گئے تیس دن کے عمل سے انسانی طبیعت اس قدر ہم آہنگ ہوجاتی ہے کہ روگرداتی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
رمضان شریف سے اخوت وہمدردی کاجوسبق ہم حاصل کرتے ہیں اسے عیدکے دن تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاپاتے ‘عزیزواقارب اورقرب وجوارمیں بسنے والی بیوہ بہنوں‘یتیم بچوں‘ناداربیٹیوں ‘بے آسراماؤں ‘بیماربھائیوں میں سے کسی کی امدادنہیں کرتے نہ ہی پہلی فرصت میں انہیں عید ملنے جاتے ہیں اگرہم یہ عمل خالص اﷲ کی محبت سے کرگزریں تو دلی سکون بھی میسرہوگا اورسرورکائنات ﷺ کی مسرت کاباعث بھی بنے گا۔
سائیڈسٹوری
حدیث شریف کے مطابق اﷲ تعالی نے تمام مقدس صحیفے اورکتابیں اس ماہ مقدس میں نازل فرمائیں ۔صحیفہ ابراہیمی ‘تورات‘زبور‘انجیل ‘قرآن مقدس بالترتیب یکم‘چھ‘بارہ‘تیرہ اورچوبیس رمضان المبارک کوزمین پراتارے گئے۔رمضان کے روزے ہجرت کے اٹھارہ ماہ بعد ‘ماہ شعبان میں بمطابق 624 عیسوی فرض قراردیئے گئے۔
 
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.