پاکستان نے ایک موقع گنوا دیا

پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔اس کے پڑوسی ممالک کے تعلقات میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔مختلف مذاہب اور نظریات کے ملک ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف تاریخی دوستانہ تعلقات رکھنے والے ممالک میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔بڑی طاقتوں کی ترجیحات میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ایسے حالات میں پاکستانی قیادت کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں اور خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے کو سمجھنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مربوط حکمتِ عملی اپنانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔اگر اس منظر نامے سے صرفِ نگاہ برتا گیا تو پاکستانی عوام کو اس خطے میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

جس دن سے ایران عالمی اقتصادی پابندیوں سے آزاد ہوا ہے وہ اس دن سے خطے کی سیاست میں کافی متحرک اور سرگرم ہو چکا ہے۔اس نے سب سے پہلے پاکستان سے ہی رجوع کیا تھا ۔گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے اس نے پاکستان سے مدد کی درخواست بھی کی تھی مگر پاکستان نے سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دوسرے دوست اسلامی ملک کو خوش کرنے کے لیے اس درخواست کو التوا میں ڈال دیا تھا۔ایران پاکستان کے ساتھ مزید معاشی منصوبوں پر کام کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔پاکستان کا خیال ہے ملک میں جاری سی پیک منصوبہ اس کی معاشی حالت کو بدل دے گا مگر دیگر پڑوسی ممالک کی آپس کی قربت اب اس منصوبے کا فیض شاہد ہی اس ملک کو پہنچنے دے۔پاکستان نے ایران کی پیشکش کو نظر انداز کر کے ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا ہے۔پاکستان نے جوں ہی ایران سے ذرا دوری اختیار کی بھارت اس کے بہت قریب آگیا۔چار بہار بندر گاہ منصوبے سمیت کئی ایک بڑے اقتصادی منصوبے یہ دونوں ملک لانچ کر چکے ہیں۔افغانستان پہلے ہی پاکستان سے کچھ نالاں تھا جس کا ان دونوں ملکوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اب یہ تینوں ملک اس خطے کے بڑے اتحادی بن کر سامنے آچکے ہیں۔روس کا جھکاؤ بھی ایران اور بھارت کی طرف ہے۔پاکستان اب سب سے زیادہ انحصار چین پر کرنے لگا ہے۔چین پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔پاکستان میں بڑھتے ہوئے اس کے اثر کی بدولت امریکہ پاکستان سے ہاتھ کھینچ رہا ہے۔وہ مختلف حیلے بہانوں سے اسے دی جانے والی امداد پر قدغن لگا رہا ہے۔وہ پاکستان میں اپنے اقتصادی منصوبوں کو کم کر رہا ہے۔امریکہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر رسوخ کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔اسی وجہ سے وہ پاکستان سے دور ہو رہا ہے۔امریکہ اور چین کے اقتصادی منصوبوں میں ایک فرق ہے جسے پاکستانی عوام کو لازمی سمجھنا ہو گا۔امریکی منصوبے عوامی فلاح و بہبود کے حامل ہوتے ہیں ۔وہ تعلیم،صحت،پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور اداروں میں اصلاحات سمیت کئی ایک منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔ان کی امداد کا تعلق براہ راست پاکستانی عوام تک تھا۔جبکہ چین کے منصوبے عوامی فلاح کی بجائے فوجی اور کاروباری نوعیت کے ہیں۔چین ایک کیمونسٹ ملک ہے ۔اسے صرف اپنا مفاد عزیز ہے کیمونزم میں دوستی کا مطلب ذرا مختلف ہے۔وہ پاکستان کو اپنے لیے محض ایک فرسٹ ڈیفنس لائن کے طور پر ہی دیکھتا ہے۔چین دیگر ملکوں سے الجھنے کی پالیسی کے خلاف ہے اور دو ملکوں کے درمیان تنازعات پر ہمیشہ الگ ہی رہتا ہے۔ایسے میں پاکستان اس خطے میں تنہا ہوتا ہوا ملک نظر آ رہا ہے۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستانی قیادت کو اس کی سنگینی کا احساس تک نہیں ہے۔تین سالوں سے وزارت خارجہ بغیر وزیر کے ہے۔وزیر اعظم اکثر ملک سے باہر رہتے ہیں وہ ان دنوں بھی لندن میں زیر علاج ہیں۔لگ بھگ تمام حکومتی قیادت بھی ان کے ہمراہ ہے۔حساس معاملات پر حکومتی موقف وزیر اعظم کے صحت یاب ہونے تک التوا میں ہیں ۔

ان حالات میں پارلیمنٹ کی خاموشی افسوس ناک ہے۔ملکی حالات پر بحث کرنا اور حکومت کو تجاویز دینا پارلیمان کا ہی کام ہے۔اگر وزیر اعظم کا بیرون ملک قیام مزید طول پکڑتا ہے تو اسے متبادل قیادت کے آپشن پر بھی غور کرنا ہو گا۔پارلیمنٹ کو ہی خارجہ پالیسی کی گائیڈ لائنز سیٹ کرنا ہو ں گی۔دوست ممالک کا تعین کرنا ہو گا۔اسی پارلیمنٹ کو اپنے اندر سے آغا شاہی جیسے شخص کو بطورِ وزیر خارجہ آگے لانے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔اگر پارلیمنٹ یوں ہی سوئی رہی تو پھر پاکستانی عوام کواس خطے میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61674 views i am columnist and write on national and international issues... View More