یہ خطابِ لاجواب!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
صدر ممنون حسین کے اہم ترین خطاب کی
عوام کے لئے ایک فیصد بھی اہمیت نہیں، عوام ایسے آئینی اور قانونی تقاضوں
کی تکمیل کے بارے میں کوئی معلومات اور دلچسپی نہیں رکھتے، کیونکہ یہ ان کی
ضرورت ہی نہیں۔ عوام کی کیا بات کی جائے کہ ان کے منتخب کئے ہوئے نمائندے
اگر اسمبلی کے اجلاسوں میں نہیں جاتے، یا جاتے ہیں تو ایک لفظ نہیں بولتے،
اپنے علاقے کے مسائل حل کروانے کی کوشش نہیں کرتے، عوام نے کبھی اپنے
نمائندوں سے ان کے فرائض کے بارے میں استفسار نہیں کیا، وہ نمائندے نہ جانے
کس کے سامنے جوابدہ ہیں؟ عوام کی اپنی نفسیات ہے، وہ جس معاملے کو چاہیں،
اس میں دلچسپی لیں، جسے چاہیں نظر انداز کردیں۔ مگر یہاں پارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس میں موجودہ حکومت کا تیسرا پارلیمانی سال مکمل ہونے پر صدر کا
سالانہ آئینی خطاب سننے کے لئے 70فیصد سے بھی کم ارکان موجود تھے۔ اجلاس
میں وزرائے اعلیٰ اور گورنر سندھ بھی شریک نہیں ہوئے، کئی وزراء بھی موجود
نہ تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے چند معزز شخصیات وزیرپاکستان میاں نواز
شریف کی عیادت کے لئے لندن گئے ہوئے ہیں۔ تاہم اتنی بڑی تعداد میں غیر
حاضری ہر کسی کے لئے حیران کن ہے۔
ممنون حسین پاکستان کے صدر ہیں، سربراہِ حکومت نہیں، سربراہِ مملکت۔ حکومت
میں توبے شمار مخالفتوں کا سامنا ہوتا ہے، طرح طرح کی حزبِ اختلاف ہوتی ہے،
اور بعض اوقات وزیراعظم بننے والا فرد کاسٹ کئے گئے ووٹوں میں بہت ہی کم
تناسب پر ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسمبلی میں پہنچنے والوں کی اکثریت سے
وہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ مگر صدر تو ملک کا آئینی سربراہ ہوتا ہے، وہ تو
پورے ملک کے خواص وعام کا سرپرست ہے، مگر یہاں یہ ہوتا ہے کہ صدر صاحب اپنے
خطاب میں ایک فریق بن جاتے ہیں، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اپوزیشن
حکومت پر تنقید کرتے وقت قائد اعظم کا یہ فرمان ذہن میں رکھے کہ اپوزیشن یا
کوئی اور منتخب حکومت پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے، اسے بلاجواز
تنقید کا نشان نہ بنائے۔ تاہم صدر نے مثبت تنقید کو قابلِ قبول بتایا۔ یہ
الگ بات ہے کہ کس تنقید کو صدر اور ان کی حکومت مرضی مسلط کرنے والی تنقید
کہتی ہے اور کس تنقید کو ’مثبت‘ قرار دیا جاتا ہے۔ شاید یہ اسی قسم کا
معاملہ ہے کہ اپنے ہاں اب فرینڈلی اپوزیشن کا کلچر بھی فروغ پا چکا ہے،
بلکہ ایک طعنہ بن چکا ہے۔ یہ کام گزشتہ حکومت کے دور سے شروع ہوا ہے، ابھی
تک کسی حد تک جاری ہے۔ صدر نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ کام بھی شمار
کروائے جو موجودہ حکومت نے اپنے تئیں عوامی بہبود کے ضمن میں شروع کر رکھے
ہیں۔ واضح رہے کہ کسی کام کی تحسین کرنا اور بات ہوتی ہے اور اس کام کو
بطور کارنامہ خوبی بناکر شمار کرنا اور بات۔ صدر کی تقریر سے یہی محسوس
ہورہا تھا کہ وہ حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ صدر کے پانامہ لیکس اور
بلوچستان پر امریکی ڈرون حملے کا ذکر گول کرنے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔
اپنے خطاب میں صدر نے کہا کہ خواتین کو قومی دھارے میں لائے بغیر پائیدار
ترقی ممکن نہیں، اس سلسلے میں انہوں نے مشورہ دیا کہ پرائمری تعلیم تک صرف
خواتین اساتذہ ہی ہونی چاہییں۔ صدر کا فرمایا ہوا یقینا حکم کا درجہ رکھتا
ہے،اس لئے اب مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس حکم کی تعمیل میں دن رات ایک
کردیں گی، پہلے سروے ہوگا، کتنے پرائمری سکول ہیں، پہلے سے ان میں کتنی
خواتین اساتذہ موجود ہیں، مزید کتنی گنجائش ہے، اور یہ بھی کہ اس میں جو
مرد اساتذہ کام کر رہے ہیں ، ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے گا؟ انہیں
گھر بھیجا جائے گا یا کسی اور سکول میں ایڈجسٹ کیا جائے گا؟ اسی طرح صدر نے
انتہا پسندی کے اسباب جاننے کا بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ احساس کیا، انہوں
نے تجویز دی کہ اس مقصد کے لئے غیر جانبدار، غیر سیاسی علما اور سماجی علوم
کے ماہرین پر مشتمل گروپ تشکیل دیا جائے، ظاہر ہے اب حکومت کو یہ فرض بھی
نبھانا ہے، بہت سے غیر جانبدار ماہرین اکٹھے کئے جائیں گے، جو انتہا پسندی
کے اسباب تلاش کریں گے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شروع ہوئے عشرے گزر
گئے، صدر صاحب اب اسباب تلاش کرنے نکلے ہیں۔ انتہا پسندی بہت نازک ایشو ہے،
دیکھیں اب حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے کس طرح رات دن ایک کرتی اور صدر کا
حکم بجا لاتی ہے؟ بہرحال صدر نے خطاب کرکے اپنا فرض پورا کردیا ہے، اب اس
خطاب پر بحث کا مرحلہ ہے، اور حکومت کے لئے یہ پریشانی کا مرحلہ بھی کہ
اجلاس کی حاضری اتنی کم کیوں رہی؟
|
|