قرآنی آیات کا مفہوم ہے کہ بے شک انسان
خسارے میں ہے۔ایک انسان محنت کرتا ہے اور پیسہ اکٹھا کرتا ہے پھر انسان
کہتا ہے میرے پاس ایک گھر ہونا چاہئے جس پر وہ خرچ کرتا ہے ایک دن آ ہے کہ
گھر مکمل ہو جاتاہے اس میں تمام سہولیات ہوتیں ہیں کہ جنہیں حاصل کرنے
کیلئے انسان نے محنت کی ہوتی ہے لیکن آخر میں افسوس اس بات کا ہوتا ہے اسی
خوبصورت گھر سے انسان کا جنازہ اٹھ رہا ہوتا اور پھر ایک دن آتا ہے اسی گھر
میں رہنے والے اسے بھلا دیتے ہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر عروج کی
انتہا زوال ہے ۔حال ہی میں میاں صاحب کی اوپن ہارٹ سرجری الحمد اﷲ کامیابی
کے ساتھ اختتام ہو چکی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ان کے دل میں چار بائی
پاس کئے گئے ہیں جو کہ اب سوالیہ نشان ہیں کہ انہیں کتنے عرصے تک بیڈ ریسٹ
دیا جائے گا اور آئندہ 48 سے 72 گھنٹے بھی انتہائی اہم ہیں کہ جس میں میاں
صاحب کو ڈاکٹروں نے اٹھا کر چلانا بھی ہے کہیں پھر سے کہیں خون کا نجماد ہو
کر ان کیلئے ایک بڑا مسئلہ نہ کھڑا کر دے اور ملک میں گزرتا آئینی بحران
بھی تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے اس بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی
اور میاں صاحب کی غیر موجودگی میں تمام معاملات بھی تاخیر کا شکار ہیں جو
میاں صاحب نے خود دیکھنے ہوتے ہیں جیسے کہ اگر کسی نے ملک سے باہر جانا ہے
تو جب تک میاں صاحب اسکے دستاویزات پر دستخط نہیں کریں گے تب تک وہ شخص تو
سفر نہیں کر سکتا !ایسے باقی معاملات بھی زیر غور ہیں ۔ویسے تو میاں صا اور
انکے وزراء کی جانب سے لندن جانے سے پہلے آخری دن تک کوئی بات تک نہیں
بتائی گئی اور سیاسی بیان بازیاں بھی چلتی رہیں اپوزیشن اور حکومتی جماعت
کے سینئیر ترین عہدیداروں وممبروں سمیت جو کہ ایک بھونڈا مذاق تھا لیکن
جبکہ ساتھ ہی میاں صاحب نے بھی دھڑا دھڑ تین جلسے کر دئیے مطلب اس بات کا
تو اندازہ ہی نہیں ہونے دیا گیا کہ میاں محمد نواز شریف صاحب کس حالت زار
سے گزر رہے ہیں کیوں انسانیت اپنی جگہ اور سیاست اپنی جگہ !!!خیر میاں صاحب
کو انکے قریبی ساتھیوں نے بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ ایسی صورتحال میں ضرور
اپنی جگہ کوئی بھی وزیر اعظم دے کر جائیں جو آپکے بعد بھی پاکستان کے حالات
کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو لیکن وزیر اعظم صاحب نے اس کے بر عکس کسی کو
بھی اپنے منصب پر نہیں بٹھایا جسکی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران پیا ہو گیا
ہے اور وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف بھی لندن پہنچے تو انہوں نے کہا ہے
کہ وہ میاں صاحب کو سفارش کریں گے کہ اس سیاسی بحراں کو جلد سے جلد سمیٹا
جائے اور ویسے بھی اگر ایسے ہی حالات رہے تو ریاست کا چلنا محال ہو جائے گا
لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہئے کہ ماضی قریب میں جب
میاں شہباز شریف نے مشرف کے بارے میں سفارشات کی تھیں اور جہاز بھی منگوا
لیا تھا تب بھی میاں نواز شریف صاحب نے انکی سفارشات پر غور نہیں کیا تھا
بلکہ اپنی مرضی کی تھی جو کہ بعد میں مشرف بیرون ملک چلا ہی گیا تھا ۔یہاں
اب بات ایک اور بھی قابل غور ہے کہ یوں لگتا ہے کہ میاں صاحب کیلئے صرف
محترمہ مریم نواز ہی ہیں جو ان کا منصب سنبھالیں گی یا مستقبل میں وزیر
اعظم بنیں گی جس کے لئے میاں صاحب نے ایک سال پہلے ہی انہیں پرموت کرنا
شروع کر دیا تھا ۔یہ بات واضح ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس میں گورنر ،سیکرٹری
اور منسٹرز جواب دہ مریم نواز صاحبہ کے ہوتے ہیں انہیں رپورٹ کرتے ہیں وہ
صرف اس لئے کہ وہ دختر اول ہیں اور میاں محمد نواز شریف کی بیٹی ہیں جو کہ
دفعہ اس بات کا اقرار بھی میڈیا پر کر چکی ہیں کہ وہ مستقبل میں پاکستان
میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گی لیکن اگر انکا رویہ دیکھا جائے تو وہ
کچھ الگ جذباتی سا لگتا ہے مطلب حال ہی میں انکے میڈیا پر بیانات آئے ہیں
جس میں انہوں نے اپوزیشن کے بارے میں جو لغویات کہیں وہ آن ریکارڈ ہیں اور
جو انہوں نے کہا کہ جب اپنے والد کو ایسی حالت میں دیکھو تو کیا گزرتی ہے
یہ تو مجھے آج پتہ چلا ہے !!اگر دیکھا جائے تو وہ بھی تو کسی ماں باپ اور
بچے ہیں جو ہسپتالوں میں بلک بلک کر اور تڑپ تڑپ کو مر جاتے ہیں جو صرف
غریبی کی وجہ سے اپنا علاج نہیں کروا سکتے وہ صرف اس لئے اپنا علاج نہیں
کروا سکتے کہ وہ آئینی طور پر حکومت عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولیات دینے
سے قاصر ہے اور دوسرا آئین کی خلاف ورزی یہ کہ تقریبا تمام پارلیمنٹیرین
معاملات محترمہ سنبھال رہیں ہیں ۔انہیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آ تی کہ
محترمہ صاحبہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور بہت بے رحم ہو تی یہ ایک
حقیقت ہے کیا آپکو یاد نہیں کہ اورنگزیب نے شاہ جہاں کو صرف اس لئے کہ انکا
باپ ان سے محبت نہیں رکھتا تھا اقتدار سنبھالنے کے بعد اس جگہ قید کر دیا
تھا جہاں سے شاہ جہاں تاج محل کو تکتے تکتے مر گئے تھے آج جو الفاظ آ پ کے
سامنے آ رہے ہیں کہ کروڑوں لوگوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں ہم بھی دعا گو
ہیں لیکن اگر ریاستی امور اور حالات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں
ہوگا کہ کسی کی دعائیں انکے ساتھ نہیں ہیں کیونکہ اس وقت عوام جو چاہتی ہے
اس کا تو مذاق اڑایا جا رہا ہے عوام دیکھنا چاہتی ہے کہ احتساب کیسے ہوتا
ہے ایک شخص جسکا پورا خاندان پیسے چوری کر کے آزاد گھومتا ہے اسکو کوئی بھی
پوچھنے والا نہیں ہے اس کیلئے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے یہ
بیانات صرف و طاقت کے بل بوطے پر دئیے جا رہے ہیں کیا انہیں یاد نہیں کہ جب
جلاوطنی کے دوران شہباز شریف صاحب کو ٹیو مر جیسی خطر ناک بیماری کا مسئلہ
در پیش آیا تو وہ خاموشی سے ہسپتال جو کر داخل ہو گئے تھے اور اپنا علاج
کروایا تھا کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں دی تھی اس وقت یہ کروڑوں لوگ کہاں
تھے جو آج نظر آ رہے ہیں ۔یوں تو محترمہ مریم نواز صاحبہ کہتی ہیں کہ
مستقبل میں انہیں پارٹی میں کوئی جگہ نظر نہیں آ تی لیکن ساتھ میں یہ بھی
کہتی ہیں کہ وہ مستقبل کی وزیر اعظم ہیں ایسے ہی خواجہ آصف صاحب نے بیان
دیا کہ پیر کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں میاں صاحب حاضر ہونگے جنکا ابھی
آپریشن ہوا پڑا ہے ان تمام باتوں کے حلیم میں احتساب کو کہیں پس پشت ڈال
دیا گیا ہے ان سلجھے اور سمجھ دار پاکستان کے حکمرانوں کو کم سے کم ان غیر
اخلاقی حرکات سے پرہیز کرنا چاہئے تھا ابھی تو احتساب جاری ہے جو ابھی تک
انٹیرئیر سندھ میں ہی مکمل نہیں ہوا ہے اور کچھ تاخیر ضرور ہوئی ہے چھوٹو
گینگ کی وجہ سے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ عوام اس کو بھول گئی ہے اور اوپر
سے اندرونی طور پر ہی بیان دے دیا جاتا ہے کہ نیب کچھ نہیں کر سکتی اس سے
کچھ نہیں ہو گا لیکن یہ نہ بھولیں گے کہ عوام کے سامنے ہے آئے دن جب کروڑوں
روپے برآمد کئے جا رہے ہیں اور لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے کسی کو معافی نہیں
مل رہی ہے ۔اس وقت ن لیگ کی کشتی ڈوبتی نظر آ رہی ہے کہ جب اسے پانچ چھ
ملاح مل کر چلا رہے ہیں اور سبھی اپنی اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اس وقت میاں
صاحب کو یہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں کیونکہ جب بھی کسی دور
حکومت کا تختہ الٹا ہوا ہے اس کے پیچھے اپنے ہی لوگوں کا ہاتھ رہا ہے کوئی
نیا نہیں ہے یہ سبھی پرانے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو بار بار بھیس بدل کر
حکومتوں کا حصہ بن رہے ہیں ۔
|