(تحریر:بریگیڈئیر (ر) محمد حنیف)
پس منظر:
1۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے روزنامہ جنگ کے دو مایہ
ناز لکھاریوں نے یہ تجاویز دیں :
1.1 سلیم صافی صاحب نے پہلے 22-8-15کو War on Terrorکے ساتھ (بیوقوفی)War
on Stupidityکی ضرورت پر زور دیا اور کافی عرصہ کوئی Responseنہ ملنے پر
2-2-16کو Truth and Reconciliation Commisionکی تشکیل کی بات کی۔
1.2 امتیاز عالم صاحب نے 2-2-16کو مذہبی شدت پسند بیانیہ پیش کیا پھر
9-2-16کو قومی و جمہوریہ بیانیہ لیکر آئے حالانکہ انہیں متبادل کے طور پر
اسلامی بیانیہ لانا چاہیے تھا ۔
1.3 لگتا ہے کہ سلیم صافی صاحب تو موجودہ نظام حکومت سے تنگ ہیں اور
Changeچاہتے ہیں مگر خود کوئی بیانیہ پیش کرنے کی بجائے دوسروں کو
hintsدیتے ہیں کہ وہ کوئی حل نکال کے دیں مگر امتیاز صاحب تو قومی و جمہوری
بیانیے کے ذریعے اہل علم، ماہر عمرانیات اور مفکرین کو اپنا ہمنوا بنانا
چاہتے ہیں ۔
بنیادی غلطی :
2۔ میرے خیال میں ہم پاکستان بناتے ہی ایک ایسی بیوقوفی کربیٹھے ہیں جسکی
وجہ سے ہمارے ظاہر اور باطن میں ہم آہنگی کا فقدان ہے اور یہی دورخی ہم میں
مختلف اقسام کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے War on Terror اسکا صرف ایک مظہر ہے
آئیے دیکھیں کہ یہ کیا بیوقوفی یا غلطی ہے ۔آئین پاکستان میں ہمارے ملک کا
نام Islamic Republic of Pakistanمختصر اً پاکستان ہے جس کے حروف ایک
جغرافیا ئی بنیاد پر چنے گئے تھے مگر IslamicاورRepublicنظریاتی سرحدوں کی
طرف اشارہ کرتے تھے یعنی ہماری قوم کا نظریۂ حیات کیا ہوگا ۔ ہماری بھاری
مسلمان اکثریت کا دین اسلام ہے جس کی بنیاد لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پر
اٹھائی گئی ہے Republicکی وضاحت ڈکشنری میں یوں ہے (Country with a) System
of Govt. In which the elected representatives of the people are supreme
with an elected head ( The President).جس کو معروف مضمون میں ہم جمہوری
نظام حکومت کہتے ہیں۔
2.1۔ ہماری اصل غلطی یہ ہے کہ آج تک ہم اسلامی اور جمہوری جو دو مختلف
نظریۂ حیات ہیں ان میں سے کسی ایک کو چن نہیں سکے یہ چناؤ کی جنگ آج تک
جاری ہے اور اس کا فیصلہ نہیں ہوسکا ۔ چونکہ انسانی زندگی ایک اکائی
اورناقابل تقسیم وحدت ہے اس لیے دو مختلف مأخذ سے ہدایات حاصل کرنے کی کوشش
ایسی ہی ہے جیسے کوئی انسان بیک وقت دوکشتیوں میں سوار ہوکر سفر کرنے کی
کوشش کرے ۔ جمہوریت کا مأخذ انسانی عقل تک محدود ، نفسانی خواہشات کا تابع
اور قیاس و تخیل پر مبنی ہے اسلام کا مأخذ قرآن و سنت ہے جو الوہی ہدایات
پر مبنی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان دو میں سے ایک کا چناؤ کریں اور اس پر کا
ربندہوں۔
2.2۔ امتیاز عالم صاحب دو بیانیے سامنے لائے ان میں اصل بیانیہ جو ہماری
ضرورت ہے یعنی اسلامی بیانیہ اسکو سامنے نہیں لائے مذہب دین کا صرف ایک حصہ
ہے مکمل دین نہیں اور شدت پسند ی دین اسلام کے صحیح فکر سے ہٹ کر افراط اور
تفریط کے دو اظہار ہیں لیکن آئیے پہلے قومی و جمہوری بیانیے پر بات ہو جائے
جس پر وہ اہل علم ، ماہرین اور مفکرین کو قائل کرکے اپنا ہمنوابنانا چاہتے
ہیں ۔
3۔ قومی و جمہوری بیانیہ :
اس بیانیے میں دو تصوار ت کا ذکر ہے قومی اور جمہوری ۔ یہ اصل میں ریاست کا
ایک جدید تصور ہے جو مغربی تہذیب کی پیداوار ہے وہ ریاست کی تین بنیادیں
قرار دیتے ہیں ۔(1)سیکولر(2)قومی(3)قانونی
اس تصور کے مطابق ریاست قانوناً ایک شخصیت ہے اس کے خلاف بحیثیت ایک جماعت
یا ایک شخصیت مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ مدعی بھی ہوسکتی ہے اور مدعا
علیہ بھی ۔ ریاست کا اپنا ارادہ ہوتاہے جسکا اظہار الفاظ یا عمل کے ذریعے
ہوتاہے ۔ اسکے اپنے مفادات اور حقوق ہو سکتے ہیں ۔ قومی اور جمہوری بیانیہ
میں سیکولر اور قانونی تصور کو جمہوری کے لفظ میں ضم کرکے دو تصورات
بنادیئے گئے ہیں قومی اور جمہوری ۔
3.2۔ قومی تصور : قومیت کے عموماً سات عناصر بتائے جاتے ہیں ۔(1) نسل(2)
زبان(3)مذہب ( دین نہیں کیونکہ مذہب دین کا صرف ایک حصہ ہے ) (4) علاقہ(5)
تاریخ(6) سیاسی جذبات(7) ثقافت تمدن افکار و خیالات اور رسم و رواج ۔ان میں
سے جتنے عناصر اکٹھے ہوجائیں اتنی ہی قومیت مضبوط ہوگی ۔ قومیتوں کی سیاسی
تنظیم یعنی ریاست ان کو قوم بناتی ہے ۔ عموماً قوم کا نام ریاست کے نام سے
ہی نکلتا ہے مثلاً پاکستانی قوم ، بھارتی قوم،اردنی قوم ، عراقی قوم ،
ایرانی قوم یا فرانسیسی ، امریکی یا برطانوی قوم وغیرہ۔ ان سات عناصر میں
سے کسی ایک کا اشتراک نہ ہو تو صحیح قومیت کا تصور پیدا نہیں ہوتا اور جتنے
کم عناصر کا اشتراک ہو تو اتنی ہی ڈھیلی ڈھالی قومیت ہوتی ہے اور جب قوم
مختلف قومیتوں سے مل کر بنے تو اس کاوجود اتنا ہی کمزور اور ڈھیلا ڈھالا
ہوگا جتنی اسمیں قومیتیں ہونگی ۔ ایسی ریاست جس میں قومیت اور جذبہ قومیت
کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہوں تو وہ قومی ریاست کہلانے کی مستحق ہے ۔ جذبہ
ٔ قومیت وہ جذبہ ہے جو لوگوں میں قومیت کا تصور پیدا کرکے ان کو متحد کردے
۔ قومی ریاست کی تشکیل میں جذبہ ٔ قومیت اس درجہ بلند ہونا چاہیے کہ ریاست
کی وفاداری تمام دوسری وفاداریوں پر غالب آجائے۔ ہر عنصرِ قومیت اور ہر
قومیت اپنی ایک وفاداری چاہتے ہیں ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستانی قوم میں
لوگ کتنی وفاداریوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور عملاً ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ سب
وفاداریاں اور پھر ہر انسان کی اپنی خواہشات ہمیں کس حد تک منقسم کئے ہوئے
ہیں ۔قوم کی بجائے اسلام نے ملت کا تصور پیش کیا ہے ۔
3.3۔جمہوری تصور: بیانیے میں دوسرا تصور جمہوری ہے ۔ اس لفظ کا آج کل کچھ
رواج ہی پڑ گیا ہے ہر ریاست اور ہر معاشرہ اس لفظ کے استعمال پر فخر محسوس
کرتاہے ہر مسئلہ کے حل کرنے میں عوام کی بھی یہی آواز ہوتی ہے کہ اسے
جمہوری طو ر پر حل ہونا چاہیے۔ سرمایہ دار ممالک ، اشتراکی ممالک حتی کہ
مسلمان ممالک بھی حقیقی جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں ۔ سقراط اور ارسطو کے
زمانے سے شروع یہ لفظ اپنے معنوں میں وسعت پیدا کرتا رہا ہے ۔ لیکن اس کی
جڑ یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہوتا ہے جو اسکے نمائندے استعمال
کرتے ہیں قوانین اور ضابطوں کی بنیادملک کا آئین یا دستورہوتاہے اور اسکی
فکری بنیادیں کئی قسم کے ازمز پر ہوتی ہیں ۔ مثلاً سیکولرازم ، کیپیٹل ازم
، ہیومزم، یوٹیلی ٹیرین ازم ، لبرلزم، ایمپیریسزم وغیرہ ۔
3.4 سیکولر ازم کا مطلب ہے کہ سیاست اور مذہب جدا جدا ہیں مذہب کا سیاست
میں کوئی دخل نہیں یہ ہر انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اس طرح سیکولرازم کا مفہوم
غیر مذہبی اور دنیا وی سوچ ہے یہ مابعد الموت اور مابعد الطبیعاتی مسائل کو
دنیوی مسائل کے ساتھ نہیں ملاتا اور ان مسائل کو حکومت اور ریاست میں دخیل
ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔ جمہوریت ،جو سرمایہ دارانہ اقدار اور ادارتی صف
بندی کے قیام و استحکام کے سواکچھ نہیں ،کا معاشی نظام کیپیٹل ازم ہے ۔ جو
جمہوری قدر’’ انسانی آزادی ‘‘(Liberty) پر لگی مادی ، سماجی اور قانونی
پابندیوں کے خلاف جدو جہد کانام ہے ۔
3.5۔ ملی تصور : ملت اس نظام کا نام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے رسل اور انبیاء کی
زبان پر بندوں کے لیے مقرر فرمایا تاکہ وہ اس نظام میں رہ کر اس کے ذریعے
سے قرب الٰہی حاصل کریں ۔ ملت اور دین ایک ہی چیز کے دونام ہیں کسی چیز کو
من جانب اﷲ مشروع ہونے کے لحاظ سے ملت کہا جاتاہے اور اس کے قائم کرنے اور
بجالانے والے کے لحاظ سے دین کہا جاتاہے کیونکہ دین کے معنی اطاعت اور
فرمانبرداری کے ہیں ملت کی اضافت اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا
ہے مسلمانوں کا دین اسلام ہے۔ نظام اور ضابطہ میں فرق ہوتا ہے ۔قرآن و سنت
ایک ضابطۂ حیات دیتے ہیں ۔ قرآن و سنت کی بنیادپر نظام اس وقت وجود میں آتا
ہے جب یہ نافذ ہوجاتاہے ۔ قوت نافذہ کے بغیر کوئی نظام وجود میں نہیں آتا ۔
جب کسی نظام میں اس نظام کے ضابطہ کے مطابق اس ضابطہ کے خالق کا نمائندہ
قوت نافذہ کے عہدہ پر ، اس ضابطہ پر مکمل طور پر عمل کرنے اور اس ضابطہ کے
پیروکاروں سے عمل کروانے کا حلف اٹھاتا ہے اس وقت وہ نظام قائم ہوتا ہے ۔
اگر ہمارا نظام حکومت قومی ہوگا تو اسمیں اتحاد اور وفاداری کا جذبہ اتنا
نہیں ہوگا جتنا اسلامی نظامِ حکومت میں ہوگا کیونکہ اسلامی نظام میں اتحاد
اور وفاداری کا صرف ایک ہی معیار اور ایک ہی عنصر ہے جو ہے لاالہ الا اﷲ
محمد رسول اﷲ ۔ جس کا مطلب یہ ہے ہمارا فرد یہ ایمان رکھے گا کہ اﷲ کے سوا
کسی کی عبادت نہیں کرنی صرف اﷲ کی عبادت کرنی ہے اور اﷲ کے بھیجے ہوئے رسول
محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنی ہے ہر مسلمان کے
دو ہی اصل مطاع ہونگے اﷲ اور محمدصلی اﷲ علیہ وسلم ان دوکے علاوہ صرف اس کی
اطاعت ہوگی جو ان دو کے دئیے ہوئے احکامات پرخود عمل کرتاہے اور کروانے کا
حلف اٹھائے ہوئے ہے اﷲ اور اس کے رسول کے احکامات کے علاوہ غیر مشروط
وفاداری کسی اور سے نہیں ہوگی۔ بنگلہ دیش اس لئے جدا ہوا کہ ہم قومی حکومت
ہونے کی وجہ اپنے آپ کو ایک قوم نہ بناسکے اور اسلامی حکومت جو بنانی چاہیے
تھی ۔ اس کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ بنگلہ دیش بنانے میں اسلام کا کوئی قصور
نہیں ہمارے نظام اور حکمرانوں کا قصور ہے جو ہمیں ایک قوم نہ بنا سکے اور
اسلام کی طرف دھیان ہی نہ دیا ۔ یعنی ہم نے ملکی عمارت کی بنیاد نسلوں ،
زبانوں ،مذاہب ، علاقوں ،تاریخوں ،رسوم و رواج، ثقافتوں ، تمدنوں اور
انفرادی افکار و خیالات اور خواہشات پر رکھی جو صرف ایک کلمہ طیبہ پر رکھی
جانی چاہیے تھی ۔ ہم قوم بننے کے شوق میں ملت کو بھول گئے کیونکہ مغربی
تہذییب کا دور قوموں کا تھا ہم اسکو چھوڑ نہ سکے اور اسلام کے اصل نظام سے
روگردانی کرگئے ۔
3.6 اسلام اور جمہوریت کے چند نظریات کا تقابل ذیل میں دیا گیا ہے ۔
تقابل بنیادی تصورات /نظریات /عقائد
عنوان
جمہور یت
سلام
حاکمیت اعلیٰ
عوام کے پاس
Oاﷲ تعالیٰ کے پاس (شریعت کے ذریعے نفاذ )
آزادی
ہوہیومن بینگ کو اپنا خیر اور شرمتعین کرنے کی آزادی ہے حکومت اس کی
خواہشات اور تمنا ؤں کو پورے کرنے کا اہتمام کرتی ہے اور قوانین کے ذریعے
کسی دوسرے کی آزادی سے نہ ٹکرانے کا بندوبست کرتی ہے ۔
!اﷲ کی عبادت کے علاوہ ہر اور الہ کی عبادت سے آزادی دیتی ہے ۔ خیرو شر کا
فیصلہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہوتاہے ۔ حکومت شریعت کا نفاذ کرتی ہے ۔
ومیت
مغربی تہذیب /جمہوریت میں اس کی بنیاد وطن نسل رنگ و زبان /مذہب وغیرہ پر
ہوتی ہے ۔
اس کی بنیاد اسلامی نظریہ حیات پر ہوتی ہے جو اخوّتِ مؤمنین اور بین
الاقوامیت کا مظہر ہے ۔
علم
اسکا مأخذ عقل و حواس ہیں
مأخذ وحی الٰہی ہے ۔
مقصد تعلیم
دنیا میں کامیابی اور زیادہ سے زیادہ دولت اور آسائش کا حصول
تعلیمِ کتاب و حکمت اورتزکیہ نفس
قوانین
انسانو ں کے بنائے ہوئے جس کی فکری بنیاد ہیومن ازم کیپٹل ازم ، لبرل
ازم،سیکولرازم اور امپریسزم وغیرہ انسانی فلسفوں پر مبنی ہے ۔
óبنیاد ما انزل اﷲ اور اسوۂ رسول پرہے اور قرآن و سنت کی بنیاد پر شوریٰ کے
ذریعے اجتہاد سے اصول و احکامات طے کئے جاتے ہیں۔
ترقی
نظریہ افادیت (Utilitarionism)کی بنیا د پر لذت کو مستقلاً انتہائی فروغ
دینا اور چونکہ لذت خواہشات نفس کی تسکین سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا ذریعہ
Consumptionہے سو معاشی و معاشرتی پالیسی کا واحد مقصد مجموعی صرف کو
لامحدود اور مستقل بڑھانا ہے جسے ماپنے کا پیمانہ GNP(Gross National
Product)ہے عملاً ترقی GNPمیں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں اور لذت کے حصول کے
علاوہ کچھ نہیں ۔
اسلام کی دعوت ہے کہ ـ’’اے لوگو! تمہیں ایک دوسرے سے زیادہ مالی وسائل (
مال و دولت ، اراضی و باغات ، جاہ و حشم ، جھوٹی عزت و شہرت اور جنسی
معروضات وغیرہ وغیرہ ) حاصل کرنے کی ہوس نے ( اﷲ اور اس کے قوانین و
احکامات ، آخرت اور اپنے انجامسے ) غافل کررکھا ہے ـ‘‘ ( سورۃ 102آیت 1) ’
’ جس شخص نے اپنے رب کے حضور ( حساب دینے کے لیے ) کھڑے ہونے سے خوف کھایا
اور اپنے نفس کو قبیح خواہشات سے باز رکھا تو یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے
‘‘ ( سورہ 79آیت 39-40)۔ ترقی فلاح آخرت میں ہے۔ دنیا خود بنتی ہے۔
ساوات
افراد کے حق خودارادیت کو مساوی بنانے کا مقبول عام تصور سیاسی عمل میں
مساوی شرکت کا حق ہے جو بطور طریقہ کار One man one voteکی مساوی آزادی
قائم کرنے کا نام ہے جو 4یا 5سال مین ایک دن ملتی ہے ۔ جو محض علامتی اور
رسمی ہے ۔
سب انسان ایک مرد اور ایک عورت کی اولاد ہیں ۔ انہیں قومیں اور قبیلے
تعارف کے لیے بنایا اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت و شرف والا وہ ہے جو سب سے
زیادہ متقی ہے۔(سورۃ 49آیت13) قا نوناً شریعت کی نظر میں سب برابر ہیں۔
عقل کا کردار
)بنیادی اور اہم ترین
قابل قبول اگر نتائج فکر قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو
˜بادت
کوئی جامع تصور نہیں ۔ ذاتی زندگی میں چاہے تو اﷲ کی عبادت کسی طریقہ پر
کرلے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اﷲ کے احکامات کی اطاعت نہیں
اﷲ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرنی صرف اﷲ ہی کی عبادت کرنی ہے اور
محمد رسول اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے پر کرنی ہے ۔
اصول جرم و سزا
•جرم قانون کی خلاف ورزی ہے اور مجرم کو پکڑنا حکومت کا اہم کام ہے جو دقت
طلب اور وسائل کا ضیاع کراتا ہے ۔ فرد کو معاشرے کے مقابل اہمیت ہے اس لیے
کم سے کم سزادی جاتی ہے اور سزائے موت کو ختم کردیا گیا ہے ۔
اسلام جرم کو اﷲ کی ناراضگی قرار دیتا ہے اور اسے روحانی بنیادوں پر روکتا
ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر وقت اور ہر جگہ اس کے ساتھ
ہے اور دیکھتا ہے ۔ فرد سے زیادہ معاشرے کو شر سے محفوظ کرتاہے اور مجرم کو
کڑی سزادے کر عبرت کا سامان پیدا کرتاہے ۔
واہی
گواہوں کی تصدیق و سچائی پر زور نہیں مرد اور عورت کی گواہی ایک جیسی ہے
شدید جرائم میں کڑا معیار نہیں
گواہی شرعی ذمہ داری ہے ۔ جھوٹی گواہی کی مذمت ہے معاملات میں لکھ لینے کا
حکم ہے اور گواہ مقرر کرنے کا بھی حکم ہے ۔ عورتوں کو گواہی سے بچاتا ہے یا
بامر مجبوری دو عورتوں کو گواہی پر مقرر کرتاہے تاکہ عورت اکیلی تھانہ
کچہری نہ جائے شدید جرائم میں کڑا معیار ہے ۔
%بنیادی انسانی حقوق
مغربی تہذیب نے خود بنائے ہیں ان میں کئی اسلام میں دیے گئے حقوق کا رد بھی
ہیں ۔ جمہوری قانون ان کے گرد گھومتا ہے۔
cانسانی حقوق اﷲ اور اس کے رسول نے مقرر کردیے ہیں ۔
ô اوپر دئیے ہوئے تقابل سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اور اسلام کے مأخذ اور
ان کی سوچ ایک دوسرے سے قطعاً مختلف اور متضاد ہیں ۔ یہ اختلاف دیکھتے ہوئے
کوئی بھی مسلمان جمہوری نہیں بلکہ اسلامی نظام پسند کرے گا کیونکہ جمہوریت
سٹیٹ اور ’’ پاکستان کے عوام ‘‘ کو اﷲ تبارک وتعالیٰ کا شریک بنا دیتی ہے
اور اﷲ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشتا مگر باقی سب گناہوں کو معاف کر سکتا ہے
۔(سورہ نساء آیۃ 116,48)
سوچ سمجھ رکھنے والا مسلمان اسی شرک اور اﷲ کی بغاوت کی وجہ سے جمہوریت کو
طاغوتی نظام اور اس کو چلانے والے اور اس کی مدد کرنے والے کو طاغوت اور
عبد الطاغوت تصور کرتاہے ۔ مسلمانوں کی بقا صرف اور صرف نظام اسلام اپنانے
میں ہے ۔
آجکل کے حالات میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی بنیادی غلطی اور جہالت کو
مانتے ہوئے فوری طور پر جمہوری نظام کی بجائے اسلامی نظام پر عمل کریں تاکہ
ہمیں اس دنیا اور آخرت میں بھی کامیابی حاصل ہو ۔
اس کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ (1) عدالتیں قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرنے
لگیں جس کے لئے دستور میں موجود چند تضادات کی صحیح طور پر تشریح کریں
مثلاً آرٹیکل نمبر2پر عمل کے لئے Religionکا ترجمہ دین سے کریں نہ کہ مذہب
سے (2) انتظامیہ اور انتظامی ادارے تمام مسائل اور شکایات کا حل اسلام میں
تلاش کریں اور اسی کے مطابق فیصلے کریں ۔ (3)سیکیورٹی ادارے خود یا نشریاتی
اداروں کی مدد سے قوم کو جمہوریت اور اسلام کی بنیاد سے روشناس کرائیں اور
حق اور باطل میں فرق واضح کریں اور سیکیورٹی کاکام حق یعنی صراط مستقیم پر
چلتے ہوئے کریں اور یہ وہ راستہ ہے جسے ہم مسلمان دن میں پانچ وقت بار بار
اﷲ تعالیٰ سے مانگتے ہیں (4)علماء کرام علماء حق بنیں اور اسلام کی صحیح
تشریح کریں علماء سوء بن کر صرف اپنی خواہشات اور شیطان کی پیروی نہ کریں ۔
اگر ہم اس طرح اسلام کا نفاذ کریں گے تو اسلام کی آڑ میں دہشت گردی کرنے
والوں کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور وہ خود پاکستان کے دفاع کے لئے
سیکنڈ لائن فورس کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنے پر تیار ہوں گے ۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم اﷲ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں
گے اور قرآن کریم کے مطابق (سورہ مائدہ آیات 56,55,54) ہم نیست و نابود ہوں
گے اور اﷲ تعالیٰ کسی دوسری قوم سے یہ کام لے لیں گے اور ان کو اسلام کی سر
بلندی کے لئے استعمال کرلیں گے ۔ |