اے آر قیصر
تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہندو بنیاد پرستوں نے ہندوستان کا نام بدل کر بھارت
رکھ دیا تاکہ بعد میں پاکستان ، افغانستان اور ایران کو بھی بھارت میں شامل
کرکے مہا بھارت اور پھر اکھنڈ بھارت کا جنون پورا کیا جاسکے۔ مگر اکھنڈ
بھارت کا سومنات پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی ضربِ عضب سے پاش پاش ہو گیا
جس سے نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے 45کروڑ مسلمانوں کے اتحاد کا خطرہ
حقیقت کے روپ میں محسوس ہونے لگا بلکہ بابا گرونانک کی دو کروڑ خالصہ جنتا
کا مطالبہ خالصتان بھی ایک سنگین مسئلہ بن کر سامنے آ گیا۔ اس کے علاوہ
عیسائیوں اور دوسری قوموں کی تئیس فعال تنظیمیں بھی براہمنی سامراج کی
غلامی کا طوق اتار پھینکنے کیلئے بیتاب نظر آنے لگیں۔
ہندو انتہاء پسندوں نے بابری مسجد کا نام رام مندر رکھ دیا۔ یہ مسجد 1527ء
میں فاتح ہندوستان مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے حکم پر ان کے گورنر میر
بخشی نے بنوائی تھی۔ جو 1992ء میں انتہاء پسند ہندوؤں نے شہید کردی۔ بابری
مسجد اُجدھیا میں ہے اور رام مندر اترپردیش میں کوٹ اُجدھیا میں واقع ہے۔
اور کوٹ اُجدھیا وہ مقام ہے جہاں کرشن جی مہاراج نے جنم لیا تھا۔
مسلمانوں نے اپنے ایک ہزار سالہ دور معدلت میں وہ نام بھی نہیں بدلے جو
سلاطین اسلامیہ سے پہلے مہا بھارت کے بت گروں نے بدنیتی سے تبدیل کر لیے
تھے۔ مغل دور میں کئی قلعے، کئی تاریخی عمارات، بزرگان دین کی خانقاہیں،
جنت نظیر باغات جیسے چشمہ شاہی نعیم باغ، نشاط باغ، شالیمار باغ، ہاروان
باغ، حضوری باغ، بادامی باغ، لال منڈی باغ، جھیل ڈل پر تیرتا ہوا چار چناری
باغ اور بریگیڈ باغ بنائے۔ مگر جموں کے قلعہ اکبر کے علاوہ کسی تعمیر کا
نام اپنے نام سے منسوب نہیں کیا جس سے فائدہ اٹھا کر ڈوگرہ مہاراجہ گلاب
سنگھ کے دور میں قلعہ سلطان باہو کا نام قلعہ باوھایا قلعہ بھو Bahuرکھ دیا
اور روزانہ قلعہ پر دوپہر ٹھیک 12بجے توپ داغی جانے لگی۔ یہ دونوں عالیشان
قلعے جموں شہر میں دریائے توی کے آر پار مسلمانوں کی عظمت و سظوت اور مہارت
کا مظہر ہیں اور جموں سے ٹھیک ایک سو میل کی دوری پر وادی کشمیر کے راستے
میں دریائے چناب کے کنارے سنگھم کے مقام پر قلعہ گجپت بلند چٹانوں پر دفاعی
تعمیر کی صلاحیت کا حیرت انگیز کارنامہ ہے اور جموں سے ٹھیک دو سو میل کی
دوری پر وادی کشمیر میں کوہ سلیمان کا نام بدل کر متعصب ہندوؤں نے ہری پربت
اور قلعہ کا نام قلعہ ہری پربت رکھدیا۔ اسی طرح تخت سلیمان کا نام شنکر
اچاریہ رکھ دیا۔ تخت سلیمان حضرت سلیمان پیغمبر کی تاریخی حقیقت ہے۔ جو
چپیس سو برس کی قدیم بلند ترین عمارت میں سفید سنگ مر مر کا بنا ہوا ہے اور
پہاڑ کی چوٹی کی نوک پر بنی ہوئی بڑے بڑے بلاک نما پتھروں کی تعمیر ہر گز
انسانی ہاتھوں کی صناعی نہیں ہوسکتی۔ اس عمارت پر چڑھنے کے لیے ایک سو ایک
خستہ حال سیڑھیاں ہیں۔ مہاراجہ گلاب سنکھ نے مرمت کروا کر تخت سلیمان پر
شنکر اچاریہ کی ننگی مورتی رکھ دی اور اوپر جے ٹشوارا شنکر اچاریہ (Jye
Teshwara) لکھ دیا۔ تخت سلیمان کی ضروری مرمت قبل ازیں بھی کشمیر کے مسلمان
حکمران زین العابدین (بڈھ شاہ بادشاہ) کے گورنر شیخ غلام محی دین نے 1900ء
میں کروائی تھی۔ جیسا کہ تاریخ میں مرقوم ہے۔ اسی طرح کوہ تخت سلیمان کے
دامن میں شاہی محلات کا نام ’’طالع منزل‘‘ سے گھپ کار اور کلمہ چوک امیراں
کدل کا نام پنڈت جواہر لال نہروں کے نام پر لال چوک رکھ دیا گیا اور وادی
کشمیر کے سرسبز و شاداب، پھلوں اور پھولوں کی وادی اسلام آباد کا اصل نام
بدل کر اننت ناگ اور چشمہ جہلم کا نام چشمہ ویری ناگ رکھ دیا۔ چشمہ جہلم
دریائے جہلم کا منبع ہے۔ جو پاکستان کے وسیع و عریض تاس کو سیراب کرتے ہوئے
کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں اتر جاتا ہے۔ اسی طرح جموں کے پاک نگر کا نام
رام نگر، پہلگام کے سلسلہ ہائے کوہ کے برفانی مقام چنن واڑی کی غار کا نام
امر ناتھ رکھ دیا۔ اس غار کا دھانہ موسمِ بہار میں برف پگھلنے سے کھل جاتا
ہے اور کبھی کبھی اس غار میں کبوتر دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں انتظار میں موجود
ہندو یاتری کبوتر دیکھ کر کہتے ہیں کہ امرناتھ کی یاترا ہو گئی۔ اسی طرح
پری محل بھی تخت سلیمان اور چشمہ شاہی کے درمیانی فاصلہ پر زیدون پہاڑ کے
دامن میں واقع ہے۔ جو مغل سلطنت ہندوستان کے شہنشاہ شاہ جہان کے ولی عہد
شہزادہ دارا شکوہ نے پُرشکوہ سفید عمارت سولہویں صدی میں تعمیر کروائی تھی۔
یہ محل دراصل اسلامی تعلیم و تربیت اور تحقیق کا مرکز تھا۔ جسے اسلام
دشمنوں نے ویرانیوں کی نذر کردیا اور مشہور کردیا کہ پری محل دیوی کا مسکن
ہے جس پر لنگ دیوتا کے خوف و ہراس کا پہرہ ہے جو کسی کو قریب نہیں چھوڑتا۔
وادی کشمیر کے نام کی تبدیلی کے واقعہ کی تحقیق کے لئے گوگل (Google) میں
جائیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ 200ء میں جب اشوکا یہاں آیا تو اس نے وادی
کشمیر سے پانچ میل جنوب مشرق کے ایک خوبصورت صحت افزا مقام پنڈتستھان میں
قیام کیا اور پنڈتستھان کا نام بدل کر سری نگر رکھ دیا اور اپنے چیلوں کو
سمجھا دیا کہ میں نے اس جگہ کی مناسبت سے کسی مصلحت کی بنا پر نام تبدیل
کیا ہے اور سری کی معنی دولت اور نگر کے معنی آبادی بتائے۔ اس کے بعد وقت
کے ساتھ ساتھ پنڈتوں، ہندوؤں اور ڈوگرہ حکمرانوں نے پوری وادی کشمیر کا نام
سری نگر رکھ دیا جبکہ وادی کشمیر 99فیصد مسلمان اکثریت کی سرزمین ہے اور
پیغمبر ﷺ کے موئے مقدس کی امین ہے۔ جو جھیل ڈل کے کنارے پر بے حد خوبصورت
مسجد میں ہے۔ موئے مقدس ایک مبلغ دین سید عبداﷲ مدینہ منورہ سے ہمراہ لے کر
آئے تھے۔ پہلے بیجاپور میں رہے وہاں سے وادی کشمیر آ گئے مگر نامساعد حالات
کی وجہ سے سنبھال نہ سکے اور خواجہ نور الدین عشائی کو ہدیہ پر دے دیا۔ مغل
شہنشہاہ اورنگزیب عالمگیر کو معلوم ہوا تو عشائی کو جیل میں ڈال دیا۔ بعد
میں خیال آیا تو بادشاہ نے عشائی کو رہا کردیا۔ عشائی نے بال مبارک اپنی
ہمشیرہ عنایت بیگم کے پاس رکھ دیا۔ عنایت بیگم کی شادی باندے فیملی میں
ہوگئی۔ اس طرح موئے مقدس درگاہ حضرت بل میں اب تک اسی خاندان کی تحویل میں
ہے۔ یہاں جمعہ کے روز نمازی سڑکوں کے علاوہ دریائے جہلم اور جھیل ڈل کے
راستے کشتیوں اور شکاروں کے ذریعے جوق در جوق آکر نماز جمعہ کے بعد بال
مبارک کی زیارت کرتے ہیں جو سات انچ شیشے اور چاندی کی ٹیوب میں بند پانی
کی طرح کے محلول میں ہے اور درود شریف کے ورد سے متحرک نظر آتا ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1846ء میں تاجِ برطانیہ کے گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ
ہارڈنگ (Lord Hardinge) کی قیادت و وساطت سے معاہدہ امرتسر کے ذریعے کشمیر
جنت نظیر کو 75لاکھ روپے میں جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت
کردیا۔ اس کی کرنسی کا ایک روپیہ 16آنے کی بجائے صرف 10آنے کا ہوتا تھا۔ جو
نانک شاہی کہلاتا تھا۔ جب گلاب سنگھ نے کشمیر خریدنا چاہا تو اس کے خزانے
میں اتنی خطیر رقم موجود نہیں تھی۔ جو اس وقت کے مسلمان درباری شیخ سوداگر
نے رقم کی فراہمی کا بیڑا مشروط طور پر اٹھا لیا۔ اور راجہ بڈھا خان چوہان
کے مالی تعاون سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ادائیگی کردی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا
ہے کہ ان دونوں مسلمان امراء نے کشمیر خود کیوں نہیں خرید لیا۔ وہ اس لیے
کے رائج الوقت قانون کے مطابق والیان ریاست ہی ریاست کی خرید و فروخت کے
مجاز ہوتے تھے۔ بحرحال شیخ سوداگر نے چند اہم شرائط پر رقم فراہم کہ
مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کے علاوہ محض مسلمان ہونے پر موت کی سزا نہیں دی
جایا کریگی۔ مسلمانوں کو مساجد آباد کرنے اور ان میں اذانیں دینے کا اختیار
ہوگا اور دربار میں مسلمان قوم کو نمائندگی کا حق ہوگا وغیرہ۔ یہ معاہدہ
مہاراجہ گلاس سنگھ نے رقم حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ تحریری طور پر
کیے۔ فارسی زبان میں تحریر معاہدوں کی دستاویزات شیخ سوداگر کاپوتا شیخ
کاکا جموں سے 1947ء میں ہجرت کے وقت کسی طرح ساتھ لے آیا اور 1951ء میں
گوجرانوالہ سے شیخ سوداگر کے پوتے شیخ کاکا اور راجہ بڈھا خان چوہان کے بڑے
بیٹے راجہ غلام محمد خان نے امور کشمیر کے ایگزیکٹو مشتاق احمد گورمانی کو
خط لکھا کہ اس طرح اصل معاہدات کی دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں۔ خط موصول
ہوتے ہی گورمانی صاحب لاہور سے گوجرانوالا خود تشریف لائے اور شیخ کاکا کو
لاہور لے گئے۔ وہاں سارے معاہدات کی نقولات تیار کروا کر خود اپنے دستخطوں
اور ایگزیکٹو امور کشمیر کی مہر سے تصدیق کرکے دیں اور اصل دستاویزات اس
وقت کے وزیر خارجہ پاکستان سر ظفر اﷲ خان کے حوالہ کردیں۔ انہوں نے یہ اصل
معاہدات اقوام متحدہ میں کشمیر کیس کی مثل میں شامل کردیے۔ شیخ سوداگر کا
پوتا شیخ کاکا اور راجہ بڈھا خان چوہان کا بیٹا راجہ غلام محمد خان دونوں
لاولد تھے اور نہاتی کسمپرسی میں ہجرت کی صعوبتوں کا تختہ مشق بنے ہوئے
تھے۔ ایگزیکٹو امور کشمیر نے جو ایک سال بعد وزیر داخلہ اور پھر گورنر
مغربی پاکستان بنا دیئے گئے تھے۔ انہوں نے شیخ صاحب اور راجہ صاحب کو
500روپے ماہوار وظیفہ کے ساتھ گزارہ کے لیے کچھ زمین اور سر چھپانے کے لئے
معمولی گھر عارضی طور پر الاٹ کروا دیے۔
دریائے جہلم وادی کشمیر کے وسط میں بہتا ہے اور بیشتر آبادی کشتیوں، کچھوؤں
اور ہاؤس بوٹوں میں ہے۔ امیراں کدل کے قریب دریاء کے کنارے پر وادی کشمیر
کی سب سے پہلی مسجد خانقاہ معلیٰ امیر کبیر سالار عجم شاہ ہمدان میر سید
علی ہمدان کی یادگار ہے۔ جہاں شیخ نور الدین ولی ’’کاچرار شریف ‘‘ ہے۔ جہاں
پیران پیر غوت اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی کا مسکن ہے جہاں خواجہ سید
بہاؤالدین نقشبند کا ’’خانہ یار‘‘ ہے۔ جو سلطان سکندر بت شکن کی جائے
پیدائش ہے۔ جہاں 1931ء کے شہیدوں کے مزارات ہیں۔ جہاں سید اسرار الدین
بغدادی سمی کا ’’کشتواڑ‘‘ ہے۔ جہاں عامر شاہ شریف کا ’’بڈھ گام‘‘ ہے۔ جہاں
پیر میٹھا صاحب اور بابا جیون شاہ کے آستانے ہیں اور جہاں داتا گنج بخش
ہجویری، شیخ بابا فرید گنج شکر، بہاؤالدین ذکریا، سید جلال الدین بخاری اور
لال شہباز قلندر کی بیٹھک ’’پنج پیر‘‘ ہو ایسی مقدس دھرتی مدینۃ الاولیا پر
کامر کا آٹھ لاکھ فوج کے ساتھ گھس بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اب تک آزاد
کشمیر، شمالی کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں کوء یغیر باشندہ ریاست جو State
Subject نہ ہو پوری ریاست جموں و کشمیر بمع پاکستان کے زیر کنٹرول گلگت
بلتستان اور سکردو وغیرہ کے شمالی علاقہ جات میں کوئی جائیداد خرید سکتا ہے
نہ تنہا کاروبار کرسکتا ہے اور نہ ہی باشندہ ریاست ہونے کے حقوق کا حامل
ہوسکتا ہے۔ وادی کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہوتے ہوئے ہمیشہ مخصوص
حیثیت کی حامل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں پاکستان کے آئین میں اور
انڈیا کے قانون میں آج بھی قانونی حیثیت مخصوص ہے۔ 1947ء تک ریاست جموں و
کشمیر کی اپنی کرنسی تھی۔ مغل دور میں اور انگریز دور میں بھی ریاست کی
حیثیت مخصو رہی ہے۔ کاروبار حکومت میں کسی کا عمل دخل نہیں تھا۔ اگرچہ
ریاست کے دارالخلافہ شہر جموں میں اکثریت اب ہندوؤں کی، مندروں کی اور
بندروں کی ہو گئی ہے لیکن مجموعی طور پر 84ہزار مربع میل کے رقبہ پر محیط
ریاست جموں و کشمیر 85فیصد مسلمان آبادی پر مشتمل ہے۔ اس لیے تقسیم ہند کے
فارمولے کے مطابق، ریڈ کلف ایوارڈ کی روح سے، دو قومی نظریہ کی بنیاد پر،
جغرافیائی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں اور دینی رشتہ کے لم یزل تناظر
میں وادی کشمیر بشمول کل ریاست جموں و کشمیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا
جذولاینفیک ہے اور وادی کشمیر صرف اور صرف مسلمان کشمیری قوم کی دھرتی ہے۔
انڈیا اپنے ناجائز ، غیر آئینی اور جابرانہ قبضہ کو طول دے کر مستحکم کرنے
کے لیے اسلامی ورثہ کے نام بدل کر شناخت مخدوش کیے جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو
وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ارتکاب سے باز نہیں آ رہا اور پاکستان کو
روایتی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اسلام دشمنی میں اس حقیقت کو بھی
فراموش کردیا ہے ہے کہ پاک و ہند کی جنگ اب محض دو ملکوں کی روایتی جنگ
نہیں بلکہ کفر و اسلام کی فیصلہ کن جنگ ہوگی۔ جس سے برصغیر کے 45کروڑ
مسلمانوں کی شہادت سے بھی عالم اسلام کا وجود حشر تک قائم و دائم رہے گا
بلکہ ہندو دھرم دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا اور ہندو بنیاد پرستوں
کی اسلام دشمنی خود ہندو دھرم، ہندو قوم اور ہندوستان کا دشمن نمبر ایک
ثابت ہوگی۔
ہندوستان نے کلکتہ کا نام تبدیل کرکے کولکتہ اور بمبئی سے ممبئی رکھ لیا ہے
اور مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش بھی ہندو کے اکھنڈ بھارت کی اسلام
دشمنی کا نتیجہ ہے۔ لال قلعہ، ہرن مینار اور تاج محل آگرہ کا نام بدلنے کی
صورت نہیں بن رہی مگر پھر بھی متعصب ہندوؤں نے تاج محل کو شمشان گھاٹ کا
نام دے کر وہاں مردے چتا کرنے شروع کر دیئے ہیں جس سے تاج محل کی آب و تاب
دھویں کی پلوشن کی وجہ سے ماند پڑتی جا رہی ہے اسی طرح پاکستان میں شامل
مسلمان ریاستیں حیدر آباد دکن، جونا گڑھ، مانا ودر اور ٹیپو سلطان کے محسور
پر ’’پولیس ایکشن‘‘ کے نام پر فوجی جارحیت سے قابض ہو کر اپنی نئی ریاستوں
تلان گھانا، گجرات کاٹھیہ واڑ اور کرناٹک کی نئی بھارتی ریاستوں میں شامل
کرکے شناخت بدل دی گئی۔ مگر ان مسلمان ریاستوں سمیت ہندوستان کی تمام انتیس
کی اُنتیس ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چنگاریاں بن کر سُلگ رہی ہیں جو
کبھی بھی شعلوں کا روپ دھار سکتی ہیں کیونکہ نہ یہ جمہوری ملک ہے نہ سیکولر
بلکہ اقلیتوں کا مقتل ہندوؤ بنیاد پرست پکھنڈ بھارت کا پرتُو ہے۔ بہر کیف
اشوکا نے پنڈتستھان کا نام سری نگر رکھا تھا وادی کشمیر کا نہیں۔ اس لیے
وادی کشمیر کے مسلمانوں کو حق حاصل ہے کہ وہ وادی کشمیر کا نام اسلام نگر
رکھنے کا فیصلہ کریں اور کشمیر جہاد کونسل کے اعلان کہ ’’وادی کشمیر کا نام
سری نگر نہیں اسلام نگر کشمیر ‘‘ ہے کو لبیک کہتے ہوئے وادی کشمیر کو اسلام
نگر کے نام سے منسوب کرنے کا خیرمقدم کریں۔ |