غریب یا امیر ، عوام دوست یا دشمن بجٹ

بجٹ ابھی پیش ہوا ہے۔ حکومت کی تجاویز ہیں۔ بجٹ پر پارلیمنٹ ، میڈیا پر بحث ہو گی۔ تھینک ٹینکس اپنی آراء پیش کریں گے۔ معاشی ماہرین کے اہم نکات سامنے آئیں گے۔ اس کے بعد بجٹ منظور ہو گا۔ یہ بجٹ یک طرفہ یاامیر یا غریب کا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اکانومکس میں ڈاکٹر ایڈم سمتھ کو پڑھا۔ دیگر ماہرین کے بارے میں ہمارے پروفیسرز صاحبان کی اپنی رائے تھی۔ پروفیسر غلام حسن صاحب کی تھیوری اب سمجھ آ رہی ہے۔ پروفیسر بالی صاحب کا اپنا انداز تھا۔ یونیورسٹی میں پروفیسر عبدالواحد صاحب سے گفتگو کا موقع ملتا وہ وی سی مقرر ہوئے لیکن معاشیات کی تدریس جاری رکھی۔ عملی زندگی میں ان کے لیکچرز، مقالات، لائیبریریوں میں کتب کا کھنگالنا یا د آتا ہے۔

بجٹ کیا ہے۔ آپ اس کا موازنہ اپنے گھر سے کر سکتے ہیں۔ ہم بھی اپنا بجٹ بنا سکتے ہیں۔ لیکن بجٹ کا سارا دارومدار آمدن اور ذرائع آمدن پر ہوتا ہے۔مزدور کی کم از کم اجرت 14000روپے ماہانہ کر دی گئی ہے۔ تو اس نے اسی کے مطابق دیکھنا ہے کہ وہ اسے کہاں اور کیسے خرچ کرے گا۔ تنخواہ دار طبقے کا بجٹ مخصوص دورانیہ کا ہوتا ہے۔ان کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے۔خاص طور پر چھوٹے ملازمین کی اتنی تنخواہ بھی نہیں ہوتی جتنی بڑے افسران پٹرول پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہ ملازمین کوئی ایک سالہ یا پانچ سال منصوبہ نہیں بنا سکتے۔ تا ہم اپنے حدود کو پار بھی نہیں کیا جا سکتا۔بجٹ میں وفاقی حکومت کے ملازمین کو یکم جولائی 2016سے بیسک پے پر 10فی صد ایڈہاک ریلیف الاؤنس ملے گا۔ قاصد، نائب قاصد، دفتری کا متفرق الاؤنس 450روپے کر دیا گیا ہے۔ خسارے کا بجٹ مفاد ات کے منافی ہوتا ہے۔ یہ معیشت کی کمر توڑ دیتا ہے۔

سب سے اہم پیداواری بجٹ ہے۔ اس میں نئے طریقے استعمال کرنے سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے ان کالموں میں ہماری تجاویز پر غور کیا۔ ایک ہفتہ قبل ’’ 12لاکھ کسان‘‘ کے زیر عنوان لکھے کالم میں کسانوں کی مشکلات اور زرعی پیداوار بڑھانے کی چند گزارشات کی گئیں تھیں۔ بجٹ میں ان تجاویز کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ زراعت ہمارا اہم ترین شعبہ ہے۔ 44فی صد سے زیادہ آبادی کو یہ شعبہ براہ راست روزگار مہیا کرتا ہے۔ اس کا قومی پیداوار میں بھی 21فی صد حسہ ہے۔ قومی غذائی تحفظ کا انحصار بھی زراعت پر ہے۔ اس لئے اس کی کارکردگی میں بہتری کی فوری ضرورت ہے۔ بجٹ میں 15ارب روپے کی رعایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یوریا کھاد کی قیمت یکم جولائی سے 1400فی بوری کر دی گئی ہے۔ 650روپے فی بوری کی کمی کی گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سبسڈی 36ارب روپے دیں گی۔ ڈی اے پی 2500روپے فی بوری کی جائے گی۔ اس پر10ارب روپے سبسڈی ملے گی۔ رواں مال سال کے دوران700ارب روپے کے زرعی قرضے ملیں گے۔ زرعی ترقیاتی بینک، نیشنل بینک، پنجاب بینک، پنجاب کواپریٹو بینک کے مارک اپ کو 2 فی صد تک کم کیا جا رہا ہے۔ ٹیوب ویلز کو 5.35روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی دی جائے گی۔ 27ارب روپے حکومت سبسڈی دے گی۔ ڈیری، لائیو سٹاک، پولٹری، اور زراعت میں استعمال ہونے والے مشینری ، ماہی پروری کے لئے مشینری پر کسٹم ڈیوٹی 2فیصد کر دی گئی ہے۔ مچھلی کی خوراک، زندہ مچھلیوں کی درآمد پر ڈیوٹی بالکل ختم ہو گئی ہے۔ کیڑے مار ادویات پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ ایک اہم فیصلہ ہے۔ بار دانہ، بیجوں، ٹریکٹرز، فوڈ پراسسنگ، ملکی زرعی پیداوار کی مارکیٹ اور منڈیوں تک رسائی، تحصیل سطح پر غلہ اور فروٹمنڈیوں کا قیام، مارکیٹنگ ، کولڈ سٹورز کی تعمیر کے لئے بھی بجٹ میں مناسب رقم مختص کرنے کی ضرورت ہے۔

ملکی پیداور میں اضافے کے لئے بجٹ میں گنجائش رکھنا ترجیحات میں شامل نہ کیا گیاتو زرعی بجٹ خسارہ کا بجٹ ہوگا۔ ہماری درآمدات اور برآمدات میں بہت فرق ہے۔ افسوس ہے برآمدات میں 11فی صد کمی ہوئی ہے۔ برآمدات میں اضافے کی بہت ضرورت ہے۔ ملکی پیداوار بڑھے گی تو برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ نیز کوالٹی کنٹرول بھی اہم ہے۔ درآمدات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیئے۔اس میں گزشتہ دو سال میں صرف ایک ارب ڈالر کمی ہوئی ہے۔ 32ارب ڈالر کی درآمدات معمولی بات نہیں۔ خام مال یہاں تیار ہو سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے ملک میں تیار کرنے کے لئے سائینسدانوں کو سہولیات دی جانی چاہیئے۔ اگر ٹیکنالوجی یہاں تیار کرنے میں مشکلات ہیں۔ تواس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کم کی جائے۔ عیش و عشرت کا سامان درآمد کرنے پر ڈیوٹی بڑھا دینا ہی ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ زر مبادلہ کمانے کو ہی زیادہ اہمیت دینا ملکی معیشت کے لئے ضروری ہے۔

اسحاق ڈار صاحب کا اس لئے بھی شکریہ کیا جانا چاہیئے کہ انہوں نے اس بار زراعت کو اہمیت دی ہے۔ اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ کسان کو ایسی ترغیبات دی جائیں۔ اس کی سہولیات کا خیال رکھا جائے۔ تا کہ وہ بے فکر ہو کر پیداوار کی جانب توجہ دے۔ اسے بڑے زمینداروں اور مافیا کے رحم و کرمپر چھوڑ دیا گیا تو وہ گنا، چاول، کپاس، گندم، سبزیاں، فروٹ اگانے کے بجائے چارہ اگائے گا یا اپنی زمین رہائشی کالونیوں کی تعمیر کے لئے فروخت کر دے گا۔ زرعی اراضی کو پلاٹ مافیا سے واپس لیا جائے۔ ہمیں کنکریٹ مکان س زیادہ اناج کی ضرورت ہے۔ اس لئے بجٹ میں اناج کی پیداوار بڑھانے کے مزید اقدامات کئے جائیں۔ بیجوں ،تمام ادویات کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کی جائے۔

نواز شریف حکومت سے قبل ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ آج معیشت فروغ پا رہی ہے۔ تا ہم ملک کی زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافے کے لئے مزید اقدامات تجویز کئے جانے کے لئے ماہرین اور ارکان پارلیمنٹ کو تیاری کے ساتھ اپنی قابل عمل تجاویز پیش کرنا چاہیئے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555510 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More