8جون سمندروں کا عالمی دن

8جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ سمندروں کی اہمیت اور افادیت کو قرآن مجید میں کم و بیش پانچ مرتبہ آیات قرآنی میں واضح کیا گیا ہے۔
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنَ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ‘ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ﴿۶:۶۳﴾ قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْہَا وَ مِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ﴿۶:۶۴﴾
ترجمہ: اے نبی ﷺ ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتاہے؟کون ہے جس سے تم(مصیبت کے وقت)گڑگڑاگڑگڑاکراور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟کس سے کہتے ہو کہ اگراس بلا سے اس نے ہم کو بچالیا توہم ضرور شکر گزار ہوں گے۔کہوکہ اﷲتعالیٰ تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتاہے پھر(بھی)تم دوسروں کو اس کا شریک ٹہراتے ہو۔(سورۃ انعام)
ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَآءَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَ ہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ﴿۱۰:۲۲﴾ فَلَمَّآ اَنْجٰہُمْ اِذَا ہُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُم مَّتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴿۱۰:۲۳﴾
ترجمہ: وہ اﷲتعالیٰ ہی ہے جو خشکی اور پانی (سمندروں)میں تم کو چلاتاہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوارہوکربادموافق پر شاداں و فرحاں سفرکررہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتاہے اورہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اورمسافرسمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھرگئے،اس وقت سب اپنے دین کو اﷲتعالیٰ کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگرتو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزاربندے بنیں گے ،مگرجب وہ ان کو بچا لیتاہے توپھروہی لوگ حق سے منحرف ہو کے زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ،لوگو تمہاری یہ بغاوت تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے ۔دنیاکی زندگی کے چندروزہ مزے ہیں پھرتمہیں ہماری ہی طرف پلٹ کرآنا ہے اور ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیاکرتے رہے ہو۔ (سورۃ یونس)

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ﴿۵۵:۱۹﴾ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ﴿۵۵:۲۰﴾ فَبِاَیِّ الٰاَءِٓ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۵۵:۲۱﴾ یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانِ﴿۵۵:۲۲﴾ فَبِاَیِّ الٰاَءِٓ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۵۵:۲۳﴾ وَ لَہ‘ الْجَوَارُ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ﴿۵۵:۲۴﴾ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۵۵:۲۵﴾ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ﴿۵۵:۲۶﴾ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ﴿۵۵:۲۷﴾
ترجمہ:دوسمندروں کو اس نے چھوڑ دیاہے کہ باہم مل جائیں،پھربھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے، پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے۔ان سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ،پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے۔ اور یہ جہاز اسی کے ہیں جو سمندروں میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں،پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے۔ہرچیزجواس زمین پر ہے فناہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کرین ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ (سورۃ رحمن)
وَ ہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا﴿۲۵:۵۳﴾
ترجمہ:اوروہی ہے جس نے دوسمندروں کو ملا رکھاہے ،ایک لذیزوشیریں اور دوسرا تلخ و شور، اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے، ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
وَ اِذَا البِحَارُ سُجِّرَتْ﴿۸۱:۶﴾
ترجمہ:اور(قیامت کے قریب )جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے۔(سورۃ تکویر)

سمندری حیات کی پہلی گنتی کے لیے کام شروع کردیا گیا ہے۔ سمندری حیات کی پہلی گنتی سے یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ انسانی کارروائیاں کس طرح زیر آب زندگی کے مختلف نظاموں کو متاثر کررہی ہیں۔ سمندری حیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والے بین الاقوامی منصوبے میں 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے 2700 ماہرین نے حصہ لیا۔ ماہرین نے تقریباً 9000 روز سمندر میں گزارے۔ اس منصوبے کو اپنی نوعیت کا جامع ترین منصوبہ قرار دیا گیا۔ منصوبے کے ایک اعلیٰ اہیکار این پائز نے لندن میں منصوبے کے 12 سال مکمل ہونے پر کانفرنس میں کہا تھا کہ اکیسویں صدی کی اس بین الاقوامی تعاون کی مثال بننے والی مہم سے سمندروں کی تہوں میں زندگی کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ جمع ہو رہا ہے۔ انہوں نے ’’پانی سے باہر تمام زندگی کا دارومدار پانی سے نیچے زندگی پر ہے‘‘ سمندری حیات 50 فیصد آکسیجن اور خوراک کی بڑی مقدار فراہم کرتی ہے اور موسموں کا نظام چلاتی ہے۔ سمندروں کے نیچے زندگی کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم کیا جانا ہے جن میں جانوروں کی تقریباً ساڑھے سات لاکھ قسمیں اور ان کا کردار شامل ہے۔ 413 ملین پاؤنڈ کی لاگت کا یہ منصوبہ 2000ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے میں 3 سکولوں کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلا سوال کہ سمندر کی تہہ میں کون رہتا تھا؟ سمندر میں کون رہتا ہے اور سمندر میں کون رہے گا؟۔ 10 سال تک کام کرنے کے بعد بھی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زیر آب رہنے والی تمام مخلوق کے بارے میں جاننا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم ماہرین نے 6ہزار اقسام کا پتہ چلایا ہے جو غالباً نئی ہیں۔ اس طرح اب سمندری مخلوق کی تعداد 2لاکھ 30 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار کردی گئی ہے۔ منصوبے میں شامل سائنسدان پروفیسر بورس ورم کے مطابق ’’تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات ہمیں اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہمیں دریافت کی راہ پر سفر جاری رکھنے اور مستقبل میں دانشمندانہ فیصلے کرنے کی تلقین کرتے ہیں‘‘۔

آسٹریلیا نے ماحولیات سے متعلق ریوپلس ٹوئنٹی اجلاس سے پہلے آبی حیات کو تحفظ دینے کے لئے ’’سمندری پارک‘‘ کے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سمندری پارک کورل سمندر سمیت 31 لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط ہوگا۔ آسٹریلیوی سمندر کے ایک تہائی حصے پر محیط ان پارکس میں ماہی گیری کے علاوہ تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے پر پابندیاں ہوں گی۔ آسٹریلیا کے وزیر ماحولیات ٹونی بورکے نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ وقت ہے کہ دنیا اپنے سمندروں کو تحفظ دے اور اس سمت میں آسٹریلیا نے پہل کی ہے‘‘۔ آسٹریلیا نے یہ اعلان برازیل کے شہر ریومیں ’’ریو پلس ٹوئنٹی‘‘ اجلاس سے پہلے کیا ہے۔ آسٹریلیا کی حکومت نے کورل سمندر کے 10 لاکھ مربع کلو میٹر علاقے میں سمندری حیات کے تحفظ کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ کورل سمندر شارکس اور ٹونا مچھلی سمیت متعدد حیات کا گھر سمجھا جاتا ہے۔ جن سمندری علاقوں کو تحفظ دیا جائے گا ان میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیئے جانے والا مقام گریٹ ریف بھی شامل ہے۔ اس منصوبے کے تحت آسٹریلیا کی ساحلی پٹی پر محفوظ سمندری علاقوں کی تعداد 27 سے بڑھ کر 60 ہو جائے گی۔ ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے کارکن اور تنظیمیں اس منصوبے پر اطمینان کا اظہار نہ کریں اور کورل سی میں مچھلیاں پکڑنے پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کریں۔ اطلاعات کے مطابق ماہی گیری کی صنعت کو ہزاروں ملین ڈالررتلافی کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق مشرقی آسٹریلیا کی ساحلی پٹی پر محفوظ قرار دیئے جانے والی سمندری پٹی میں تیل اور گیس کی تلاش جاری رکھنے کی اجازت ہوگی۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے برطانیہ نے دنیا کا سب سے بڑا سمندری پارک قائم کیا ہے۔ بحرہند میں شاگوز جزیروں کے اطراف میں اس پارک کا رقبہ 5 لاکھ 45 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔

سمندری مونگے خلاء سے انسانی آنکھ سے دنیا پر نظر آنے والی واحد چیز ہیں۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کے قریب عظیم زیر آب سمندری مونگے یا کورل ریف کو سمندری درجہ حرارت میں اضافے کے باعث اگلے 50 برس میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا۔ آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ یہ سمندری مونگے اگلے 50 برس میں درجہ حرارت میں ہونے والے متوقع 2 ڈگری کے اضافے کو برداشت کرسکے گی۔ اس کے علاوہ ماہی گیری میں اضافے اور پانی میں گندگی کی وجہ سے بھی کورل ریف بہت متاثر ہو رہی ہے اور 50 برس میں اس کا صرف 5 فیصد حصہ باقی بچ پائے گا۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہی وہ ساری حسین اور نایاب آبی حیات بھی تباہ ہو جائے گی جس کے لئے یہ مونگے یا کورل ریف مشہور ہیں۔ کوئینز لینڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کا اہتمام ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر نے کیا تھا اور اس کے لئے کچھ رقم آسٹریلوی حکومت نے بھی ادا کی ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر حالات بہت بُرے رہے تو اس صدی کے آخر تک مونگے مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے اور پھر دوبارہ ان کی نشوونما میں 200 سے 500 سال تک لگ سکتے ہیں۔ یہ مونگے درجہ حرارت میں معمولی سے اضافے سے بھی بہت زیادہ متاثر ہو جاتے ہیں اور اس علاقے میں سمندر کا درجہ حرارت اگلے 100برس میں 6 ڈگری تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اس دفعہ سمندروں کے عالمی دن کا تھیم ’’صحت مند سمندر صحت مند کرہ ارض‘‘ ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا 82فیصد پانی صاف کیے بغیر سمندر میں گرا دیا جاتا ہے۔ سمندروں میں آلودگی کے باعث آبی حیات تیزی سے مر رہی ہیں، متعدد اقسام ناپید ہو گئی ہیں۔ سمندوں میں بہایا جانے والا پلاسٹک جانور خود اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں جس سے ان کی اموات ہو جاتی ہیں۔ ہر سال کئی سو بحری پرندے، مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کھانے سے مر جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 43فیصد بحری جانوروں، 86فیصد سمندری کچھووں اور 44فیصد سمندری پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا جاتاہے یا ان کے گرد لپٹاہوتا ہے۔ عالمی سطح پر سمندروں میں پلاسٹک کی ردی کے پھیلاؤ اور آبی حیات اور انسانوں پر بحری آلودگی کے منفی اثرات کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

انوائرمینٹل واچ ٹرسٹ کے مطابق چونکہ پلاسٹک ایک پائیدار مادہ ہے، یہ بحری ماحول کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔پلاسٹک نہ تو پانی میں گھلتا ہے، نہ بحری جاندار اس سے غذا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ مادہ کئی ہزار برسوں تک سمندروں میں اسی طرح موجود رہ سکتا ہے۔

کمینزاور ان کے شوہر ایرکسین ،کیلی فورنیا کے فائیو جائرز نامی ایک غیر منافع بخش تحقیقی ادارے کے بانی ہیں جو سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔کمینز کہتی ہیں کہ گزشتہ 100 سال کے عرصے میں پلاسٹک کا استعمال بہت عام ہو گیا ہے، جسے بہت جلد ضائع کر دیا جاتا ہے۔اور پلاسٹک کی نسبت ان اشیا اور قدرتی مادوں کا استعمال بہت کم ہو گیا ہے، جنہیں ایک طویل عرصے تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کے بعد پلاسٹک کے تھیلوں یا بوتلوں کو بے کار سمجھ کر یا تو ردی میں ڈال دیا جاتا ہے یا ندیوں اور دریاں میں بہا دیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ پلاسٹک سمندروں تک پہنچ جاتا ہے، جہاں وہ پانی کے ساتھ بہتا رہتا ہے۔سمندروں کا سفر کرتے ہوئے انہوں نے باریک جال کی مدد سے پانی کی سطح سے جو کوڑا جمع کیا ہے، اس پر امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک لیبارٹری میں تحقیق کی جارہی ہے۔

ایرکسین کہتے ہیں کہ سمندروں میں جو پلاسٹک موجود ہے، وہ کسی ایک جگہ جمع نہیں، بلکہ یہ بہت وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے پلاسٹک کا شوربہ کہنا غلط نہیں ہوگا جو ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک پھیلا ہوا ہے۔بعض اوقات جانور اس پلاسٹک کو غذا سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں، یا اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں۔ ہر سال کئی سو بحری پرندے، مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کھانے سے مر جاتے ہیں۔کمینز کا کہنا ہے کہ تقر یبا 43 فی صد بحری جانوروں ، 86 فی صد سمندری کچھووں اور 44 فی صد سمندری پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا گیا ہے، یا ان کے گرد لپٹا ملا ہے۔ ہم نے بحرالکاہل کے شمالی علاقوں سے جو مچھلیاں جمع کیں ان میں تقریبا 35 فی صد کے پیٹ میں پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔پلاسٹک کے اثرات صرف سمندری حیات کو ہی نہیں بلکہ انسانوں کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ کمینز کہتی ہیں کہ اپنے خون پر کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعدمجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے خون میں بہت سے ایسے کیمیائی مرکبات موجود ہیں جو پلاسٹک کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے خون میں انسانوں کے بنائے بہت سے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی شامل تھے جس میں ڈی ڈی ٹی، پی ایف سی اور آگ کا پھیلاؤ روکنے والے کیمیائی مرکبات بھی شامل تھے۔
Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 15 Articles with 10642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.