آزادی فلسطین اور سوشل میڈیا

فلسطین ایک ایسا خطہ جس میں آج بھی حریت پسند اپنی آزادی کی جنگ ہر محاذ پردیدہ دلیری سے لڑرہے ہیں ۔فلسطین کا خطہ اسلام ،یہودیت اور عیسائیت کے پیروکاروں میں قابل احترام حیثیت رکھتا ہے لیکن اس خطہ کو جو امن وسکون اسلامی دور میں حاصل ہوا اس کا عشرعشیر بھی دیگر مذاہب کے پیروکاردینے سے قاصر ہیں ۔اسلام کے دورمیں یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے مذہب کے مطابق عبادات کرنے کی چھٹی تھی ۔ نہ صرف یہاں بلکہ جس جگہ بھی مسلمانوں کی آج بھی حکومت ہے وہاں دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادات کرنے میں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ مسلمان ان کی عبادت گاہوں سے بھی تعرض نہیں کرتے ۔فلسطین میں جب عالمی طاقتوں کی سازشوں سے یہودیوں نے قبضہ کیا اور وہاں کے رہائشی فلسطینیوں پرظلم وستم کابازارگرم کیا تو بدلے میں فلسطینی مسلمانوں نے جہاد کا رستہ اختیار کیا۔80ء کی دہائی سے فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف ایک ایسی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا ہوا ہے جس سے وقت کا فرعون حیران وپریشان ہے یہ کس طرح کی قوم سے پالا پڑا ہے ۔ جو اپنی اولاد کودفنانے کے ساتھ ہی اپنی باقی اولاد کو آزادی کی راہ میں وقف کردیتے ہیں ۔

سوشل میڈیا آج کے دور میں ایک ایسی طاقت بن کر ابھر رہاہے جس سے زندگی کے تمام طبقہ فکر متاثر ہوئے ہیں ۔ تحریک آزادی کشمیر وفلسطین کو بھی سوشل میڈیا نے کافی متاثر کیاہے ۔اگر کشمیر میں لون اور وانی جیسے نوجوان فیس بک اور دیگر ٹولز پر کشمیر کی آزادی کے متعلق کام کرتے نظر آتے ہیں تو فلسطینی اس معاملے میں مجھے کشمیریوں سے کہیں آگے نظر آتے ہیں ۔جناجہاد (Janna Jihad) کے نام سے ایک 9سالہ فلسطینی بچی جو کہ چوتھے درجے کی طالبہ ہے فلسطینیوں پرہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لاتی نظر آتی ہے ۔ جناجہاد نامی اس فلسطینی بچی نے باقاعدہ فیس بک پر ایک پیج بنایاہوا ہے جس پر فلسطین کے متعلق ویڈیوز بھی ہیں اور اس چھوٹی سی بچی کی میڈیا رپورٹس بھی ہیں ۔ کوئی ڈیڑھ سال قبل اس نے مختلف مواقع کی تصاویر اور ویڈیوز بنانا شروع کی ۔ جنا جہاد کا کہنا ہے کہ میں ایک صحافی ہوں اور میرا مقصد دنیا کو اسرائیلی مظالم دکھانا ہے ۔جنا جہاد ٹوئٹر،انسٹاگرام ،یوٹیوب اوردیگر سوشل میڈیا ٹول استعمال کرتی ہے ۔ ایک اور33سالہ فلسطینی فوٹوگرافر،شاعرہ اورایکٹیوٹس دارین طوطار ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کو جگانے کے لئے ایک نظم پڑھی تھی اور اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کردیا تھا لیکن دین طوطار کو10اکتوبر2015ء کوصبح 3بجے اسرائیل نے آزادی اظہاررائے کے جرم میں بغیرکسی گرفتاری وارنٹ کے گرفتار کرلیا ۔اکتوبر 2015ء میں ہونے والے فلسطینیوں کے مظاہروں میں طوطار نے شرکت نہیں کی تھی حالانکہ وہ ماضی میں اس طرح کے مظاہروں میں شرکت کرتیں اور وہاں فوٹو گرافی کرتی نظر آتیں ہیں ۔بطور فوٹو گرافراورمیڈیاایکٹیوٹس وہ اسرائیلی فوج اور پولیس کے اکثرزیرعتاب رہتی تھیں۔2008ء میں پولیس کے حملے کی وجہ سے وہ زخمی بھی ہوئی تھیں ۔لیکن اس بار ان کی گرفتاری کا سبب ان کا فیس بک پر لگایا جانے والاسٹیٹس بنا۔آج بھی وہ اسرائیلی جیل میں ہیں اور حقوق انسانی اور عالمی طاقتوں کے منہ پرطمانچہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اظہارآزادی رائے کا ہر کوئی حق رکھتاہے۔اسی طرح دیگر فلسطینی نوجوان ہیں جو سوشل میڈیا کو ایک ٹول کے طور پر استعما ل کررہے ہیں جس کی مثال بہا ء محمد خلیل علیان ہیں جنہوں نے بہا نیوزنیٹ ورک کے نام سے فیس بک پر پیج بنایاجس پر انتقاضہ کے متعلق خبریں اور نوجوان فلسطینیوں کے متعلق خبریں پوسٹ کی جاتی تھیں ۔علیان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک بار بھی اسرائیلی گرفت میں نہیں آئے ۔بہاء عام فلسطینیوں کی طرح روزمرہ کے معمولات سرانجام دیتے اور کام پر جاتے ہوئے انہیں 5 سے 6 اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گذرناپڑتا۔بہاء جیسے نوجوانوں نے اسرائیل کی رات کی نیندیں حرام کررکھی ہیں ۔ اسرائیلی میڈیا کو فلسطینی سائبر ایکٹیوٹس نے اس قدر زچ کیا ہواہے کہ وہ نابالغ فلسطینی بچو ں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کررہاہے ان پر بہیمانہ تشدد کررہاہے بعض فلسطینی تو تشدد کی وجہ سے شہید بھی ہوچکے ہیں ۔ دین طوطار پر اسرائیلی مخالف مواد کو پھیلانے اور نوجوانوں کو اسرائیل کے خلاف اکسانے جیسے الزامات لگاکر بندکیا ہوا ہے ۔9اکتوبر2015ء کو ایک فلسطینی خاتون اسراعبدجو کہ تین بچوں کی ماں تھیں اورانجینئرنگ کی طالبہ تھیں کو اسرائیلی فوج نے بس اسٹینڈ پر گولی مار کر شہید کردیا ۔

دنیا جہاں کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیل اس وقت فلسطینیوں کی غلیلوں ،پتھروں،چاقوحملوں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی ایکٹیویٹی سے خوفزدہ ہے ۔انسٹی ٹیوٹ سیکیورٹی اسٹڈیز میں کام کرنے والی ایک تجزیہ نگارVice Newsکوبتاتی ہیں کہ وہ آٹھ سے دس گھنٹے سوشل میڈیاکو مانیٹرکرتی ہیں اورفلسطینیوں کو واچ کرتی ہیں۔اس کے علاوہ اسرائیل نے ایک باقاعدہ ادارہ قائم کیا ہواہے جو اسرائیل کے مخالف اور فلسطینی حق میں ہونے والی ایکٹیویٹی کومانیٹر کرتے ہیں خصوصاََفلسطینیوں کو اس حوالے سے ٹریک کرکے انہیں گرفتار کرنے اور شہید تک کرنے میں اسرائیلی فوج کی مددکرتے ہیں اورسوشل میڈیا پر اسرائیلی موقف کی حمایت میں کمنٹ کرنا اورجہاد کے خلاف اشکالات پیداکرناجیسے اس ادارے کے کام ہیں ۔فلسطینیوں نے سوشل میڈیا کو سمجھتے ہوئے اسے اس کے موجد وں کے لئے سردرد بنادیاہے ۔ اسرائیلی میڈیااورسوشل میڈیا اپنی جگہ جو مرضی کہتارہے لیکن یہ سچ ہے کہ آج ہمیں پرنٹ میڈیااورالیکٹرونک میڈیا کی نسبت بہتر اور تیزترین خبریں سوشل میڈیا مہیا کررہاہے ۔فلسطین میں ہونے میں ہونے والے مظالم کو ہم تک پہنچانے میں ان فلسطینی ایکٹیوٹس کا سب سے زیادہ کردار ہے جو جان پرکھیل کر تصاویراور ویڈیوکلپس کی شکل میں اپ لوڈ کرتے ہیں۔اس وقت اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے کو نشانہ بنا رہاہے ۔ فلسطینیوں کی نسل کشی بہت پہلے سے جاری ہے لیکن اس میں تبدیلی حالیہ انتقاضہ میں آئی ہے جس میں اسرائیل نے جان بوجھ کر نوجوان فلسطینیوں ،لڑکیوں اور خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا بدمست ہاتھی ہے جس کے آگے غلیلوں ،پتھروں اور چاقوؤں سے فلسطینیوں نے بند باندھا ہواہے ۔ فلسطینی چاقوسے یہودی اس قدر خائف ہیں کہ اس سے بچنے کے لئے اسرائیل میں ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ ویسے تو ان کے بچوں کو سول ڈیفنس کے نام پر ہی اسلحہ چلانا سکھا دیاجاتا ہے جبکہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں اگر سبزی کاٹنے والی چھری بھی کوئی دیکھ لے تو مسلمان دہشت گرد بن جاتا ہے ۔ ہمیں اس وقت باہمی اتحاد واتفاق کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی حمایت کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔عالم اسلام کو سوچی سمجھی سازشوں کے تحت تقسیم درتقسیم کیاجارہاہے ۔ کہیں بادشاہت ،کہیں جمہوریت اور کہیں آمریت کے نام پرمسلمانوں کو لڑوایا جارہاہے توکہیں مسلک ،زبان اور دیگر مسائل کو ہوادے کر آگ لگائی جارہی ہے ۔ عالم کفر دور بیٹھا اپنے محلات میں ہم مسلمانوں کو کٹتا ہوادیکھ رہاہے ۔ ہمارے مسائل کا حل اتحاد مسلم میں مضمر ہے ہمیں اپنی کمیاں ،کوتاہیاں اورماضی کی غلطیاں ایک طرف رکھ کر اسلام کے نام پر اسلام کے لئے اور مسلمانوں کی حفاظت کے اکٹھا ہوناہوگا ۔ فلسطینی وکشمیر ی اوردیگر مظلوم مسلمان اپنا حق کماحقہ اداکررہے ہیں لیکن صد افسوس کے ساتھ ہم آزاد ممالک کے باسی لوگ ان کی اخلاقی حمایت کرنے سے بھی روگردانی کرچکے ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی مسلمان پر ظلم کیا جاتا ہے تو اس کی دادرسی کرنا ہمارا اخلاقی،مذہبی اور قومی فریضہ ہے ۔
 
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61787 views Master in Islamic Studies... View More