تعلیم ایک ایسا زیور ہے جو انسان کوااچھائی
اور برائی میں فرق کرنا سیکھاتا ہے۔ اسی لیے علم کو دین اسلام میں بہت
اہمیت دی گئی ہے جس کی جھلک ہمیں احادیث مبارکہ میں نظر آتی ہے۔ ان احادیث
کا مفہوم درج ذیل ہے :۔
٭ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
٭ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی جا نا پڑے۔
٭ علم حاصل کرو اور اسے دوسروں تک پہنچاو۔
علم حاصل کرنیکا ذکر بہت ساری احادیث میں ہے ۔ لیکن میں نے چند ایک احادیث
کا حوالہ دیا ہے۔ یہ تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے مذہب میں علم کو کتنی اہمیت
دی گئی ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی جس کی بنا پر علم حاصل کرنے کی ہمیں تاکید
فرمائی گئی ہے۔ آپ تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہی قومیں آج ترقی
یافتہ ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور اپنی قومو ں کو معیاری علم مہیا کر رہی
ہیں۔ آپ امریکہ ، چین ، جاپان اور روس کی مثال لے لیں۔ ان قوموں نے سائنسی
میدان میں ترقی کی ہے اور دنیا میں ممتاز مقا م حاصل کیا ہے یہ سب علم کی
بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں علم کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا
ہے۔ ہمارا تعلیمی شعبہ اپنی پستی کی انتہا پر ہے۔ جس کی بنیا دی وجہ حکومت
کی تعلیم کے شعبے میں عدم دلچسپی ہے۔ لہذا حکومتی شعبے کے تحت چلنے والے
سکولوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بچوں کو معیاری تعلیم دے سکیں۔ جس
کی وجہ سے سرکاری سکولوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی ہوتی جا رہی ہے۔
اور جو سرکاری سکول موجود ہیں وہ بچوں کو معیاری تعلیم دینے میں ناکام ہو
گئے ہیں ۔ جس کا فائدہ پرائیویٹ سکول مالکا ن کو پہنچا ہے اور پرائیویٹ
سکولوں کی تعداد میں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری سکولوں کی
ناکامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ سکول مالکان نے بچوں کی فیسوں میں
بہت اضافہ کر دیا ہے اور اس پر ظلم یہ کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں دو ماہ کی
فیسیں یکمشت لے لیتے ہیں اور سال کے آخر میں ایک اضافی فیس وصول کرتے ہیں
جسے سالانہ فنڈAnnual Fund)) کا نام دیا جاتا ہے۔
آجکل ایک عام پرائیویٹ سکول کی فیس 2500/ - روپے کے لگ بھگ ہے ۔ آ پ اندازہ
لگائیں ایک عام آدمی جس کی ماہانہ آمدنی 25000/ - روپے ہے اور اس کے تین
بچے ہوں تو وہ سکولوں کی فیس ( تفسیل درج ذیل ہے) کیسے ادا کر سکتا ہے:۔
٭ ہر مہینے تین بچوں کی فیس کی مد میں 7500/- روپے ادا کرنا پڑتے ہیں ۔
٭ دو ماہ کی گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس کی مد میں 15000/- روپے ادا کرنا پڑتے
ہیں۔
٭ ہر سال کے آخر میں ما ہانہ فیس اور سالانہ فنڈAnnual Fund)) کی مد میں
15000/- روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ فیس گوشوارے او ر ماہانہ آمدنی کے اعداد و شمار کیمطابق ایک
عام آدمی سالا نہ اپنی کل آمدنی کا35 % حصہ فیس کی مد میں خرچ کرے تو اس کے
بچے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس فیس میں بچوں کی داخلہ فیس اور ہر سال نئی
کتابوں کے پیسے شامل نہیں ہیں۔ کیا ان حالات میں کوئی عام آدمی اپنے بچوں
کو اچھی تعلیم دلوا سکتا ہے؟ اس لیے میں یہ کہنے میں کوئی عا ر محسوس نہیں
کرتا کہ پرائیویٹ سکول مالکان نے تعلیم کو ایک کاروبار کے طور پر لیا ہے
اور اسے بہت ہی منافع بحش بنا لیا ہے ۔ اتنا منافع آپ کو شاید ہی کسی اور
کاروبار میں مل سکے۔
یہ تو ہم نے پاکستان میں رائج تعلیمی نظام Educational System) ) کے ایک
بہت ہی چھوٹے سے حصے کا جائزہ لیا ہے جس کا تعلق سکولوں سے تھا جو کہ پلے
گروپ سے میٹرک تک تعلیم دیتے ہیں۔ اگر آ پ نے خوش قسمتی سے اپنے بچوں کا یہ
تعلیمی مرحلہ مکمل کر لیا ہے تو اصل امتحان تو اعلی تعلیم کا حصول ہے جو
بچوں نے کالج یا یونیورسٹی میں حاصل کر نا ہو تی ہے۔ یہا ں بھی آپ کو تعلیم
دو دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آئیگی گورنمنٹ سیکٹر اورپرائیویٹ سیکٹر۔ اگربچوں
کو گورنمنٹ سیکٹر میں داخل کرانا ہے تو وہاں پر میریٹ بہت زیا دہ ہونیکی
وجہ سے بہت ہی زیادہ تعداد میں بچے داخلے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔اس وجہ سے
پرائیویٹ یونیورسٹیز کو سپیس مل جاتی ہے ۔ پرائیویٹ یونیورسٹیز میں میریٹ
تو نہیں ہوتا لیکن ان کی فییس اتنی ہوتی ہیں کہ کسی عام شخص کا حوصلہ نہیں
پڑتا کہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ یونیورسٹیز میں تعلیم دلوا سکیں۔ ایک سٹڈی
پروگرام کی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اب پرائیویٹ یونیورسٹی میں وہی شخص علم
حاصل کر سکتا ہے جو لاکھوں میں فیس ادا کر سکے۔
بیرون ملک تعلیم کا حصول تو پہلے ہی ایک عام پاکستانی شہرکیلیے خواب تھا ہی
لیکن اب پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرنابھی خواب بنتا جا رہا ہے۔ ۔ اگر
پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل کرنا ہے تو تعلیم کے میدان میں
حکومت کو بروقت اور انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے او رمندرجہ ذیل سفارشات
کو رائج کرنا ہوگا۔
٭ تعلیم کے بجٹ کو اتنا بڑھانا ہو گا جس سے ہر پاکستانی شہری کیلیے تعلیم
کا حصول ممکن ہو سکے۔ اور وہ تعلیم کو اپنے لیے بوجھ نہ سمجھے۔
٭پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر کو من مانی فیسیں لینے سے روکنے کیلیے قانون سازی
کر نی چاہیے۔
٭ پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر کیلیئے فیس کی ایک مناسب حد مقرر کرنی چاہیے۔
٭ اگر کوئی پرائیویٹ سکول یا کالج اس حد سے تجاوز کر ے تو حکومت کو ایکشن
لینا چاہیے۔ |