بھارت عصر حاضر میں بہت زیادہ جوہری
ہتھیاروں کی پروڈکشن میں ہمہ وقت مشغول ہے اور نت نئے مزائلوں کے تجربات
بھی کرتا نظر آتا ہے ادھر امریکہ اور بھارت کے تعلقات بھی نہایت خوشگوار
نظر آتے ہیں جسکی وجہ سے بھارت کی جانب سے اس بین الاقوامی قوانین برائے
دفاعی امور سے ہٹ دھرمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور بے لگام گھوڑے کی مانند
ضرورت سے زیادہ اسلحہ بنا رہا ہے۔ ادھر سے امریکی سربراہ باراک اوباما کی
بھی دلی خواہش ہے کہ وہ بھارت کو این ایس جی تنظیم کا رکن بنائے تاکہ بھارت
بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے جو دوسرے ممالک کے ساتھ جوہری مواد
کی تجارت کر سکتے ہیں اورساتھ ہی بھارت کو ان قوانین کی پابندی سے استثنیٰ
بھی کروانا چاہتاہے کہ جس کی شرائط پر پورا اترنے کے بعد ہی کوئی ملک این
ایس جی میں شامل ہو سکتا ہے ۔لیکن امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنے
اداریے میں اعتراف کیا ہے کہ امریکہ بھارت کو این ایس جی میں شامل کرنے کا
خواہشمند ہے لیکن بھارت ابھی بھی ان 48 ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کا
اہل نہیں ہے جو غیر عسکری مقصد کے جوہری مواد کی خریدو فروخت کر سکے ۔اور
نیویارک ٹائمز کے مطابق بھارت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ این ایس جی میں
شامل تمام ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پرد
ستخط کر چکے ہیں لیکن بھارت نے ایسا نہیں کیا جسکا مطلب یہ ہے کہ ایٹمی
ہتھیاروں کے پھیلاؤ کیلئے مٹیریل کی تیاری کی پابندیوں کا اسے کوئی لحاظ
نہیں جبکہ 2008 میں بش انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے بھارتی معاہدے میں بھارت
ان چند شرائط کو پورا کرنے کیلئے راضی تھا جن پر این ایس جی کے سارے ممالک
پہلے ہی عمل کر رہے ہیں اور اب بارک اوباما کی انتظامیہ بھارت کو استثنیٰ
دلانے کیلئے لابی بھی بنا کر کردار نبھا رہی ہے اور اگر بھارت این ایس جی
کا رکن بننا چاہتا ہے تو اسے معیارات کے مطابق پاکستان اور چین کے ساتھ
ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول اور ان کی روک تھام کیلئے مذاکرات بھی کرنا ہو
نگے لیکن یہ باتیں بھی سب کے سامنے واضع ہیں کہ بھارت واحد ایساملک ہے جسکا
ایٹمی پروگرام انتہائی ناقص سیکورٹی اور ناقص انتظامیہ کے ماتحت ہے کیونکہ
بھارت سے اب تک پانچ مرتبہ یورینیم چوری ہو چکا ہے اور وہ کتنی مقدار میں
ہواہے اس کا کسی کو علم نہیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اس وقت ایک
ایساایٹمی ملک ہے جسکواپنے ہی آستین کے سانپوں سے خطرہ ہے اور اوپر سے
نریندر مودی پچھلے کافی عرصہ سے انڈیا میڈ کا رٹا بھی لگائی پھرتے ہیں کہ
پوری دنیا میں انڈین آئٹم کی تجارت اور خریدو فروخت میں اضافہ ہو تاکہ وہ
باقی ممالک کو بھی اپنی طرف مائل کر کے جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کا کام تیز
کرے اور ساتھ ہی چاہتا ہے کہ پاکستانی معیشت کا گراف انتہائی حد تک گر جائے
جس میں عالمی اسلام مخالف طاقتیں بھارت کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں کیونکہ
ایک بات تو واضع ہے کہ اگر بھارت این ایس جی کا رکن بن جاتا ہے تو وہ
پاکستان کیلئے ضرور رکاوٹ کھڑی کرے گا اور ویسے بھی این ایس جی میں کسی ایک
رکن کی مخالفت پوری تنظیم کی مخالفت کے مترادف ہوتی ہے ۔یہاں ایک بات یہ
بھی واضع ہوتی ہے کہ چونکہ حال ہی میں امریکہ نے پاکستا ن کو ایف 16- تیارے
دینے سے انکار کیا ہے اور فنڈز بھی روک دئے ہیں جس کیلئے شرائط یہ عائد کی
ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن اور شکیل آفریدی کی رہائی کو یقینی
بنایا جائے تو ہی امریکہ پاکستان کو فنڈ دے گا ۔ٹھیک اسی دورانیہ میں بھارت
کے وزیر اعظم نریندر مودی کا بیان آیا کہ پاکستان اپنی خود ساختہ دہشت گردی
کو ختم کرے تب ہی ہم اسکے ساتھ ہاتھ ملانے اور امن کیلئے بات چیت کرنے کو
تیار ہیں اور بھارت خطے میں امن و استحکام کیلئے کوشاں ہے امریکی مطالبات
اور نریندر مودی کے اس بیان میں کہیں مطابقت پائی جاتی ہے جیسے کہ کوئی
کاروباری کسی پر پیسہ انویسٹ کر کے اسے حکم دے رہا ہو !اب یہاں ذرا بھارتی
نا اہلیوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان کے جو ہری نظام کی سکیورٹی نہایت ناقص ہے
کہ پانچ دفعہ یورینیم چوری ہو چکا ہے جو کہ بھارتی اداروں اور سرکار پر ایک
سوالیہ نشان ہے کہ کیا واقعی چوری ہوا یا دہشتگرد عناصر کے ساتھ مل جل کر
ان تک پہنچا دیا گیا یا کوئی ا نڈیا میں نئی ایٹمی طاقت ظہور پذیر ہونے جا
رہی ہے کہ جسکو بھارتی یورینیم کی ضرورت ہو گی؟اور دوسری بڑی نا اہلی یہ کہ
ان کے جوہری اور ایٹمی سائنسدان اتنے نا اہل ہیں کہ حال ہی میں بھارتی
سرکار نے ایک میزائل کے کامیاب تجربے کا ڈرامہ رچایا جسکے بارے میں بھارتی
اخبار نے ہی لکھاہے کہ یہ سراسر جھوٹ اور عوام کے ساتھ دھوکے کے مترادف ہے
کہ جس میزائل کے کامیاب تجربے کی خبریں اور سائنسدانوں کے گن گائے گئے ہیں
وہ میزائل سمندر کے کنارے ہوا میں گیا ہی نہیں تھا بلکہ سمندر میں گر گیا
تھا جسکو چھپانے کیلئے مودی سرکا ر نے میڈیا کو حکم دیا کہ کامیاب تجربے کی
خبریں میڈیا پر چلا دیں جائیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کو
امریکہ نے نوازنے کی سوچ رکھی ہے کہ جتنے بھی قوانین کی خلاف ورزی کئے
جائیں اور جتنے بھی نا اہل ہوں ان کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے ؟نریندر مودی اس
وقت امریکہ کے تین روزہ دور ے پر ہیں جہاں یہ امریکی مشترکہ کانگریس کے
اجلاس سے خطاب بھی کریں گے اس کے علاوہ وہاں کے کاروباری حضرات سے ملاقاتیں
بھی کریں گے جسکے نتیجے میں آئندہ سال تیس امریکی کمپنیاں ستائیس ارب ڈالر
سے زائد کی سرمایہ کاری کریں گی اس کے علاوہ جوہری معاہدوں پر بھی امریکہ
کے ساتھ معاہدے طے پائے جائیں گے یہاں سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے ڈھونگ
رچا رکھا ہے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی نہیں کی اس لئے
دوبارہ ایف 16-طیارے فراہم نہیں کئے جائیں گے یا اب ضرب عضب آپریشن کی
کامیابی کے بعد امریکہ کو پاک فوج کی کامیابیاں برداشت نہیں ہو پا رہیں ہیں
کہ انڈیا کی مدد سے رچائے اس ڈرامے سے پاکستان آسانی سے نکل گیا ہے ؟اس وقت
اگر دیکھا جائے تو سب کچھ سامنے آ جانے کے بعد امریکہ کیلئے مشکل ہو گیا ہے
کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کئے بغیر بھارت کو نوازے کیونکہ امریکہ
کے ذہن میں ایک سوال ہمیشہ پنپتا رہے گا کہ اب پاکستان کوسب معلوم ہے کہ
کیسے بھارت نے پاکستان میں دہشتگرد عناصر کو فنڈزبھی کئے اور انکی مدد بھی
کی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ امریکہ کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ سب جانتے
ہیں کہ اس وقت امریکہ انہی ممالک کے پیچھے ہے جہاں تیل اور سونے جیسی اﷲ کی
نعمتیں دستیاب ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے غلیظ منصوبوں کے تحت کراچی اور
کوئٹہ میں پاکستان کو توڑنے کی کوششوں کوہوا دی گئی اور مشرقی پاکستان کی
علیحدگی میں کس کا ہاتھ تھا !بھارت اس وقت خود اتنا مفلس ہے کہ وہ اپنے ملک
کے وسائل تو پورے کر نہیں سکتا تو وہ پاکستان میں موجود تخریب کاروں کو
فنڈزکیسے دے گا اورامریکہ نے ملا اختر کو ایران میں کیوں نہیں مارا کہ جب
وہ زیادہ عرصہ ایران میں مقیم تھا پاکستان میں آنے کے بعد ہی کیوں نشانہ
بنایا ؟اس وقت امریکہ شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ اور حقانی نیٹ ورک کے
خلاف آپریشن کی ڈیمانڈ کر کے خودہی سامنے آگیا ہے کہ جب وہ جانتا ہے کہ
شکیل آفریدی نے پاکستان کے ساتھ غداری کی ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک جب پاکستان
میں ایسے کسی معاملے میں ملوث نہیں پایا گیا تو پاکستان کیوں کہے آ بیل
مجھے مار؟کیا پاکستان کی مستحکم ہوتی معیشت اور قائم ہوتا امن امریکہ کو
پسند نہیں ؟ |