زندگی ایک بچے کی نظر میں(حصہ دوئم)
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
یقین کو بحال و مضبوط رکھیں: بچوں کے اندر
یقین کی طاقت بالغ اور صاحب شعور سے زیادہ پایا جاتا ہے، جب کبھی بچہ بازار
جاتا ہے آپ کے ساتھ تو کوئی بھی چیز دیکھ کر ایک دم سے اس کی فرمائش اس
امید اور یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ یہ چیز میں ہر صورت میں لونگااور چاہے آپ
کے پاس پیسے ہوں یا کہ نہ ہوں اس بات کی اس کو پروا نہیں ہوتی بلکہ یقین
محکم ہوتا ہے کہ آپ اُس کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گئے مگر کیسے ۔۔۔؟یہ اس
کو نہیں معلوم۔۔۔ یا پھر اگر آپ نے کبھی کسی بھی بچے سے پوچھا تو کہ آپ بڑے
ہو کر کیا بنو گے تو اس کا جوا ب ہوتا ہے کہ : میں بڑا ہو کر ڈاکٹر
بنونگا۔۔۔انجئنیر۔۔۔ پائلٹ ۔۔۔یا۔۔۔ فوجی بنو گا۔لیکن اس کو اس بات کا قطع
معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس قدر ممکن ہے مگر اس کو یقین اور امید پوری ہوتی
ہے۔اگر تاریخ کے پرانے اوراق کو کھولا جائے تو یہ بات واضح طور پر لکھی
ہوئی ہے کہ لوگوں نے عقیدے اور یقین کی طاقت سے دنیا میں بہت کچھ بدل کر
رکھ دیا ہے، یقین کسی بھی خزانے کے پوشیدہ راز کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے ہم
کو بھی اپنے ہر کام میں پورا یقین ہو کہ ہم جس کام کو رب العزت کے پاک نام
سے شروع کرنے لگے ہیں اس میں انشاء اﷲ ہم کو ضرور کامیابی ہو گی، یقینا یہ
ہی یقین اور توکل آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔
ہمیشہ خوش رہیں: زندگی دکھوں اور غموں کی پنا ہ گاہ کا دوسرا نام ہے اور
زندگی ہی وہ چیز ہے کہ جو ہم کو تلخ و سخت حالات سے آشکار کرواتی ہے اور یہ
ہی تلخیاں ، مشکلات، تکالیف اور آزمائشیں ہی انسان کو ایک پختہ انسان بناتی
ہیں۔ کبھی آپ نے بچوں کا مشائدہ کیا کہ جب کبھی وہ بیمار بھی ہوں یا کسی
پریشانی میں مبتلا ہوں تو تھوڑی دیر روتے ہیں اور پھر روتے روتے تھوڑی دیر
کے لیے سو جاتے ہیں مگر جیسے ہی سو کر اُٹھتے ہیں تو پر سے وہی مستی وہ
دھوم و ہی شرارتیں پھر سے شروع ہو جاتی ہیں اور اپنی معصوم معصوم سے آدائیں
لے کر سب کے دلوں کو بہلاتے رہتے ہیں۔ ہم بھی اگر غموں اور پریشانیوں کو
اپنے اوپر سوار کر دیں گے تو پھر اسکا کوئی بھی علاج نہیں ہم کو چاہیے کہ
ہم اپنی تمام تر پریشانیوں کو بھلا کر ہمیشہ خوش رہنے کی عادت ڈالیں۔
کیونکہ غموں کے سہارے جینے سے کوئی بھی یا کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہے
اور نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ ہمیشہ خوشی کے چھوٹے چھوٹے مواقع کی تلاش کر کے
ہمیشہ ان کو انجوائے کیا جائے، اسی کا نام زندگی ہے ، نہ کہ غم، دکھ اور
پریشانیوں کے انبار کے سائے میں گھٹن کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا۔
پیار کرنے سے مت گھبرائیے: بچوں کی زبان سے یہ لفظ (آپ مجھ کو بہت پسند ہیں
یا آپ مجھ کو اچھے لگتے ہیں)کہنے کس قدر آسان ہیں اور وہ کس قدر بغیر کسی
ڈر و خطر کے جس کو دل چاہے بو ل دیتے ہیں اور اپنی پسند اور نا پسند کا
اظہار کر ڈالتے ہیں۔مگر یہ ہی الفاظ ایک بڑا آدمی بولنے سے اس قدر ڈرتا ہے
کہ اس کے اندر ایک انجانا سا خوف چھپا ہوا ہوتا ہے، جو اس کو اس کے پیا ر
کا اظہار کرنے سے روک رہا ہوتا ہے، ایسا کیوں ۔۔۔۔؟ وہ اس لیے کہ بچے شفاف
احساسات کے مالک ہوتے ہیں اس لیے ان کو جب بھی کوئی اچھا لگتا ہے تو وہ
انتہائی نرم اور پیار بھرے انداز میں یہ الفاظ بول دیتے ہیں کہ سننے والے
آدمی کا دل بھی موم ہو جاتا ہے۔ ہم کو ابھی اس بات پر توجہ دینی چائیے کہ
نیک و شفاف ، خیالات و احساسات کے ساتھ دوسرے سے اپنی چاہت کا اظہا ر لازمی
کرنا چاہیے۔
سخاوت کریں: بچوں کے پاس جب کھلونے ہوتے ہیں یا پھر کھانے کے لیے کچھ تو آپ
نے دیکھا ہو گا کہ وہ اپنے دوسرے دوست یا کسی بھی دوسرے بچے کو ساتھ ملا کر
کھیلیں گئے یا کھائیں گے، اور ان کے اس عمل سے دوسرا بچہ بہت جلد ان کا
دوست بن جاتا ہے، بچوں کا یہ ہی انداز ہم کو سخاوت و دریا دلی کا سبق دیتا
ہے۔بچوں کے اسی عمل سے سبق حاصل کریں اور اگر کسی کے ساتھ پوری مددنہیں کر
سکتے تو پھر اتنا کر دیا کریں کہ کم از کم ایک بندے کو ایک وقت کا کھانا
کھلا دیں۔ اگر ہم میں سے ہر آدمی ایک روٹی کی بھی سخاوت روز کرے گا تو
ہمارے ملک میں سے ایک تو غربت کا خاتمہ ہو جائے گا اور سب آپس میں بھائی
چارے سے رہنے لگ جائیں گے۔ یاد رکھیں ایک ایک اینٹ مل کر ہی مکان بنتا ہے،
نہ کہ پورا ٹرک ایک ساتھ لگانے سے۔
دوسروں کے احساسات کی قدر کریں: کسی بھی جگہ کوئی بھی دو انجان بچے ایک دم
سے آپس میں دوست کیسے بن جاتے ہیں کبھی اس بات پر آپ نے غور کیا ہے۔ اس میں
کوئی اہم راز چھپا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی بھی دو انجان بچے ایک دم سے آپس
میں دوست بن جاتے ہیں۔ اور وہ راز یہ ہیکہ دونوں انجان بچے ایک دوسرے کے
احساسات و ضروریات کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے وہ
آپس میں باہم دوست بن جاتے ہیں۔ ادھر بچوں کے اس رویے سے ہم کو بھی یہ سبق
ملتا ہے کہ ہم کو آپس میں ایک دوسرے کے احساسات، جذبات اور ایک دوسرے کی
ضروریات کی قدر کرنی چائیے اور اپنے کردار و اخلاق میں نیک احساس و سوچ کو
پیدا کرنا چاہیے تاکہ آپس میں بہم دوستی کو آسانی سے فروغ دیں سکیں۔ اس میں
لازم نہیں کہ آپ کی بات جو سنے گا تو آپ اسی کو ٹائم دیں گے یا اس کے لیے
نیک احساسات رکھیں گے۔ بلکہ آپ دوسرے کے دکھ و غم سن کر اس کی حوصلہ افزائی
کریں گئے تو کوئی آپ کے نزدیک آنے کا سوچے گا۔ ورنہ ہر کوئی آپ سے کنارہ
کرتے کرتے آ پ کو چھوڑ جائے گا۔
حسد ، بغض،لالچ و کینہ سے دور رہیں: بچوں کے اندر سب سے اہم اور خاص صفت جو
کہ دنیا کے فسادات کی جڑ ہے وہ ہے حسد، ایک دوسرے سے حسد کرنا ، مال و زر
کی لالچ اور ہوس میں انسان ، انسانیت کا درس بھول جاتا ہے، لیکن بچوں کی
زندگی میں جگہ جگہ یہ سبق پایا جاتا ہے کہ کس طرح سے وہ ان تمام برائیوں سے
دور رہ کر ایک پرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔ نہ ہی وہ کسی کے خلاف کوئی حسد
رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے سے کوئی لالچ اور طمع کا اظہار کرتے ہیں۔
|
|