پاک افغان تعلقات موجودہ تناظر میں

 ملکوں کے درمیان تعلقات کا اتار چڑھاو کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ کبھی دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاناپڑتاہے تو کبھی جارحیت یا مظا لم کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔وطن عزیزکی موجودہ صورت حال کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف امریکی ڈرون حملے تو دوسری طرف طالبان کمانڈر ملا منصور کی ہلاکت کے بعد پاک افغان تعلقات پر پڑنے والی ضرب ۔مگر خطے میں دیر پا امن کے لئے پاک افغان بہتر تعلقات ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔کچھ غلطیوں اور تلخیوں کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی فضا زیادہ عرصہ تک سازگار نہیں دکھائی نہیں دیتا۔ تقریبا ۲۴۰۰ کلومیٹر پر مشتمل پاک افغان ڈیورنڈ لائن جس کا نصف سے زائد علاقہ کسی بھی قسم کے فورسزیا سکیورٹی سے خالی ہے۔اور کسی بھی جرائم پیشہ عناصراور دہشت گردوں کو سرحدی حدود پار کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ پاک افغا ن تعلقات میں خلیج کی اہم وجہ ڈیورنڈ لائن کی خلاف ورزی بھی رہی ہے ۔ کیونکہ دونوں اطراف سے سرحدوں کی خاطرخواہ حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے تعلقات میں منفی رججان زیادہ دیکھنے کو آیاہے۔دونوں اطرف سے نہ صرف دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں مشکلات پیش آتی ہے بلکہ اقتصادی لحا ظ سے بھی کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا۔ اگر ہم اپنی نظر افغانستان کی ماضی پر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ افغان سرزمین کو ماضی میں سیاسی اور دفاعی لحاظ سے اُتار چڑاو کا سامنا کرنا پڑتارہاہے۔ جن میں سویت یونین کا افغان سرزمین پر حملہ افغان حکومت کے لئے کڑا امتحان تھا۔کیونکہ اس وقت سے اغیار کی فوج کے لئے افغان سرزمین پرقدم رکھنا کوئی خاصا مشکل نہیں رہی۔اور یوں افغانستان بیرونی عمل دخل سے پاک نہیں رہا۔افغان سرزمین پر کچھ عرصہ تک سول وار جاری رہنے کے بعد ۱۹۹۴؁ میں طالبان کے نام سے ایک گروپ ابھر کر سا منے آیاجس کا مقصد اسلام اور افغانستان پر ہونے والے بیرونی مظالم کا سامنا کرنا تھا۔اُس دور سے افغانستان میں گرپ بندی بھی ہونا شروع ہوئی تھی۔ دوسری طرف جب ۲۰۰۱ ؁ میں ولڈٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا اور امریکہ نے القائدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ ا لقائدہ اور طالبان ایک دوسرے کے حامی ہے۔اور یو ں صدر بش نے دہشت گردی کے خاتمے کی غرض سے نیٹو فورس کو ہمنوابنا کر ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ ؁ کو افغانستان میں آپریشن شروع کیا جس سے افغانستان کی سیاسی اور دفاعی امور پر بیرونی تسلط قائم ہوا۔لہذا طویل عرصہ تک افغان سرزمین میدان جنگ بنے رہنے کی وجہ سے نہ صرف سیاسی طور پر ملک کمزور ہوا بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی بہت پیچھے چلا گیا۔اگر ہم معاشی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو افغانستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔جس کی قدرتی وسائل میں گیس ،پیٹرلیم، ماربل ، کول ،کوآپر، آئرن اور دیگر کئی منیرل شامل ہیں ۔مگر ان قدرتی وسائل کا وافر مقدار میں ہونے کے باوجود افغانستان کی معاشی ترقی بہت سست روی کا شکار رہی ہے۔ جس کی اہم وجہ امن وامان کی خراب صورت حال اور وسائل کو بروکار لانے کے لئے جدید سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ نتیجتا آج بھی معیشت کا ۸۰ فیصد حصہ بیرونی امداد پر منحصر ہے۔ معاشی پسماندگی کا دوسرا اہم پہلو ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کانہ ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے معاشی ترقی کے لئے تعلقات کا بہتر ہونا لازمی جز گردانتے ہیں۔پاک افغان تعلقات صرف دہشت گردی کے خاتمے تک محدود نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے لئے بہت اہم ہے۔ مگر بدقسمتی سے سٹرٹیجیک تعلقات جب بھی بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہے کوئی نہ کوئی ایسی حالات پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے تعلقات بگڑتی رہتی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی خواہ جس لحاظ سے بھی ہو وہ پرانے تلخیوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خوہش ظاہر کی۔ اور دوسری طرف پاکستان کے سول اور ملٹری قیادت نے بھی پاک افغان بہتر تعلقات اور خطے میں دیرپا امن کے لئے ہر موڑ پر مفاہمت کی پالیسی اپناگئی ہے۔ مگر۱۹ اپریل کو کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے تعلقات کی فضا پھر خراب کر دیا۔اس حملے کے کچھ دنوں بعد افغان صدر اشرف غنی نے پورا ملبہ پاکستان کی طرف ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ نہیں کر رہاجس کی وجہ سے افغانستان پر حملہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ وہ یہی سمجھتے تھے کہ طالبان پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان پر حملہ کر رہے ہیں۔اور اسی دوران افغان صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات سے بھی انکار کر دیا۔ افغان صدرکے مطابق پاکستان اپنے کئے ہوئے وعدے پورا نہیں کر رہے ۔ اور دہشت گردوں کے کمین گاہیں ختم نہیں کر رہا۔ مگر اس کے برعکس پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مصروف عمل ہے بلکہ کئی بڑے اقتصادی منصوبے جن میں سی پیک اور تاپی شامل ہے۔پر بھی گہری دلچسپی بھی لے رہی ہے۔ دوسری طرف پانچواں Heart of Asia Ministerial Conference جو اسلام آباد میں ہوئی جس میں چار ممالک پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین شامل تھے کا مقصد طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کروانا تھا۔مگر اس میٹنگ کے بعد اگلہ کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھانے کی وجہ سے افغان طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات نہیں ہو سکی ۔مگر کچھ عرصے بعد دونوں ملکوں نے دریا دلی دکھاتے ہوئے افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ ہونے والے مفاہمت کو آگے بڑھانے کے لئے ایک دفعہ پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر اتفاق ہوا۔جو کہ پھر مشکل میں پڑ گیا۔بلوچستان کے علاقہ نوشکی میں ہونے والی امریکی ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد ایک طرف پاک افغان تعلقات پر کاری ضرب پڑی تو دوسری طرف پاک امریکہ تعلقات میں بھی کافی تناو پیدا ہوئی۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے کی جانے والی یہ ڈرون حملہ پاکستان کی سرحدی حدود کی سراسر خلاف ورزی تھی ۔ جس کے لئے پاکستان کے سول اور ملٹری حکام نے اسے قومی سلامتی کے خلاف ورزی قرار دیا۔ اس ڈرون حملے کے بعد حکومت پاکستان افغان مہاجرین کے بارے میں حرکت میں آتے ہوئے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے اور بہت جلد افغان مہاجرین کو پاکستان سے انخلا کرنے کی عندیہ بھی دے دیا۔ اس طرح کی صورت حال سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا استوار ہونے میں مزید دشواریاں آسکتی ہیں۔ہند افغان بڑھتی ہوئی معاشی و دفاعی مراسم بھی حکومت پاکستان کے لئے پریشان کن امر ہے۔ جو کہ کسی بھی حال میں پاکستان مخالف بلاک کے مترادف ہوگا۔ افغان حکومت چہار بہار منصوبے میں دلچسپی ظاہر کرکے پاک افغان تعلقات کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ جس کے اثرات یقینادوررس اور منفی ہونگے۔
Shakeel Ahmad
About the Author: Shakeel Ahmad Read More Articles by Shakeel Ahmad: 9 Articles with 6132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.