شاہین اختر
ملک بھر میں شہروں کے اندر سٹریٹ کرائمز میں اضافے کا ایک سبب موٹرسائیکل
سوار افغانیوں کی طرف سے خواتین کے پرس چھین لینے حتیٰ کہ گھروں میں گھس کر
لٹ مار کرنے میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت
گردی کے واقعات میں بھی افغان پناہ گزینوں کے کیمپ دہشت گردوں کے لیے محفوظ
پناہ گاہیں ثابت ہو رہے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے اندر تحریک
طالبان افغانستان ایک متوازی حکومت چلا رہے ہیں۔ اُن کا اپنا لیگل سسٹم اور
قانون سازی کا انداز ہے اور انہیں تمام امور پر کنٹرول حاصل ہے۔ تحریک
طالبان افغانستان کی قیادت افغانستان میں ہی مقیم ہے اور افغانستان کے بہت
سارے علاقوں میں سختی سے اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہے۔ وہ افغان مہاجرین
کی آڑ میں علاج کے لیے ہوسکتا ہے پاکستان آتے ہوں تاہم آپریشنل کارروائیاں
وہ افغانستان میں ہی رہ کرتے ہیں۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور
افغانستان میں بہتر تعلقات اور امن کے قیام کے لئے افغان مہاجرین کی فوری
واپسی اور بہتر بارڈر منجیمنٹ و کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔ ولی محمد کے
نام پر سفر کرنے والے ملا منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے نشانہ بنانا پاکستان
کی خودمختاری کے سراسر خلاف ہے۔ آخر اُس کو ایران، متحدہ امارات اور
افغانستان کی بجائے صرف پاکستان میں ہی نشانہ کیوں بنایا گیا؟۔ ڈرون حملے
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے یہ پاکستان کی خودمختاری اور سرحدی
یکجہتی کے خلاف جارحیت کی کارروائی ہے۔ ڈرون حملوں سے کلیٹریل نقصان انسانی
حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ نوشکی میں ڈرون حملہ امریکہ کی طرف سے اپنے
اتحادیوں پر عدم اعتماد کا ثبوت ہے جس سے امن عمل کو بھی نقصان پہنچا یہ
تاثر ابھر کر سامنے آ گیا ہے کہ اس ڈرون حملہ سے امریکہ نے امن مذاکرات سے
غداری کی ہے۔ امریکہ کا دوہرا معیار اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایک طرف
وہ پاکستان سے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں مدد کا خواہاں ہے اور دوسری
طرف وہ ڈرون حملے میں طالبان چیف کو مار کر پاکستان کو مشکل صورتحال سے
دوچار کردیتا ہے۔ ڈرون حملوں سے تشدد کو ہوا ملتی ہے متاثرین سے ہمدردی
ہوتی ہے اور انتہاء پسندی کی لہر جنم لیتی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے
خاتمے اور امن عمل کو تقویت دینے کے لیے انسانی اور مادی قربانیاں دی ہیں
اور ہمیشہ ایسے عمل کی مذمت کی ہے جس سے علاقائی عدم استحکام پیدا ہو۔
گو افغانی گو دہشت گردی کے تناظر میں افغان مہاجرین کے سہولت کار کردار کی
بدولت جلد ایک بڑا مطالبہ اور مقبول نعرہ بن سکتا ہے۔ اگرچہ وزیر اعلی خیبر
پختونخوا پرویز خٹک کے مطابق صوبائی کابینہ کے فیصلے کے مطابق غیر قانونی
افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائیگا۔ انکا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس کو
ہدایت کی ہے کہ غیر قانونی مہاجرین کو گرفتار کرواکے اپنے ملک بدر کیا جائے۔
خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے یہ لوگ
واپس جانے کیلئے تیار ہیں۔ وفاقی حکومت انکے جانے کیلئے فنڈز فراہم کرے تو
یہ مہاجرین واپسی کے لیے راضی ہیں۔ وفاقی حکومت نے رجسٹرڈ مہاجرین کی واپسی
کیلئے 31دسمبر 2015تک توسیع دی ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پر نظر ثانی
کی جائے کیونکہ ہمیں امن و امان کا مسلہ درپیش ہے۔
پشاور پولیس مطابق صوبائی حکومت کی ہدایت پر غیر قانو نی افغا ن مہا جرین
کے خلاف فا رن ایکٹ کے تحت سر چ اینڈ سڑائیک آپریشن شروع کیا جا چکا ہے۔
روزانہ 70سے 100کے قریب افغا ن مہا جرین کو گرفتار کر کے مقا می عدالت میں
پیش کر نے کے بعد انہیں طور خم کے راستے افغانستان روانہ کر دیا جاتا ہے ۔
لیکن ناقص انتظامات کی وجہ سے نہ صرف ڈپورٹ کئے جانیوالے لوگ دوسرے راستے
سے واپس آتے ہیں بلکہ یو این ایچ سی آر کے تحت مراعات لینے والوں میں بھی
زیادہ تر واپس آجاتے ہیں اور یہ یو این ایچ سی آر سے دوبارہ مراعات نہیں لے
سکتے لیکن یہاں آکر رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کی ہدایت پر پولیس افغان مہاجرین کی
سرگرمیوں کی نگرانی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ اگرچہ مخصوص کارڈ رکھنے والے آج
بھی شہر میں کاروبار کررہے ہیں۔ صوبے کے ہر چھاونی میں انکا داخلہ ممنوع کر
دیا گیا ہے ۔ پاکستانی اداروں کی ملی بھگت سے بڑی تعداد میں افغانوں نے
پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رکھے ہیں۔ تین عشروں سے زیادہ
یہاں رہنے کے بعد انکا کھوج لگانے میں اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2014 میں 7 ہزار افغان خاندان
رضاکارانہ سکیم کے تحت واپس جا چکے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کے اقدامات سے
واپسی میں تیزی آئی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان
مہاجرین کی تعداد1.6ملین ہے جبکہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے
زیادہ افغان غیر رجسٹرڈ ہیں۔ |