12۔بیوی بچوں کے ہمراہ واپس آنے
والوں کو ایمرجنسی سرٹیفکیٹس دیئے جائیں گے۔14۔جن کاوادی میں کوئی رشتہ دار
نہیں، وہ اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے میں سرینڈر درخواست دیں گے۔15۔
انٹر نیٹ پر بھی آن لائن معلومات اور درخواست فارم دستیاب ہو گا۔16۔پالیسی
کے باعث نیپال،بنگلہ دیش یا واہگہ بارڈر سے جعلی دستاویزات پر کشمیر آنے کا
غیر قانونی داخلہ بند ہو گا۔17۔کلیئرنس پانے والے نوجوان 4انٹری پوائنٹس
پونچھ راولاکوٹ(پونچھ)، اوڑی مظفر آباد(اوڑی)، واہگہ(پنجاب)اور اندرا
گاندھی انٹر نیشنل ائر پورٹ(نئی دہلی)پر واپس آ سکیں گے۔18۔انٹری پوائنٹ پر
انہیں گرفتار کر کے کونسلنگ سنٹرز پر پہنچایا جائے گا۔19۔ یہ یقین دہانی
بھی کی جائے گی کہ وہ پاکستان کی طرف سے پلانٹ تو نہیں۔
20۔جن کے خلاف کسی پولیس سٹیشن پر کیس درج ہیں ان کو عدالتوں کا سامنا کرنا
ہو گا۔21۔جنگ بندی لائن پار کرنے سے قبل اگر کوئی کسی کیس میں ملوث پایا
گیا تو اس کے خلاف مقدمہ درج ہو گا۔
22۔ریاستی کابینہ کی منظوری کے بعد پالیسی کو حتمی منظوری کے لئے دہلی
بھیجا جائے گا۔23۔حتمی پیکج کا اعلان بھارتی کابینہ کرے گی۔24۔ کشمیر کے
سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ نے 7فروری 2010ء کے دہلی میں بھارتی وزرائے اعلیٰ
کی کانفرنس میں خطاب کے دوران آبادکاری پالیسی کی بات کی تھی۔25۔بھارتی
وزارت داخلہ نے مئی 2004ء کو کانگریسی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی جانب سے
قائم پانچ میں سے ایک ورکنگ گروپ کی سفارشات پرپییج کو تسلیم کیا۔ 26۔ورکنگ
گروپ نے بندوق پھینک کر مین سٹریم میں لوٹنے والے ’’گمراہ نوجوانو ں‘‘ کو
جنرل ایمنسٹی دینے کی سفارش کی تھی۔
27۔پالیسی کو پاک بھارت مذاکرات کے لئے بڑا سی بی ایم(اعتماد سازی
کاقدم)قرار دیا جا رہا تھا۔28۔آبادکاری پیکج مسلح ٹریننگ کے لئے جانے والوں
کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار اقتصادی اور سماجی وجوہات کے باعث جنگ
بندی لائن پار کرنے والوں تک بھی بڑھایا جائے گا۔29۔واپس آنے والوں کو
بھارت کی سا لمیت اور آئین تسلیم کرنا ہو گا۔
یہ اس پالیسی کے چند اہم نکات ہیں۔ ان سب کا محور کشمیریوں کو پاکستان سے
بدظن کرنا اور تحریک آزادی کو مکاریوں اور دھوکہ بازیوں سے کچل دینا
ہے۔بھارتی حکومت نے اس پالیسی سے کشمیریوں کو بلیک میل کیا۔ کیوں کہ بھارت
کی تمام پالیسیاں راحت کاری کے بجائے کشمیریوں کی تذلیل اور ان کی غلامی کو
مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتی رہی ہیں۔ جو نوجوان نیپال کے راستے وادی
واپس پہنچے۔ ان پر آج بھی بھارتی فورسز اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت نے
واپسی کے لئے چار انٹری پوائینٹس کا اعلان کیا تھا۔ نیپال روٹ کا اس میں
کوئی ذکر نہ تھا۔
نیپال سے سیکڑوں کی تعداد میں کشمیری خاندان واپس گئے ہیں۔ کرا چی سے
کاٹھمنڈو اور وہاں سے بھارت۔ کاٹھمنڈو سے دہلی ، وارانسی، سانولی بارڈر
کراسنگ اتر پردیش، راشل بارڈر کراسنگ بہار،پانی ٹنکی بارڈر کراسنگ مغربی
بنگال، بن باسا بارڈر کراسنگ اتر کھنڈ سمیت دیگر راستے اتر پردیش سے نیپال
کو ملاتے ہیں۔ جانک پور، برات نگر اور الم میں بھی غیر سرکاری بارڈر کراسنگ
فارن سیاحوں کے لئے کھلے ہیں۔ ان کھلے راستوں کے باوجود بھارت اور نیپال کے
تعلقات کشیدہ ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 1950سے ایک معاہدہ کے تحت بغیر
کسی ویزہ ، پرمٹ کے داخلہ کی اجازت ہے۔مگر بھارت اب نیپال پر نیکسل باغیوں
کی امداد کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ وہ چین اور پاکستان پر بھی دہشتگردی کو
ہو ادینے کا الزام لگاتا ہے۔
نیپال اب بھارت کے لئے کشمیر جیسا بن گیا ہے۔ یہ تبصرہ بھارتی مبصرین کا
ہے۔ اب نیپال بھارت سرحد پر خار دار تاربندی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ جیسا کہ
بنگلہ دیش اور پاکستان کے ساتھ سرحد کو بند کیا گیا ہے۔ راجیو گاندھی کے
دور میں بھارت نے نیپال کی سر حد بند کر دی تھی۔ نیپالیوں کا پانی، نمک ،
تیل بند کر دیا گیا۔ سکم پر جب بھارت نے قبضہ کیا ۔ا س وقت بھی نیپال کے
تحفظات کی جانب توجہ نہ دی گئی۔ سچ یہ ہے کہ بھارت نے نیپال کو غیر مستحکم
کرنے کی سازشیں ہمیشہ جاری رکھیں۔ یہی الزام نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما
اولی نے بھی لگایا ہے۔ 2015کو نیپال کا آئین تیار کرتے وقت بھی بھارت نے
ڈکٹیشن کی کوشش کی لیکن نیپالیوں نے اسے مسترد کر دیا۔
نیپال دنیا کا واحد ہندو ملک ہے۔ مگر وہاں سیکولرازم کو فورغ دیا جا رہا
ہے۔ نریندر مودی نے اس ملک کو ہندو فرقہ پرستی کے لئے تیار کرنے کا عندیہ
دیا ۔ مگر نیپالی اس پر تیار نہ ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیرداخلہ راج
ناتھ سنگھ نے جب سے محبوبہ مفتی کو نیپال روٹ کو کشمیریوں کی واپسی کے لئے
کھلونے اور اسے قانونی حیثیت دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تب سے ہندو فرقہ
پرست اس کے خلاف پروپگنڈہ کرنے لگے ہیں۔ جبکہ نیپالی اب بھارت کے بجائے چین
سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں بھارت کی پابندیوں ، نئے آئین
کی تیاری میں بے جا مداخلت اور دیگر نیپال دشمن سرگرمیاں چین سے قربت پر
آمادہ کر رہی ہیں۔ چین کو بھی نیپال کی ضروریا اوت تعلقات کا احساس ہو گیا
ہے۔ اس نے نے سڑک اور ریل سروس کے زریعے تجارتی راستے تلاش کر لئے ہیں۔
جبکہ نیپال کے صدر کا مجوزہ دورہ بھارت ملتوی کر دیا گیا۔ نیپال نے دہلی سے
اپنا سفیر بھی واپس طلب کر لیا۔
بھارت کی تشویش یہ ہے کہ چین نے نیپال کو مارچ میں نیپالی وزیراعظم کے دورہ
کے موقع پر یقین دہانی کرا دی کہ چین کیس بھی بیرونی مداخلت پر نیپال کی
بھرپور حمایت کرے گا۔ چین نے نیپال حکومت کے استحکام ، وہاں پر سرمایہ
کاری، راستوں کے کھولنے کا بھی اعلان کیا ہے۔چین کے مغربی صوبے گانسو سے
تین ہزا ر کلو میٹر سے زیادہ کا 10روزہ سفر طے کرنے کے بعد کارگو کنٹینرز
کاٹھمنڈوپہنچ رہے ہیں۔ نیز چین سے تبت کے راستے نیپال تک ریلوے نیٹ ورک کا
معاہدہ بھی انتہائی اہم ہے۔ جس پر بھارت میں تشویش یقینی طور بڑھ رہی ہو
گی۔ اسی دوران آزا د کشمیر سے نوجوانوں کے نیپال کے راستے بھارت واپسی کے
لئے اس روٹ کو قانونی طور پر کھولنا دلچسپ حکمت عملی ہو گی۔ اس لئے اس پر
سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں کشمیریوں کے لئے
نیپال بھارت کی سرحد کا کھولا جانا کسی خطرہ کی بھی گھنٹی ہو سکتا
ہے۔کشمیریوں کی واپسی انسانی نفسیات اور انسانی رشتوں کی کشمکش سمیت بعض
معاشی پریشانیوں کے باعث ہو رہی ہے۔ بعض تحریک سے مایوس ہو کر واپس جانے
لگے تھے۔ بعض اس پروپگنڈہ میں آگئے کہ تحریک ناکام ہو گئی ہے۔ جب کہ حالات
کا درست جائزہ دشمن کے ریمارکس سے لگایا جاتا ہے۔ دشمن کی ناکامی اور
پریشانی کی جھلک اس کے بیانات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں
تعینات بھارتی فوجی اعلیٰ کمانڈر صاف طور پر اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے
ہیں۔ اگر محبوبہ مفتی سنجیدہ ہیں تو کشمیر کی جنگ بندی لائن سے کشمیریوں کو
سٹیٹ سبجیکٹ پر آنے جانے کی اجازت دلانے کو کوشش کریں۔ جنگ بندی لائن کو ہی
1989کے بعد آزاد کشمیر آنے والوں کی واپسی کے لئے کھولا جائے۔ |