سائنسدان مسلمان ہوگیا، لیکن ہماری بے عملی کب دور ہوگی

مریضوں کی ایک سٹیج ایسی بھی ہوتی ہے جب ان پر کوئی دوائی ہی اثر نہیں کرتی۔ لہٰذا پہلے غالب مسئلے کا علاج کر کے ہی پھر دوسرے مسائل کو دیکھا جاتا ہے۔ جیسے ایک مریض کا معدہ ہی خراب ہے تو اس کے معدے کا علاج ضروری ہے ورنہ کھانے، دوائی کا کچھ اثر نہ ہوگا اور اگر مریض کے جسم کے تمام یا اکثر اعضاء میں خرابی ہو چکی ہو اور مریض ابھی زندہ ہو تو ڈاکٹر اس کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ایسی حالت میں مریض تعاون نہ کرے، زندہ ہی نہ رہنا چاہے تو پھر ڈاکٹروں کیلئے مریض کو بچانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی عوام بھی ایک ایسا ہی مریض ہے جو سر سے لے کر پاؤں تک طرح طرح کے امراض(مسائل) میں مبتلا ہے لیکن یہ علاج کیلئے تیار ہی نہیں۔ اس مریض کو ابھی بھی کوئی فکر نہیں۔ زندگی اور موت کے درمیان لٹکتی عوام نہ تو اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی ہے اور نہ ہی اپنی بھیانک موت کا ادراک کر رہی ہے۔(صرف چند لوگوں کے علاوہ)۔ اس مریض(عوام) کے تمام جسم پر زخم(مسائل) ہیں، اور زخمی کی یہ حالت دیکھ کر اس ملک کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے سیاست کے نام پر اس کے جسم پر یلغار کر رکھی ہے۔ نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں لیکن اسے کوئی پروا نہیں، یہ درد سے روتا اور چیختا ضرور ہے لیکن اپنے آپ کو انڈین فلموں، کرکٹ اور فٹبال کے میچ، دیکھنے میں مصروف کر لیتا ہے۔ ٹی وی سکرین پر خوبصورت چہروں اور ڈراموں سے دل بہلاتا ہے۔ سیاستدانوں کو ووٹ ڈالتا ہے اور سیاستدانوں کے خلاف جلوس بھی نکالتا ہے۔ نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے لیکن ایسے ہی چلتا جا رہا ہے۔ اس کو آخر کب تک ایسے ہے چلتے جانا ہے، بغور سوچنے، سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

کیا ہمارا حال مذکورہ بالا سطور سے مختلف ہے۔ بالکل بھی نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ خراب۔ اگر کسی مریض کو ڈاکٹر نہ ملے، دوائی نہ ملے تو اور بات۔ لیکن ہمارے پاس تو اسلام نام کا ڈاکٹر ہے، اسلام نام کی دوائی ہے، ہر مرض سے یقینی شفا اسلام کے نام سے موجود ہے۔ ہر مسئلے کا حل، ہر مشکل سے نجات کا فوری حل اسلام، اسلام، اسلام موجود ہے۔ کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیرونی سازشوں کے تحت، اسلام سے بیگانے نظام تعلیم کی وجہ سے، انڈین فلموں کے سیلاب نے ایسے لوگ یقیناً پیدا کر دئیے ہیں، جو اسلام کے نام پر اسلام دشمن نظریات کے پیروکار بن چکے ہیں۔ لیکن ہم آخر ان کے ساتھ ان کے پیچہے کیوں چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہمیں کوئی مجبوری ہے۔ اگر کوئی اسلامی حلیہ اپنا کر، داڑھی رکھ کر غلط افعال میں ملوث ہے، اگر ایسوں کا پورا گروہ ہے۔ تو دین اسلام ان کی ہم سے زیادہ اور ہم سے پہلے سخت مذمت کرتا ہے۔ ان کی حرکتوں کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ اسلامی تعلیمات میں کوئی کمی ہے اور ہمیں ان کو چہوڑ کر دوسروں کے طریقے اپنا لینے چاہئیں- جانثاران مصطفٰے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو نہیں کئی سال اسلامی طریقوں پر عمل کر کے دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ معاشیات ہو یا سیاسیات، گھریلو زندگی ہو یا کاروبار، اندرورن مسائل ہوں یا دشمنوں کی سازشیں، دہشت گردیاں اور قحط، زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی و کامرانی حاصل کر کے دکھائی ہے۔ تاریخ کہیں بھاگی تو نہیں۔ ہم نے اسلام سے عملی طور پر منہ موڑا تو ہماری بداعمالی، عیاشی اور غداری ہمارے زوال کی وجہ بن گئیں اور آج ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، اپنی اپنی حیثیت میں رہ کر کرتے بھی ہیں لیکن اسلام سے عملی پرہیز کے ساتھ۔ کیا ہم اپنی زندگیوں میں، اپنے جسموں پر، اپنے خیالات پر، اپنی حرکتوں پر اسلام نافذ نہیں کر سکتے۔

سوچئے غور کیجئے، مسئلہ کیا ہے۔ غیروں کی تقلید میں بسنت مناتے ہیں، اپریل فول مناتے ہیں، ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ ذرا اپنے دن رات اسلام کے مطابق بھی منا کر دیکھ لیں۔ رکاوٹ کیا ہے، ذرا سوچیں کہ آخر وجہ کیا ہے۔ اسلام تو رہے گا، ہم نہیں رہیں گے۔ زندہ ہو کر بھی مردہ رہیں گے۔ پاکستان ایک تحفہ ہے۔ عوام و خواص، نیک وبد، امام و مقتدی، امیر غریب، داڑھی والے اور بغیر داڑھی والے کیسے ایک ہو گئے تہے۔ دعائیں مانگی تھیں۔ ہر سازش کا مقابلہ کیا تھا۔ اُس وقت بھی تو کچھ داڑھیوں والوں، اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں، نمازیں پڑھنے، پڑھانے والے ملاؤں نے کانگرس کا ساتھ دیا تھا۔ گاندھی کو اپنا لیڈر مانا تھا۔ لیکن ہر سازش کو ناکام بنا دیا۔ پاکستان بن گیا۔ اب کیا ہو گیا۔ اپنے خلاف ہونے والی سازشیں سمجھ ہی نہیں آتیں یا سمجھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ مہربانی فرمائیں اور اپنی زندگیوں میں اسلام نافذ کر لیں۔ نیت کرنا بھی فوری آغاز کے مترادف ہے۔ کر لیں۔ سب کچھ تو کرتے ہیں، یہ بھی کر لیں۔ نحوستوں سے نکل کر برکتوں میں آ جائیں۔ فرض کریں پاکستان میں کل 100 لوگ رہتے ہیں۔ اگر 70 لوگ اپنے زندگیاں اسلام کے مطابق ڈھال لیں۔ پوری نہیں صرف 50 فیصد ہی ڈھال لیں۔ تو کیا ہوگا۔ اسلام عرب میں طلوع ہوا تھا، برکتیں ساری دنیا تک پہنچ گئی تھیں۔ تو اب بھی ایسے ہی ہوگا،نہ صرف 70 لوگوں کے، بلکہ باقی 30 لوگوں کے دکھ درد ختم ہونے جیسے ہی ہو جائیں گے۔ جرائم نہ ہونے کے برابر ہو جائیں گے۔ سب خوشحال جیسے ہی ہو جائیں گے۔ غریبوں کی عزت محفوظ ہو جائے گی۔ ملک میں امن کا نظام چلے گا۔ تو ڈھلیں فوراً اسلام میں، آخر غیر اسلامی نظام میں بھی 100 فیصد تو ڈھلے ہی ہیں اور کتنا تجربہ باقی ہے، اسلام سے بغاوت کر کے اور کتنی ذلت اٹھانی باقی ہے۔ اسلام پر عمل کرنے والوں نے دنیا سنبھال رکھی تھی، ہم سے اپنا آپ نہیں سنبھالا جا رہا، قربانیاں دے کر ملک حاصل کیا، لکین پھر اتنے کمزور ہو گئے کہ آدھا حصہ ہی گنوا دیا، سنبھالا ہی نہیں گیا۔ کبھی سوچا ہے کہ یہ ملک اسلامی نظریہ کی طاقت سے حاصل کیا تھا۔ نظریہ سے پھر گئے، طاقت گئی اور آدھا ملک بھی۔ اسلام ہی مکمل طاقت ہے، اسے اختیار کریں، طاقتور بن جائیں، اگر نہیں اختیار کرنا تو پھر اب کیا کرنا ہے۔

اگر کسی کو یہ سب پڑھ کر ہنسی آ رہی ہے تو اس کو عرض ہے کہ کاش آپ کو اسلامی اصولوں سے اور ان پر عمل کے سبب نازل ہونے والی رحمتوں کا کچھ تو شعور ہوتا۔ زیادہ نہیں تو اسلامی تاریخ کا کچھ تو مطالعہ کیا ہوتا، یہ میڈیا غیروں کا غلام ہے اور انھیں ھر وقت سپر پاور کے طور پر پیش کرنا اس میڈیا کا فرض اولین ہے۔ لیکن کاش آپ نے سچ کا شعور حاصل کرنے کی کچھ کوشش کی ہوتی۔ سچ کبھی چھپا نہیں رہتا۔ ابھی چند مہینے پہلے لندن کے سائنس میوزیم میں ہونے والی نمائش ہی دیکھی ہوتی۔ اس نمائش کی خبریں وائس آف امریکہ سے بھی نشر ہوئیں۔ عنوان تھا ایک ہزار ایک ایجادات اور مسلم ثقافت۔ آج کی ایجادات کی دنیا کی بنیاد تو مسلمانوں نے رکھ چھوڑی تھی اور بنیاد ہی تو مشکل ہوتی ہے۔ آج کی سائنسی دنیا مسلمانوں کے کئے گئے کاموں کی ہی مرہون منت ہے۔ یونیورسٹیاں، طبی ایجادات،ہائی جین پمپس، واٹر وہیلز اس دنیا کو کس نے عطا کئے، جناب مسلمانوں نے۔ یہ سب نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ لندن کے سائنسی میوزیم میں ہونے والی نمائش بھی یہی اعلان کر رہی تھی۔ اگر ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی تباہی نہ کی ہوتی تو آج ہمارے حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ ایلیفنٹ کلاک ایک مسلم موجد، ریاضی داں اور انجینیر ال جزاری نے 13ویں صدی میں بنایا تھا۔ ریاضی اور الجبرا ہی کو لے دیکھ لیجئے اگر یہ ہندسے نہ ہوتے، یہ صفر اور ایک اور باقی ہندسے نہ ہوتے تو آج کی دنیا کیسی ہوتی، ٹیکنالوجی کے کیا حالات ہوتے۔ مسلمانوں کی بیمثال کوششیں تھیں۔ الظہروی، ابن خلدون،ابن ال نفیس،جلال الرین رومی, ناصر الدیں الطوسی، ابن البیطر،ابن رشد،الادریسی،ابو مروان ابن ظہر، ابو حمید الغزالی، عمر الخیام، ابو ریحان البیرونی،ابوالحسن الموردی،ابو علی حسن الحیطم، ابوالوفا محمد البزجانی، ابوالحسن علی، ابوالنصر الفارابی، محمد ابن زکریا الرازی، الفرغانی،ابو عبداللہ الباطانی، علی ابن ربان التاباری، تحابت ابن قرا، یعقوب ابن اسحق الکندی، محمد ابن موسی الخوارزمی، جابر ابن حیان ۔۔۔۔۔۔۔ چند نام لکھے ہیں، ان کے علاوہ اور کتنے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی بدولت کیمسٹری، ارتہمیٹک، فزکس، میڈیکل سائنس، کیلیگرافی،جیو میڑی،فلاسفی، سوشیالوجی، ھسڑیوگرافی، جیوگرافی،ارتھ سائنس، سرجری، میڈیسن، آپتھمولوجی، ڈینٹل سائنس،ٹرگنومیٹری، آپٹکس، میٹریا میڈیکا،سیاسایات، عمرانیات، سائیکالوجی، اناٹمی ، گائیناکالوجی، بچوں کے امراض کا علم، علم معاشیات، جیالوجی، ریاضی، الجبرا، نیوپلاٹنک فلاسفی، میڑیکنل پلانٹس، باٹنی، آپتہمولوجی اور دوسرے بہت سے علوم کی بنیاد، تحقیق، تجربات کا ایک نظام بن گیا تھا۔ نئی نئی دریافتیں کی گئیں، آنے والوں کیلئے بہت کچھ چھوڑ دیا گیا، اور کچھ نہیں تو حضرت کمال الدین دمیری اور حضرت امام قزوینی کی کئی سو سال پہلے لکھی بس دو کتابیں حیاۃالحیوان اور عجائب المخلوقات ہی دیکھ لی ہوتیں، عقل دنگ رہ جاتی۔ سائنس اور جدید علوم میں، نت نئی تحقیق میں، پوشیدہ رازوں کو آشکار کرنے میں مسلمانوں کا اپنے پچھلوں کا مقام پتہ چلتا، اسلام کے سانچے میں ڈھلے لوگ کیسے جدید علوم کی بنیاد رکھ کر بڑھے چلے جا رہے تھے اور آنے والوں کیلئے کیسی راہنمائی تیار کر رہے تھے، آپ بھی جان جاتے۔ یہ سب اسلام کی بدولت تھا، اس تمام کا ماخذ اور وجہ اسلام بنا تھا , اسلام ترقی اور عروج کا دروازہ اور اس دروازے کو استعمال کرنے والوں کیلئے ترقی اور عروج کا ایک محفوظ راستہ اور اس راستے کی منزل بھی ہے۔ اسلام سائنس کا رہنما ہے۔ جو ذہن اپنے آپ کو مسلمان سوچتے اور کہتے ہیں لیکن ان کی پرورش اسلام کے عملی پرہیز میں ہوئی ہوتی ہے، وہ جن کو عورتوں کے چھوٹے ہوتے کپڑوں میں عورتوں کی ترقی نظر آتی ہے، جب وہ یہ کہتے ہیں تو میرے جیسے پوچھتے ہیں کہ کتنی ترقی کر لی کیا عورتیں چاند پر پہنچ گئی ہیں تو وہ ہنستے ہیں۔ یہ ہنستے تو ہیں لیکن یہ ہمارے اپنے ہی ہیں۔ ایسوں میں کچھ یقیناً ایسے بھی ہیں جو سوچیں گے اسلام اور سائنس؟ اور ان کو سمجھ نہیں آئے گی، قانون ہے کہ جس کو سمجھنا ہو تو سمجھ کیلئے علم بھی چاہئے ہوتا ہے، اور اسلام اور اسلامی علوم، اسلامی تاریخ سے جن کو پرہیز کروایا گیا وہ بھلا کیسے سمجھیں گے۔ ان کو کنفیوژن ضرور ہو گی۔ ان کی مدد کیلئے ایک مثال پیش کیا دیتا ہوں۔ عالمی شہرت یافتہ پروفیسر تیجاتات تجاسن چیانگ مائی یونیورسٹی آف تھائی لینڈ کے شعبہ اناٹمی کا چئیرمین اور اسی یونیورسٹی کا فیکلٹی آف میڈیسن کا سابقہ ڈین ایک میڈیکل کانفرس میں پہنچا۔ تو اسے ایمبریالوجی کے مشہور سائنسدان پروفیسر کیتھ مور کے لکھے لیکچر کو سننے کا موقع ملا۔ اس لیکچر کا موضوع تھا کہ قرآن اور سنت میں جدید ایمبریولوجی کے بارے میں راھنمائی۔ پروفیسر کیتھ مور دنیا کے جدید ایمبریولوجی کے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں سے ایک تھا(قرآن و سنت سے راہنمائی حاصل کرتا تھا) پروفیسر تیجاتات تجاسن جو کہ خود ایک سائنسدان تھا، قرآن و سنت سے پہلی دفعہ واقف ہوا تھا ان ناموں سے، قرآن و سنت اور سائنس پر اس کو عجیب حیرت ہو رہی تھی۔ دیکھنے والے یہ نہیں جانتے تہے کہ یہ حیرت خوشی کی ہے اور یہ خوشی یہ حیرت پروفیسر تیجاتات تجاسن کو کیا عطا کرنے والی ہے۔ ڈرماٹولوجی پروفیسر تیجاتات تجاسن کی اپنی فیلڈ تھی ۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن نے قرآن و سنت کا نام تو سن لیا تھا، اب وہ واقفیت حاصل کر رہا تھا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن اپنی فیلڈ کا بادشاہ تھا، وہ یہاں آنے سے پہلے اپنی تحقیق کر چکا تھا۔ اس کی تحقیق تھی کہ انسان کو درد کا احساس جلد میں موجود ریسیپٹرز کی وجہ سے ہوتا ہے اگر کسی طرح سے جلد کو مکمل جلا دیا جائے تو درد کا احساس ختم ہو جائے گا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن اپنی اس تحقیق پر داد وصول کر چکا تھا۔ عالمی شہرت پا چکا تھا۔ سائنسی کانفرسوں میں رونق کی ایک وجہ وہ بھی ہوتا تھا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن قرآن و سنت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا رہا، مسلمانوں سے قرآن و سنت کے بارے میں علم حاصل کرتا رہا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن قرآن پاک کی سورۃ النساء کی آیت 56 کے حضور جا پہنچا۔
ترجمہ آیت نمبر56۔ جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انھیں بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ لیں بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔۔

پروفیسر تیجاتات تجاسن اس آیت کے ترجمے پر حیران رہ گیا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن نے قرآن پاک کا جو ترجمہ پڑھا تھا،اس ترجمے کو بھی مرما ڈیوک پکتھل، جارج ایلن نے مل کر لکھا تھا اور یہ ترجمہ پانچواں ایڈیشن تھا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن نے تسلیم کیا کہ 1400 سال پہلے یہ آیات/پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی انسان کی طرف سے بتانا یا پہنچانا ممکن نہ تھا۔ لیکن یہ بات، آیات/پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو 1400 سال پہلے کس نے بتائیں۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن کو بتایا گیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ علم/ پیغام 1400 سال پہلے اللہ(جلّ جلالہ) کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا ہے۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن حیران رہ گیا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن نے بے اختیار ہو کر پوچھا یہ اللہ کون ہے ؟ پروفیسر تیجاتات تجاسن کو بتایا گیا کہ اللہ وہ ہے جو تمام موجودات کا خالق ہے۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن کہ بتایا گیا کہ عقل کی بھی یہی گواہی ہے کہ یہ کلام/علم اس(جلّ جلالہ) کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا ہے۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن کو بتایا گیا کہ اگر وہ کائنات پر غور کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ یہ کائنات اس نے (جلّ جلالہ) بنائی ہے جو ایک ہے، سب کچھ جانتا ہے۔ ان تخلیقات پر غور کرے تو اسے محسوس ہو گا کہ یہ کسے ایک کی تخلیقات ہیں، جو سب کچھ جانتا ہے۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن نے یہ سب تسلیم کیا اور اس کے بعد پروفیسر تیجاتات تجاسن اپنے ملک واپس چلا گیا اور اس نے اپنے نئے علم اور دریافت ( قرآن اور سنت) کے بارے میں لیکچر دینے شروع کر دئے۔ اس کے لیکچر سن کر کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن اگلی بار میڈیکل کانفرس میں پھر شریک ہوا اور اس دفعہ یہ عالمی شہرت یافتہ اور انعام یافتہ سائنسدان ہر مسلم اور غیر مسلم سے قرآن اور سنت کے بارے میں ہی گفتگو کرتا رہا۔ چار دن بعد پروفیسر تیجاتات تجاسن کھڑا ہو کر سب لوگوں سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ میں اپنے مشاھدات اور مطالعہ سے ایک نتیجے پر پہنچا ہوں، مجھے یقین ہے کہ 1400 سال پہلے قرآن پاک میں جو کچھ بھی بتایا گیا ہے، سب سچ ہے،اور جو کچھ بھی بتایا گیا ہے ہم اس کو تحقیق سے ثابت کر سکتے ہیں۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن بولتا ہی جا رہا تھا۔ پروفیسر تیجاتات تجاسن نے لوگوں کو بتایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری طور پر پڑہے لکھے نہیں تھے، وہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سچے پیغمبر ہیں جنہوں (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہ سب سچ ہم تک پہنچایا جو اس(جلّ جلالہ) کی طرف سے ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کو عطا کیا گیا تھا، جو سب کا پیدا کرنے والا ہے اور سب کو پیدا کرنے والا اللہ (جلّ جلالہ) ہے، پروفیسر تیجاتات تجاسن نے سب کو گواہ بنایا، پھر پروفیسر تیجاتات تجاسن نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا اور سب کو بتایا کہ اس کیلئے زندگی میں سب سے ہم یہ ہے کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور وہ اب مسلمان ہے۔

تاریخ تو واقعات اور مثالوں سے بھری ہے لیکن یہ ایک منتخب واقعہ بھی ہم پر یہ حقیقت واضح کر رہا ہے کہ اسلام امام ہے سب کا اور ہر علم کا۔ جو اسلام سے وابستہ ہو جاتا ہے، اپنی ذات پر اسلام کی حکومت قرآن و حدیث کے مطابق قائم کرتا ہے، دنیا میں اس کو عظمت ملتی ہے۔، اس کی حکومت چلتی ہے۔ کم و بیش 1000 سال مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی، دنیاوی علوم کی ترقی اور تحقیق کے حوالے سے بیمثال کام کر دکھایا، یہ سب اسلام سے وابستگی کی برکتیں نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ جس نے اسلام کو جتنے شوق اور محبت سے اپنے پر طاری کیا، جدید سائنسی علوم بھی اتنے ہی اس پر آشکار ہو گئے۔ اس پر کائنات کے اسرار کھلتے ہی گئے، تو مناسب ہوگا۔ حیاۃالحیوان اور عجائب المخلوقات بھی اس کی زندہ مثالیں ہیں، یہ تقریباً 700 ہجری میں لکھی گئیں، آج 1431ہجری ہے۔ 731 ہجری کی کتابیں اور ایسی اور بہت سی تحقیقات دیکھیائیں اور اس دور کے وسائل کو دیکھیں تو یہی یاد آتا ہے کہ "مومن اللہ" کے نور سے دیکھتا ہے۔" اسلام کو جتنا اپنائیں گے اتنا ہی آگے جائیں گے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر اسلام سے والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ اسلام کی مایہ ناز ہستیوں کے حالات کے بارے میں لکھی گئی کتاب "تذکرۃالاولیا" ان کی پسندیدہ کتاب ہے۔ ایٹم بم بنا کر ہی دم لیا۔ پڑھے لکھے مسلمان تو دنیا میں اور بھی بہت تھے لیکن اسلام سے محبت بھی تو ایک شرط ہے۔ "تذکرۃالاولیا" پڑھنے والا آج خود بھی عظیم ہے۔ اس کی عظمت کو پاکستانی تو کیا دوسرے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میرے سامنے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے لیٹر پیڈ پر لکھی ڈاکٹر صاحب کی دستخط شدہ ایک تحریر ہے، جو ایک مہربان نے مطالعہ کیلئے دی ہے۔ یہ تحریر ڈاکٹر صاحب نے "ادارہ تحقیقات امام احمد رضا انٹرنیشنل "کو عطا فرمائی تھی۔ یہ تحریر امام احمد رضا فاضل بریلوی کے بارے میں ہے۔ اس تحریر کا کچھ حصہ یہ ہے کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے مسلمانوں کو دینی شعائر پر قائم رہنے کی تلقین کی اور اس کے ساتھ ساتھ ملسمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھی راغب کیا اور ایسے تمام علوم کو سیکھنے پر زور دیا جو فکری اعتبار سے دین اسلام سے متصادم نہیں ہیں۔ مسلمانوں میں دینی اور دنیاوی علوم کے فروغ کیلئے امام احمد رضا فاضل بریلوی کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ یہی نکتہ تو ہمارا بھی موضوع ہے کہ اسلام سے محبت کرو، اسی دین پر قائم رہ کر دینی اور دنیاوی علوم حاصل کرو۔ دین اسلام سے محبت اور وابستگی جدید دنیاوی علوم کے راز جاننے کا ذریعہ بن جائے گی۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کے بارے میں سچ ہی کہا ہے۔

امام احمد رضا فاضل بریلوی ایک سچے عاشق رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) اور اسلام کے پکے شیدائی تھے اور اسلام ہی کی برکت سے ان کو ہر فن پر، دنیاوی علوم پر دسترس حاصل تھی۔ علم توقیت میں اسقدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج دیکھ کر اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیتے۔ وقت بالکل صحیح ہوتا، کبھی ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔ علم ریاضی میں آپ یگانہ روزگار تھے، چنانچہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین جو ریاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تمغہ جات حاصل کئے ہوئے تھے۔ آپ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ ارشاد ہوا فرمائیے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا مسئلہ نہیں کہ اتنی آسانی سے عرض کر دوں۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے فرمایا، کچھ تو فرمائیے۔ وائس چانسلر صاحب نے یہ سوال پیش کیا تو امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اسی وقت اس مسئلے پر تشفی بخش جواب دے دیا۔ وہ حیران ہو کر کہنے لگے کہ میں اس مسئلے کیلئے جرمنی جانا چاہتا تھا۔ یہ ریاضی کے ماہر ان سے اتنے متاثر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم وصلٰوۃ کے پابند ہو گئے۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی جو اعلیٰ حضرت کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں، علم تکسیر، علم ہئیت، علم جفر میں بھی ماہر تھے۔ جدید الجبرا کے ایک اہم مضمون ٹایالوجی پر امام احمد رضا فاضل بریلوی کو عبور حاصل تھا اور ہزار سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ حاشیہ اصول طبعی، حاشیہ علم الہیت، حاشیہ شمس بازغہ، حاشیہ حدائق النجوم، حاشیہ برہندی وغیرہ وہ حواشی ہیں جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے دوسروں کی تصانیف پر لکھے۔ البرٹ۔ایف۔ پورٹا امریکہ کا مشہور میٹرولوجسٹ تھا، اس نے یہ پیشین گوئی کی کہ 17دسمبر 1919ء کو سیاروں کے اجتماع اور کشش کے سبب دنیا میں زلزلے اور طوفان پرپا ہوں گے۔ دنیا ایک قیامت صغریٰ سے دوچار ہو جائے گی، دنیا کے بعض علاقے نیست ونابود ہو جائیں گے۔ پورٹا کی اس پیشین گوئی سے امریکہ میں خوف پھیل گیا اور اس خوف نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن اسلام جن کا اوڑھنا بچھونا ہو اور جنہوں نے سائنس اور جدید علوم کو اسلام کی نظر سے جانا ہو، ان کی نظر حقیقت پر ہوتی ہے۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے ایک رسالہ " معین مبین بہر دور شمس و سکون زمین" 1338ہجری مطابق 1919 عیسوی میں لکھ کر فلکیاتی علم ہی سے پورٹا کی پیشین گوئی کو غلط ثابت کر دیا۔ دنیا نے دیکھا کہ اسلام کے ماننے والے کا علم سچا ثابت ہوا۔ ان کی خصوصیت پر غور کیجئے، خصوصیت ہے قرآن و سنت کے سچے پیروکار اور ان کی سائنس پر گرفت دیکھئے۔ قرآن کی گواہی کے ساتھ گردش زمین کے نظریہ کو سائنسی علوم کے دلائل کیساتھ غلط ثابت کیا ہے، ثابت کیا ہے کہ زمین ساکن ہے اور امام احمد رضا کو یہ علم قرآن و سنت کے ذریعے ملا ہے۔ کبھی سائنس کو بھی یہاں پہنچنا ہی ہے۔ اسلام کے متوالے اور شیدائی امام احمد رضا فاضل بریلوی نے "فوز مبین" میں باقائدہ نام لے کر آئزک نیوٹن، کوہر نیکس،کپلر،ہرشل،طوسی،بطلیموس کے نظریات کا رد اور ان کا علمی تعاقب کیا ہے،ابو ریحان البیرونی اور ارشمیدس کی تائید کی ہے۔ گلیلیو کے جمود اور کشش ثقل کے نظریات اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کا انہیں کے دلائل کی روشنی میں سائنسی رد کیا ہے اور تائید و حمایت حاصل کی ہے۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اسلام کو دل و جان سے اپنایا تھا اور یہ سب کچھ انہیں اسلام ہی کی بدولت ملا تھا۔ اس مضمون سے یہی سمجھنا سمجھانا مقصود ہے۔ ان علوم کو ان تحقیقات کو آگے بڑھانے کیلئے بھی اسلامی نظر، اسلامی سوچ اور اسلامی کردار کی ضرورت ہے، جو آج کے مسلمانوں نے کھو دیا ہے۔ اسلام کو اپنائیں لیکن دل و جان سے، اور دونوں جہانوں کی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹتے جائیں اور یہ اسلام نام ہے قرآن و سنت کا۔

اسلام گھر سے لے کر حکومت تک ہر مسئلے کا حل ہے، انسان سے لے کر جانوروں اور پرندوں تک کیلئے رحمت ہے، نگہبان ہے، زندگی کے ہر موجودہ اور قیامت تک آنے والے ہر مسئلے کے بارے میں کامل راھنمائی کرتا ہے، یہ حل ہے ہر مسئلے کا، بھوک اور غربت کا، بدامنی کا اور یہ اسلام عمل کرنے والوں کیلئے آسان ہی آسان ہے۔ کچھ لوگوں کی یہ بات بڑی عجیب ہے، کہ اب اسلام پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے۔ واہ، سب کچھ کرتے پھرتے ہیں لکین اسلام پر عمل نہیں ہو سکتا۔

جناب، عمل کیوں نہیں ہو سکتا، کرنے والے اب بھی عمل پر قائم ہیں۔ تاریخ گواہ ہے عمل بھی ہوا ہے اور کئی سو سال ہوا ہے، وہ بھی انسان ہی تھے، ہم بھی انسان ہیں، بس وہ اسلام سے محبت کرتے تھے اور آج ہماری زبان پر اسلام، جبکہ ہماری ذہنی اور عملی محبت غیر اسلام سے وابستہ ہے۔ ہمت کیجئے، آج سے کوشش شروع کیجئے، اسلام کو اپنے پر نافذ کیجئے۔ آپ کا گھر اور معاشرہ خود بخود اسلامی ماحول میں ڈھلتے جائیں گے۔ یقین کیجئے آپ پر اور ہم تمام پر برکتوں کا نزول ہوگا۔ جیسے ہمارے اسلاف پر ہوا تھا۔

اسلامی اصولوں پر عمل رب کریم، مالکِ ذُوالجلال، پیارے اللہ کریم جلّ جلالہ کی رضا کیلئے کیجئے، ابھی سے کوشش کیجئے۔ ہمارے پیارے پیارے آقا کریم، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو سیکھئے، ان پر عمل کیجئے، اسلام پر عمل ہوتا جائے گا۔ برکتوں اور رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے گا۔ نحوستوں سے جان چھوٹنا شروع ہو جائے گی۔

ہمارے پیارے پیارے آقا کریم، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں،زندگی گزارنے کے اسلامی قوانین میں بےشمار حکمتیں اور برکتیں ہیں۔

برکتوں سے بھرپور کچھ حکمتوں کی ایک جھلک آپ کیلئے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھ کر پڑھئے کہ ہمارے عمل کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں اللہ کریم جلّ جلالہ کی رضا کیلئے پیارے محبوب، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ دین، دین اسلام کے اصولوں کو اپنانا ہے۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہیں کہ اگر ہم ان صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان، مال، ماں باپ ،اولاد، بلکہ ہر شے سے زیادہ محبت نہ رکھیں تو ہم مسلمان نہیں ہو سکتے۔ سنتوں کی حکمتوں کے بارے میں جدید تحقیق ہو یا نہ ہو، ہم اس کے محتاج نہیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تو ہر صورت شوق اور خوشی کے ساتھ عمل کرنا ہی ہے، بالکل سیدھا راستہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ جو عمل سنت کے،اسلام کے خلاف ہے، اس میں ہمارے لئے نقصان ہی نقصان ہے۔ آج ماڈرن سائنس بھی اپنی حیثیت، مقام اور علم کے مطابق تحقیق کے بعد خلاف سنت اعمال،غیر اسلامی افعال کے نقصانات اور سنت پر عمل کرنے کے فائدے ہمارے سامنے لا رہی ہے اور یہ ہوتا ہی رہے گا۔

مسکرانا ہمارے پیارے پیارے آقا کریم، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے
اور واشنگٹن کے ماہرین آج کی تحقیق پڑھئے۔
(یہ خبرانٹرنیٹ پر آن لائن پڑھنے کیلئے اس لنک کو استعمال کریں۔) https://www.onlineurdu.com/?p=11142
ریسرچ۔واشنگٹن : بھرپور مسکراہٹ طویل عمری کا راز ہے۔ مسکراہٹ اور ہنسی ناصرف صحت مند زندگی کا باعث ہوتی ہے بلکہ طویل العمری کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ تفصیل کے مطابق امریکی ریاست مشی گن کے ماہرین نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کُھل کر مُسکرانا زندگی کے سالوں میں اضافہ کردیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دانت نکال کر ہنسنے سے آنکھوں کے گِرد پڑنے والی جھائیاں مثبت زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو لمبی عمر تک بہتر صحت کی ترجمانی ہے۔ 230 بیس بال کھلاڑیوں کی تصاویر، ان کی عمر، قد، وزن اور ازدواجی زندگی سے مرتب کیے گئے نتائج کے تحت خوشگواراور مسکراہٹوں سے بھرپور زندگی گزارنے والے کھلاڑیوں کی زندگی میں عام کھلاڑیوں کی نسبت سات سال کا اضافہ دیکھا گیا۔اس تحقیق کے ذریعے ماہرین نے ثابت کیا کہ مسکراہٹ ناصرف صحتمند زندگی کا باعث ہوتی ہے بلکہ طویل العمری کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔

حدیث شریف::: '' اللہ تعالیٰ جلّ جلالہ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر،اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بیچنے والے پر،اس کے خریدنے والے پر،اس کے پلانے والے پر،اس کے اٹھانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لئے اٹھا کر لے جائی گئی۔''

بدقسمتی سے شراپ پینا ہمارے معاشرے کا عام اور بہت سارے نام نہاد لوگوں کا پسندیدہ عمل ہے۔ پروفیسر ھرش نے شراب کے نقصانات پر ایک پوری کتاب لکھی ہے۔ اے ایف پی کی ماسکو سے 5جولائی 1958 کی خبر کے مطابق روس کے صدر خروشیف نے لینن گرڈ کے کارخانہ کروف میں مزدوروں کی مخاطب کرتے ہوئے کہا ، شراب ہماری مجلسی زندگی میں تباہ کن اثرات پیدا کر رہی ہے۔اس نے مزدوروں کی صحت کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔عائلی زندگی برباد کر دی ہے۔ جرائم کر رفتار تیز کر کے اقتصادی پیداوار کو خطرناک نقصان پہنچایا ہے۔ ہم اس کے خلاف جنگ لڑیں گے۔

حدیث شریف : '' جو نظروں کی حفاظت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان عطا فرمائے گا جس کی حلاوت وہ دل میں محسوس کرے گا۔""

آج ہمارے معاشرے میں ہم غیر محرم عورتوں کو چاہے وہ ٹی وی پر ہوں یا ہمارے سامنے، ہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں اور پھر کسی کی بہن اور بیٹی پر اپنے دوستوں میں بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں اور ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم کوئی جرم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر نکلسن ڈیوڈ ایک پروفیسر ہے۔ اس نے اپنے تجربات بتائے ہیں، کہتا ہے کہ نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں وہی جمتی ہیں پھر ان کا اچھا اور برا اثر اعصاب، دماغ،اور ہارمونز پر پڑتا ہے۔ بیوی، بہن اور ماں کے علاوہ کسی عورت کو دیکھنے سے ہارمونری سسٹم کے اندر خرابی میں نے دیکھی ہے۔ کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کا باعث بن جاتا ہے اور ہارمونری گلینڈز ایسی تیز، زہریلی رطوبتیں خارج کرتے ہیں جس سے تمام جسم درہم برہم ہو جاتا ہے۔

کھاتے پینے وقت بیٹھ جانا سنت ہے۔ لیکن ہم بدقسمتی سے شادیوں وغیرہ پر کھڑے ہو کر کھاتے پیتے ہیں۔
ڈاکٹر بلین کیور اٹلی کا ڈاکٹر ہے اور یہ ماہر اغزیہ ہے اس کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر غذا نہ کھاؤ۔ ایسا کرنے سے تم دل اور تلی کے مرض میں پھنس جاؤ گے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیٹھ کر کھاؤ اور کم کھاؤ کیونکہ کھڑے ہو کر کھانا نفسیاتی امراض پیدا کرتا ہے۔

کھانے کے بعد پلیٹ صاف کرنا سنت ہے۔
جدید سائنس کہتی ہے کہ کھانے کی پلیٹ یا برتن کے پیندے میں وٹامنز اور خاص طور پر کھانے میں موجود وٹامن بی کمپلیکس اور ایسے غزائی اجزا ہوتے ہیں، جو تمام کھانے میں کم اور اس پیندے میں
زیادہ ہوتے ہیں۔ اغزیہ میں موجود معدنی نمکیات تو صرف پیندے ہی میں ہوتے ہیں۔

پانی دیکھ کر، بیٹھ کر، تین سانس میں پینا، کھلے برتن میں پینا سنت ہے اور احادیث میں پیالے( پینے کے برتن) میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا ہے۔

اگر پانی کھڑے ہو کر پیا جائے تو ماڈرن سائنس کہتی ہے کہ معدہ اور جگر کی بیماریاں پھیلتی ہیں اور پاؤں پر ورم کا خطرہ رہتا ہے اور اگر پاؤں پر ورم شروع ہو جائے تو جسم کے باقی حصوں پر بھی ورم کا خطرہ ہوتا ہے۔ کھڑے ہو کر پانی پینے سے استسقاء کے مرض کا خطرہ ہے۔

اگر پانی تین سانسوں میں نہ پیا جائے اور ایک ہی گھونٹ میں پینے کی غلطی کی جائے تو معدے میں فوراً زیادہ مقدار میں پانی جانے سے اس کی کی سطحی اندرونی کیفیت میں انبساط یعنی پھیلاؤ ہوتا ہے۔ اگر یہ پھیلاؤ اوپر کی سطح پر ہو تو دل اور پھیپھڑوں کو نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر یہ دائیں طرف ہو تو جگر کو نقصان پہتچاتا ہے اور اگر یہ بائیں طرف ہو تو تلی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر یہ نیچے ہو تو آنتوں پر دباؤ پڑتا ہے۔

اگر پانی پیتے وقت پانی ہی میں سانس لینے کی غلطی کی جائے تو خطرہ ہے کہ پانی ناک کی نالیوں میں چلا جائے اور ورم کا باعث بنے یا سانس کی نالی میں جا کر گھٹن کا باعث بنے اور اس کے علاوہ یہ کہ انسان سانس لیتے وقت آکسیجن لیتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے، اندر سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بےشمار جراثیم ہوتے ہیں۔ پانی میں سانس لینے سے یہ جراثیم بھی پانی میں شامل ہو جائیں گے۔

ہمارے پیارے پیارے آقا کریم، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب رو بقبلہ ہو کر آرام فرماتے تھے۔

جدید میڈیکل ریسرچ کے مطابق اس سنت پر عمل نہ کرنے سے بھی انسان کو کئی قسم کے نقصانات کا خطرہ ہے۔ کیونکہ دل بائیں جانب ہوتا ہے اور اگر ہم بائیں یعنی الٹی جانب لیٹیں گے تو کیونکہ ہمارا دل الٹی جانب ہوتا ہے لہٰذا معدہ اور آنتوں کا بوجھ دل پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے دوران خون میں کمی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان کے دل اور معدے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

نوٹ : جب سو کر اٹھیں تو اس وقت بھی سیدھی کروٹ لے کر اٹھنا انسانی جسم کو نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔

اسلام میں عصر کے وقت کے بعد سے عشا تک سونے سے منع کیا گیا ہے۔

جدید تحقیق بتا رہی ہے کہ عصر کے بعد زمین کی گردش محوری اور گردش طولانی کے کم ہونے سے ایک خاص قسم کی گیس نکلتی ہے جس سے آدمی کے دل و دماغ پر ایک بوجھ اور وزن پڑتا ہے اگر یہی آدمی عصر سے عشا کے اوقات کے دوران سو جائے تو اس گیس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے یہ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اتنا بھی کافی ہے۔

ارشاد قرآن سورہ الاحزاب۔آیت 21
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ ۔۔۔ بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔

آئیے خرابیوں کو چھوڑ کر بہتری کی طرف چلتے ہیں۔ مسلمان کی نیت کو اس کے عمل سے بہتر فرمایا گیا ہے۔ نیت ہوگی تو تبھی باقی معاملات چلیں گے۔ آپ ابھی فوراً نیت کر لیجئے کہ آج ابھی سے اللہ تعالیٰ جلَّ جلالہ کی رضا کیلئے، پیارے آقا کریم، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور اپنی تعلیم، اپنا روزگار، اپنے تمام معاملات اسلام کے تابع کروں گا۔ انشاءاللہ جلّ جلالہ۔

میری طرف سے ایسی پیاری نیت کرنے پر، ہمت کرنے پر، بہتریوں کے آغاز پر مبارکباد قبول کریں۔ اللہ کریم جلّ جلالہ آپ کو اور مجہے استقامت عطا فرمائے۔ آمین۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117140 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More