امریکہ اب افغانستان سے نہیں
جائے گا۔ کیونکہ اب تک اس نے افغانستان میں جو سرمایہ کاری کی تھی اس کے
نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں ایسے معدنی ذخائر کا سراغ لگایا
گیا ہے۔ جو امریکہ کے اب تک ہونے والے سارے نقصانات کا ازالہ کردے گا۔ یہ
ذخائر اب سے پہلے معلوم نہیں ہوئے تھے۔ خیال یہ ہے کہ ان ذخائرسے افغان
معیشت کو تبدیل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان ذخائر کی مالیت کا اندازہ 1
ٹریلین امریکی ڈالر کا ہے۔ افغانستان میں معدنی ذخیرے کی تلاش کا کام خاصے
عرصے سے جاری تھا۔ امریکی حکام کے مطابق اس ذخیرے میں لوہا، تانبا، کوبالٹ،
سونے اور لیتھیم جیسے اہم صنعتی دھاتیں بہت بڑی مقدار میں ہیں اور بہت سی
ایسی معدنیات بھی ہیں جو جدید صنعت کے لئے ضروری ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ
بالآخر افغانستان کان کنی میں سب سے زیادہ اہم ملکوں میں سے ایک میں ہو
سکتا ہے۔ پینٹا گون کی ایک خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں
پتہ چلنے والے ذخائر میں لیتھیم جیسی قیمتی دھات ہے جو ،" لیپ ٹاپ اور
BlackBerrys کے لئے بیٹری کی تعمیر میں اہم خام مال. کے طور پر استعمال کی
جاتی ہے۔ افغانستان کے معدنی دولت کے وسیع پیمانے پر ملنے کی رپورٹ پر
پینٹا گون اورامریکی حکام اور امریکی ارضیات کے ماہر خوشی سے جھوم اٹھے ہیں۔
اس بارے میں افغان حکومت اور صدر حامد کرزئی کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔
افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکی اداروں کے مطابق ملک میں معدنیات
کے ذخائر کی مالیت ایک کھرب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں ایک چینی
کمپنی کی مدد سے تانبہ نکالنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ پینٹاگون، امریکی
ارضیاتی سروس اور امریکی امدادی تنظیم یو ایس ایڈ کے اندازے کے مطابق
افغانستان میں معدنیات کے ذخائر کی مالیت کم از کم نو سو ارب ڈالر کے قریب
ہے۔ امریکہ کے جیولوجیکل سروے کے مطابق ان معدنیات میں بڑی مقدار میں لوہے
اور تانبےکے ساتھ ساتھ قیمتی لیتھیم کے ذخائر شامل ہیں۔ افغانستان کی وزارتِ
معدنیات کے ترجمان جواد عمر کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں معدنیات کی اصل مالیت
کے بارے میں تو نہیں بتا سکتے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ
ملک کی ترقی میں یہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر معدنیات کو نکالا جاتا
ہے تو افغانستان خود کفیل ہو سکتا ہے، اور اسے کسی بیرونی امداد کی ضرورت
نہیں ہوگی۔ سروے سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق ملک میں موجود معدنیات
کی مالیت ایک کھرب ڈالر ہے۔ ملک میں موجود تمام معدنیات کا سروے نہیں کیا
گیا لیکن جو بھی دریافت ہوئیں ان کی مالیت ایک کھرب ڈالر ہے۔ صدر حامد
کرزئی کے ترجمان وحید عمر کا کہنا ہے کہ سروے سے حاصل ہونے والے نتائج کے
مطابق ملک میں موجود معدنیات کی مالیت ایک کھرب ڈالر ہے۔ ملک میں موجود
تمام معدنیات کا سروے نہیں کیا گیا لیکن جو بھی دریافت ہوئیں ان کی مالیت
ایک کھرب ڈالر ہے۔ تاہم یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس وقت یہ معلومات
منظر عام پر کیوں لائی گئی ہیں۔ امریکہ کے جیولوجیکل سروس نے افغانستان میں
موجود معدنیات کے ذخائر کے متعلق سال دو ہزار سات میں رپوٹ جاری کی تھی۔
امریکہ نے گزشتہ سال دسمبر میں ان معدنیات کی مالیت کا انداز لگا لیا تھا۔
اس کے بعد جون چودہ کو ایک کھرب مالیت کی معدنیات کی رپورٹ امریکی اخبار
نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تھی۔ بی بی سی کے جلِ میکگﺅرنگ کا کہنا ہے کہ
ایک ایسے موقع پر جب افغانستان اور وہاں قائم حکومت کی تنہائی میں اضافہ ہو
رہا ہے، یہ ظاہر کرنا کہ افغانستان میں بڑی تعداد میں سونے کے ذخائر موجود
ہیں، افغانستان کے مسئلے کے بین الاقوامی حل اور جنگ سے متاثر ملک کو قیمتی
انعام دینا ہو سکتا ہے۔‘دریافت ہونے والے ذخائر میں لیتھیم بھی شامل ہے جو
موبائل فون سے لیکر لیپ ٹاپ کی بیٹری میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی مستقبل
میں گاڑیوں کی بیٹریوں میں استعمال ہوگا۔ لوہا: چار سو اکیس ارب ڈالر،تانبہ:
ستائیس ارب ڈالر،کوبالٹ: اکیاون ارب ڈالر،گولڈ: پچیس ارب ڈالر،اس وقت
بولیویا کے پاس لیتھیم کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان
میں نیوبئیم کے ذخائر بھی موجود ہیں جو سٹیل کو مزید مضبوط کرنے میں
استعمال ہوتا ہے۔ معدنیات کی دریافت امریکی ارضیاتی سروس نے افغان حکومت کے
ساتھ مل کر کی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پینٹاگون کے حوالے سے
بتایا ہے کہ ’ افغانستان لیتھیم کا سعودی عرب‘ بن سکتا ہے۔ اس سے پہلے ہی
افغان صوبے لوغر میں ایک چینی کمپنی کی مدد تانبے کے ذخائر نکالنے کا
منصوبے بنایا گیا ہے۔ معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے ایک بڑے پیمانے پر
معدنیات کی صعنت لگانے کے لیے کئی سال درکار ہونگے اور ایسا کرنے کے لیے
امن کا موجود ہونا لازمی ہے، سرمایہ داروں کو سکیورٹی ضمانت دینا مشکل ہو
گا۔ بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ افغانستان نے معدنیات کی دریافت
کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ اسے شدت سے ترقی کی ضرورت ہے، لیکن معدنیات کی
دریافت مسئلے کا راتوں رات حل نہیں ہے۔‘معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے
ایک بڑے پیمانے پر معدنیات کی صعنت لگانے کے لیے کئی سال درکار ہونگے اور
ایسا کرنے کے لیے امن کا موجود ہونا لازمی ہے، سرمایہ داروں کو سکیورٹی
ضمانت دینا مشکل ہو گا۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی سٹریٹجک
اہمیت بڑھتی ہے تو افغانستان میں امریکہ سمیت خطے کے ممالک چین اور بھارت
اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ
انٹرنیشنل سٹڈی میں سینئر ریسرچ فیلو سٹفیفن سانوک کا کہنا ہے کہ افغانستان
میں معدنیات نکالنا آسان کام نہیں ہے۔’ ان کے خیال میں ایسی کوئی مثال
موجود نہیں ہے کہ افغانستان جیسے ملک میں جہاں فوجی کارروائی چل رہی ہے
وہاں سے ایسی معدنیات کو نکالا جا سکے۔‘انھوں نے کہا کہ ’افغانستان میں نہ
صرف مواصلات کا بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں بلکہ ان کے پاس قوانین بھی نہیں
جو سرمایہ داروں کو راغب کر سکیں، روزگار کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے جس کی
مدد سے ایک لمبے عرصے تک شدت پسندی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔‘ |