اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ
ہم سے سوال کیا جارہا ہے کہ کتاب سے آشنائی کیسے ہوئی؟کوئی بتلائے کہ ہم
بتلائیں کیا ؟ یہ دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہّ ہے۔ ابھی تین سال
کے ہی ہوئے تھے کہ ابّا نے الف سے انار اور ب سے بکری والا رنگین قاعدہ ایک
چھوٹے سے بستے میں رکھ کر ہمارے گلے میں ڈال کر محلے کے ایک چھوٹے سے اسکول
میں ہم سے پوچھے بغیر بھیجنا شروع کردیا۔ قبول کرنا پڑا اباّ جا ن کا حکم
تھا۔ پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ شام کو مولوی صاحب کے حوالے کردیا گیا وہی
الم لشررح لک صدرک کی صدائیں بغددادی قاعدہ اور یسرناالقرآن ھذاکتا ب’’ کا
ورد شروع ہوگیا۔ بہن بھائی سب ہم سے بڑے تھے برادر خورد ہونے کا ہرلمحہ
مزاچکھتے رہتے تھے۔ ایسے میں ایک امّاں ہی تھیں جو ہماری گلوخلاصی میں کبھی
کبھی ہماری چُھٹی کروادیتی تھیں۔
نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ کراچی میں اسکولوں کی تعداد بہت کم ۔ ابّا کو کسی
نے مشورہ دیا کہ گھر پر ایک اسکول قائم کرلیں محلے کے بچے بھی پڑھ لکھ
جائیں گے اور آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔ سو ایسا ہی ہو ا دیکھتے ہی
دیکھتے صبح اور شام ڈھیروں بچے پڑھنے آنے لگے۔ ابّا کے ساتھ دونوں بہنوں
اور منجھلے بھائی نے بھی معلّم کے فرائض انجام دینے شروع کردئے یوں آٹھویں
جماعت تک چھوٹا سا اسکول گھر پر ہی قائم ہوگیا۔امّاں کے حصہ میں بچوں کے
پہاڑے آئے۔ گھر۲ ایکن ۲ اور ۲ دونونی چار کی صداؤں سے گونجنے لگا۔ ایسے میں
کیسے ممکن تھاکہ ہماری شناسائی مولوی محمد اسمعیل میرٹھی کی پہلی دوسری اور
تیسری کتاب سے نہ ہوتی محلے کے بچوں نے تو بعدمیں یاد کیا ہم نے تیسرے دن
ہی نظم ’’رب کا شکر ادا کر بھائی‘‘ اور ’’اری چھوٹی چیونٹی تو بڑی عاقلہ
ہے‘‘یاد کر کے سب کو حیران کردیا ۔
ہمیں بہ دستور محلے کے اسکول میں بھی بھیجا جاتا رہا اور پھر ہمیں نئے بنے
ہوئے گورنمنٹ اسکول جیل روڑ میں چھٹی جماعت میں داخلہ مل گیا یہ اس علاقے
کا بہترین ہائی اسکول تھا جہاں اس زمانے میں کھیل اور میوزک کا پیریڈ
باقاعدگی سے ہوتا تھا۔ نئے دوست بنے اور ہم اسکول میں داخل ہو کر بہت خوش
ہوئے اردو ہماراپسندیدہ مضمون تھا اور پھر صباّ متھراوی جیسا استاد ملا جو
ہر ہفتے کلاس میں بیت بازی کی مشق کرواتا تو زندگی اور بھی حسین ہوگئی اور
کتابوں سے شناسائی دن دونی اور رات چوگنی بڑھتی رہی آٹھویں جماعت میں
پہنچنے پر ہمیں بس میں بیٹھ کر صدر تک جانے کی اجازت مل گئی جس کے راستے
میں ناز سینما کے سامنے ڈپولائن میں امیریکن سینٹر کی لائبریری قائم تھی
وہاں کا راستہ مجھے میرے ایک ہم جماعت ابن حیدر نے دکھایا اور ہم دونوں اس
کے ممبر بن گئے اور کتابیں گھر پر لانے لگے۔جو کتابیں میں نے وہاں سے گھر
پر لاکر پڑھیں اس میں ابراہام لنکن اور تھامس ایلوا ایڈیسن اوعر جامن
فرینکنکن کی سوانح حیات پڑھ کر بہت مزا آیا اسکے علاوہ اُس لابئریری کی
ممبر شپ کی وجہ سے ان کا خبرنامہ Panorama اور سیربین بھی گھر پر بذریعہ
ڈاک مفت آنے لگا تھا۔کچھ عرصے بعد ہم نے ’’ووکس لائبریری‘‘ کی ممبر شپ بھی
حاصل کرلی۔ یہ روسی مرکز اطلاعات جہاں بہت عمدہ رسالے موجود تھے۔یہ
ایلفنسٹن اسٹریٹ( موجودہ زیب النساء اسٹریٹ) پر بہت خوبصورت ریڈنگ روم تھا
جو بعد میں فرینڈ شپ ہاوس کے نام سے کہیں اور منتقل ہوگیا تھا۔ یہاں روس کے
بارے میں معلوماتی کتابیں اور رسالے پڑھنے کو ملے۔
اسکول میں داخلے کے ساتھ ہی ابّا نے بچوں کے دوماہنامے’’ تعلیم و تربیت‘‘
اور’’ کھلونا دہلی‘‘ میرے لئے لگوادئیے تھے کھلونا سے اچھا بچوں کا رسالہ
آج تک میری نظر سے نہیں گزر ا اس کے سرورق پر ایک جملہ لکھا ہوتا تھا ’’آٹھ
سے اسّی سال تک کے بچوں کے لئے‘‘ اور واقعی بچوں سے زیادہ اسے بوڑھوں کو
شوق سے پڑھتے دیکھا۔ ہمارے گھر کا ماحول نہایت تعلیمی اور ادبی تھا تمام
بہن بھائی اپنی پڑھائی کے علاوہ کتابوں اور رسالوں کے رسیا تھے خاص طور پر
منجھلے بھائی کے پاس اخبار اور رسالوں کا بہترین ذخیرہ تھا جس میں اردو میں
نقوش نیا دور، ادب لطِیف، ساقی، رومان، سویرا اردو ڈائجسٹ،جبکہ انگریزی میں
ریڈرز ڈائجیسٹ، فلم فیئر، اسکرین اور لائف شامل تھے ۔ یہ تمام رسالے میرے
لئے شجر ممنوعہ تھے۔ چوری چھپے پڑھنے پر پٹائی بھی ہوسکتی تھی اس لئے یہ
کام بہت احتیاط سے کرنا پڑتا تھا۔ لیکن یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ اب ہم ان
کتابوں اور رسالوں کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ کورس کی کتابوں میں بھی
پسندیدہ اور ناپسندیدہ کی درجہ بندی ہر وقت ذہن میں رہتی اور اسی رحجان کے
تحت یہ انتخاب آج بھی جاری ہے۔ کالج میں پہنچے تو نئی ٹیکسٹ بکس کا سامنا
کرنا پڑا تو اندازہ ہو ا کہ ہم نے سائنس کا مضمون لیکر غلطی کردی۔ بہر حال
اب سامنا تو کرنا تھا اردو، انگریزی، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان ہمارے
پسندیدہ، فزکس کیمسٹری گوارہ اور ریاضی ناپسندیدہ مضمون ٹھہرا۔ لہذا ریاضی
کو چھوڑ کر باقی مضامین سے مناسب تعلقات قائم ہوگئے اور ہم پاس تو ہوگئے
لیکن ریاضی میں نمبر کم ہونے کی وجہ سے گریڈ اچھا نہیں بنا۔
کالج میں پہنچتے پہنچتے ہم نے اردو اور انگریزی ادب میں کافی کچھ پڑھ لیا
تھا۔ اور یہی مشغلہ ہر دم جاری رہا۔ لیکن گھروالوں کواس کی خبر تب ہوئی جب
کالج میگزین میں ہماری ایک غزل شائع ہوئی۔ بہرحال یہ خاموش اطلاع بہت زیادہ
پسندیدگی سے نہیں دیکھی گی اور ہمیں بتایا گیا کہ سائنس کے طالب علموں کو
بہت سمجھداری سے اسٹڈی کرنا ہوتا ہے اور غیر ضروری کتابوں سے دور رہنا پڑتا
ہے۔ کیونکہ ان کتابوں کے پڑھنے سے اصل پڑھائی سے دور ہوجانے کا امکان رہتا
ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب سائنس کی درسی کتابیں کم پڑھی گئیں تو نتیجہ بھی خاطر
خواہ نہ نکلا بی ایس سی پا س کرنے کے بعد سائنس کو ترک کرکے آرٹس کی طرف رخ
کرنا پڑا۔ آج اندازہ ہوتاہے کہ بڑوں کی رہنمائی کم عمر طالب علموں کے لئے
کتنی ضروری ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں جب لائبریری سائنس میں داخلہ ہوا تو بی
ایس سی کی کٹھن پڑھائی کے بعد یہ مضمون بالکل حلوہ محسوس ہوا اور ہم نے
زمانہ طالب علمی میں پڑھائی کے ساتھ یونیورسٹی لائف کو زیادہ انجوائے کیا۔
اور دیگر سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا جس میں اسٹڈی ٹورز اور کانفرنس میں
شرکت میں زیادہ مزا آیا ماسٹرز کے دوسال کیسے گزر گئے کچھ پتہ بھی نہ چلا
بس یہ ضرورہوا کہ کتابوں کے لئے برٹش کونسل لائبریری اور امریکن سینٹر کے
چکر زیادہ لگانے پڑے۔ درحقیقت ان اداروں کے پروگراموں میں شرکت سے مجموعی
قابلیت میں یقینی اضافہ ہوا اور جو تعلیم ہم نے یونیورسٹی میں حاصل کی اسکا
شخصیت پر مثبت اثر ہوا۔
ابھی رزلٹ آیا ہی تھا کہ ہمارا تقرر یونیورسٹی لائبریری میں کیٹلا گر کے
طور پر ہوگیا اور ہمیں ٹیکنکل سیکشن میں تعینات کیا گیا یہاں کتابوں کی
درجہ بندی کا کام شیخ ابراہیم کی راہنمائی میں شروع کیا۔ ہر روز نئی کتابوں
سے واسطہ رہتا پسندیدہ کتابوں کے پڑھنے کا موقع خودبخود میّسر ہوگیا بے
شمار اچھی کتابیں اس زمانے میں پڑھ ڈالیں۔ کچھ دن بعد میرا تقرر شعبہ
لائبریری سائنس میں بطور جزوقتی استاد بھی ہوگیا تب اپنے مضمون کی بہت سی
کتابیں اور رسالوں سے واسطہ رہتا۔ یوں معلومات اور علم دونوں میں خاطر خواہ
اضافہ ہوا۔ پیشہ ورانہ علم میں اضافہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو
ہمیشہ جاری رہتاہے سو یہ تو جاری ہے۔اور انشااﷲ جب تک حیات ہے جاری رہے گا۔
اب رہا سوال ذاتی ذخیرہ کا جی ہاں تھوڑی بہت کتابیں میرے پاس ہیں جن میں
بیشتر اردو ادب کی ہیں کچھ رسالے مثلاً نقوش، سیپ ،سویرا اور نیا دور شامل
ہیں۔ نگار کا ماجدولین نمبر بہت سنبھال کر رکھاتھا لیکن ایک کرم فرمالے کر
گئے تھے آج تک واپس نہیں لائے۔جن کتابوں نے ذہن پر بہت مثبت اثر چھوڑا ان
میں ماجدولین کے علاوہ شوکت صدیقی کی خدا کی بستی اور عبداﷲ حسین کی باگھ
نقوش کا غزل نمبر اور خطوط غالب بھی میرے مطالعے میں مستقل رہتاہے۔ انگریری
ادب کا شوق چند اچھے ناولوں سے آگے نہیں بڑھا۔میں گھر پر کتابیں ذخیرہ کرنے
کا حامی نہیں کتابیں لائبریری میں ہی اچھی لگتی ہیں زیادہ لوگ پڑھ لیتے ہیں
اور انکی نگہداشت بھی اچھی طرح ہوجاتی ہے۔ جو کتاب لائبریری سے لا کر پرھی
جاتی ہے وہ جلد پڑھنا پڑتی ہے کہ اسے واپس بھی کرنا ہوتا ہے۔ذاتی ذخیرہ کی
کتابیں بھی آخری وقت میں کسی کتب خانے کو ہی دینی پڑتی ہیں ورنہ بعد میں
اولادیں یا لواحقین ردی والے کو دے دیتے ہیں اور یہی کتابیں فٹ پاتھ کی
زینت بن جاتی ہیں۔
کتاب کی اہمیت اور مقام پر دورائے ہوہی نہیں سکتیں اور کتب خانے کتابوں کی
ترسیل گاہ جہاں کتابیں لوگوں کو بلاتا خیراور بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔
یہاں پروفیسر رنگاناتھن کیوں نہ یاد آئیں جنہوں نے کتابوں اور کتب خانوں کے
بارے میں نہایت سنہیرے اصول مقرر کئے مثلاً کتابیں سب کے لئے ہر قاری کے
لئے کتاب اور ہر کتاب کے لئے قاری اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو کتب
خانوں سے کوئی قاری محروم نہ جائے۔ |