ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ خوف
انسانی شخصیت کو مسخ کرتا ہے او ر اس سے جسم انسانی میں بہت سی پیچیدگیاں
جنم لیتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جب بھی لوگوں کو مذہب کی طرف مائل کرنا مقصود
ہو تو انہیں خدا سے بہت ڈرایاجاتا ہے۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے لوگوں کو
اتنا زیادہ خدا سے ڈرایا جاتا ہے کہ مولانا الطاف حسین حالی کو کہنا پڑا کہ
واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
ڈر خدا سے نہیں بلکہ اس کے حکم کی نافرمانی سے پیدا ہونے والے نتائج سے ہو،
تاکہ حکم عدولی سے بچا جائے اور وہی کچھ کیا جائے جو رب نے کہا ہے۔ اپنے رب
سے محبت کا یہ عالم ہو کہ اس کی رضا کے کو اپنی رضا بنا لیا جائے۔ قرآن
حکیم جو امراض نفس کے یا دور جدید کی اصطلاح میں نفسیاتی امراض کو انسانی
شخصیت سے دور کرتا ہے وہ اہل ایمان کے تمام خوف اور دلوں میں چھپی
پریشانیاں دور کردیتا ہے ۔ ۔خوف اور حزن سے وہ ہی مبرا ہوسکتا ہے جس پر کسی
کا دباؤ نہ ہو اور وہ آزاد منش ہو۔قرآن حکیم اس پر شاہد ہے کہ اﷲ کے دوستوں
کو کوئی خوف یا حزن نہیں ہوتا۔ حزن اُن انجانے خدشات کا نام ہے جن سے دل
پریشان ہوکہ کہیں یہ نہ ہوجائے۔ بندہ مومن ایسی پریشانیوں سے آزاد ہوتا ہے۔
حکم ہوتا ہے کہ سن رکھو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور
نہ وہ غمناک ہوں گے(سورہ یونس ۶۲)۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
از غلامی فطرتِ آزاد را رْسوا مکن تا تراشی خواجہ از برہمن کافر تری
وہ فرماتے ہیں کہ غلامی سے اپنی آزاد فطرت کو رسوا نہ کر۔ جب تک معبود
گھڑتا رہے گا، برہمنوں سے بڑھ کر کفر کرے گا ۔ حکیم الامت مزید فرماتے ہیں
کہ
ماسوی اﷲ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونی سرش افکندہ نیست
مطلب یہ کہ رب کا بندہ ہے یعنی مسلماں کبھی بھی غیر کا بندہ نہیں نہیں
ہوسکتا اور وہ کسی فرعون کے آگے وہ شرمندہ نہیں ہوتا۔علامہ اقبال کی تابندہ
یادیں کے عنوان سے ڈاکٹر ندیم شفیق کی لاجواب کتاب ہے اس میں وہ علامہ کے
حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’یاد رکھو غم اور خوف یہ دونوں
چیزیں ایسی ہیں کہ خودی کو تباہ کردیتی ہیں اور ایک مسلمان جب تک ان دو
عیبوں سے پاک نہ ہوجائے حقیقی معنی میں مسلمان نہیں ہوسکتااور ان کے ازالے
کی صورت یہ ہے کہ انسان ، توحید الہی کو اپنے دل میں پختہ کرلے بایں طور کہ
شک دل میں راہ نہ پاسکے۔ یعنی اسے یقین ہوجائے کہ جب تک خدا نہ چاہے ، کوئی
طاقت مجھے نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ پھر اس کے دل میں نہ حزن راہ پاسکتا ہے۔
اگر غیر اﷲ کا خوف کسی درجے میں بھی دل میں موجود ہے تو خودی کبھی ہرگز
نہیں ابھر سکتی‘‘۔ مزید فرمایا کہ ہم جملہ مظاہر فطرت سے ڈرتے ہیں۔ زلزلے
سے، آگ سے، امراض سے، سانپ سے ، تاریکی سے، شیر سے وغیرہ۔ محض اس لئے کہ ہم
موت سے ڈرتے ہیں لیکن اگر ہمیں یہ یقین ہوجائے کہ موت ایک مرحلہ ہے جس سے
کے بعد ہی روحانی ترقی حاصل ہوگی۔ موت زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ وہ
دروازہ ہے جس میں سے ہو کر ہم نئی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اور موت بھی
زندگی ہی کی ایک شان ہے۔ اگر ہم یہ یقین کرلیں کہ کائنات میں یا میں ہوں یا
خدا ہے ، تیسری کوئی ہستی نہیں ہے تو پھر خوف کیسا ؟ ہم مومن تب ہی بن سکتے
ہیں جب خدا کے سوا کسی کا وجود ہماری نگاہ میں نہ سمائے۔
ایک مومن کے لیے موت ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے اور وہ خندہ پیشانی سے موت
کا استقبال کرتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۹۴ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ بندہ
مومن تو موت کا آرزو مند ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ مرد
مومن موت کا مسکراتے ہوئے استقبال کرتا ہے۔
نشان مرد مومن باتو گویم چو مرگ آید تبسم بر لب اوست
اپنے آخری لمحات میں رسول اﷲ ﷺنے فرمایا تھا کہ میں اپنے سب سے اعلیٰ رفیق
کے پاس جارہا ہوں ۔ موت تو آپؐ کی سنت ہے جسے کیا خوبصورت انداز میں احسان
دانش نے یوں کہا کہ دانش میں خوف مرگ سے بالکل ہوں بے نیاز میں جانتا ہوں
کہ موت ہے سنت رسول کی
علامہ اقبال موت کے بارے میں فرماتے ہیں۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
موت ، تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
جو اپنی خودی کی نشوونماکرتا ہے اور اُسے بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے تو
اُسے موت بھی نہیں مارسکتی۔ اس نقطہ کو حکیم الامت نے وضاحت کے ساتھ بتا
دیا کہ
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خو د ی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی
مر نہ سکے
پنجاب کے عظیم صوفی شاعر بھی کہہ گئے کہ بْلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں گور پیا
کوئی ہور |