زکراں نے' ایک مرتبہ اپنے خاوند کی شدید
علالت اور اس کے ہوش میں آنے پر' بلاتیمارداری اور زبانی کلامی ہی پوچھے
بغیر' بڑا حیرت انگیز بیان جاری فرمایا۔ جو دو حوالوں سے بڑی اہمیت کا
حاملہ ہے۔ اس کے بیان سے' یہ کھل کھلا کر سامنے آ جاتا ہے
بیمار ہونے کا بھی ایک مخصوص پیمانہ ہے۔
موجودہ میڈیکل سائینس کی ترقی' محض ایک فراڈ سے زیادہ نہیں اور میڈیکل سے
متعلقین کی' موج لوائی کا ٹیکنیکل بہانہ ہے۔
اس نے بصد قہر مع غضب ارشاد فرمایا
تم نے ڈرامہ رچایا ہے۔ تمہیں تو کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ دیکھو بیمار میرے ابا
جنت مکانی ہوئے تھے' میرے ابا بیمار ہوئے تو چل بسے۔
اس کا مطلب یہ ہوا' جو بیمار ہونے کے بعد بچ جائے' وہ بیمار ہی نہیں ہوتا'
وہ صرف اور صرف بیمار ہونے کا ڈھونگ مچا رہا ہوتا ہے۔ اگر بیمار ہوا ہوتا'
مر نہ جاتا۔ بیماری کے بعد موت نہیں آتی تو بیماری' بیماری ہی نہیں' حقوق
سے فرار کی ناکام کوشش ہے۔ خاوند حضرات پر لازم آتا ہے کہ وہ' زوجاتی حقوق
سے فرار کی بجائے کاروبار کی راہ پکڑیں۔
اگر بیمارہونے کا اتنا ہی شوق روح و قلب و بھیجا میں مچلتا ہو تو' زکراں کے
والد کی پیروی میں' قبر کو بھی خدمت کا موقع دیں تا کہ بیوہ پر' لوگوں کو
مختلف نوعیت کے ترس کھانے کے مواقع میسر آ سکیں۔
|