پورے یورپ میں اُن دنوں یہ لطیفہ مشہور
تھا،ایک شخص کتابوں کی دوکان پرگیا۔اس نے کہامجھے فرانس کاآئین چاہئے۔
دوکاندار نے غصے سے کہا کہ میں رسالے نہیں بیچتا جن میں ہرماہ نئی باتیں
آجاتی ہیں۔ٹھیک یہی زمانہ تھا جب فرانس کے سیاسی منظر نامے پرایک انمٹ نقوش
چھوڑنے والی شخصیت ڈیگال کا طلوع ہوا۔
ادیبوں،شاعروں اور تاریخ نگاروں کے خاندان میں ڈیگال نے ۲۰نومبر۱۸۹۰ء کوجنم
لیالیکن حیرت ہے کہ ایسے خاندان کے فرد میں شروع ہی سے فوج میں جانے کی لگن
تھی۔وہ۱۹۱۳ء میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہواتوجنگِ عظیم اوّل کے شعلے لپکنے
لگے۔ڈیگال اس جنگ میں تین مرتبہ زخمی ہوااوردوسال آٹھ ماہ تک جنگی قیدی بھی
رہا۔اس دوران اس نے پانچ مرتبہ جیل سے بھاگنے کی کوشش بھی کی۔جنگ ختم ہوئی
تواس پرخاندانی ادبی میراث کاجادوچڑھ گیااوراس نے کتابیں لکھناشروع
کردیں۔اس نے نظریہ دیا کہ اب زمانہ گزرگیا جب لاکھوں انسانوں کی فوج رکھی
جاتی تھی۔ایک چھوٹی اور بہترآرمی زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ اس کی تصنیف نے
سیاستدانوں کواپناہمنوا بنالیا مگرجرنیل اس سے ناراض ہوگئے۔اس وقت تک وہ
کرنل کے عہدے پرترقی کر چکاتھا۔
۱۹۴۰ء میں جنگِ عظیم دوم چھڑی تواسے عارضی بریگیڈیئرجنرل بنادیاگیا۔یہ اس
کی فوج میں آخری ترقی تھی کیونکہ اسے وزارت ِ دفاع میں انڈر سیکرٹری لگا
دیاگیااورفرانس کے اقتدارپرمارشل پیٹن نے قبضہ کرلیا۔ڈیگال سے اسے پرانی
عداوت تھی،اسے اس کی اصلاحات میں عوام کی حکمرانی کی بوآتی تھی۔ ڈیگال لندن
بھاگ گیا لیکن ۲اگستءکوایک فوجی عدالت نے اس کوغیرحاضری میں سزائے موت
سنادی۔انگلستان فرانس کااتحادی تھا اس لئے ڈیگال پروہاں بھی عرصہ حیات تنگ
کردیاگیااس لئے ایک دن وہ بڑی خاموشی سے الجزائربھاگ گیااوروہاں فرانس کی
آزادی،جمہوریت اوربہترمستقبل کے خواب دیکھنے لگا۔اس نے وہاں ملک بدرکابینہ
تشکیل دی۔جنگ ختم ہوئی توفرانس کے عوام جومارشل پیٹن سے تنگ آئے ہوئے تھے ،انہوں
نے ڈیگال اوراس کی کابینہ کوفرانس آنے کی دعوت دی۔
یہ لوگ ۹ستمبر۱۹۴۴ءکوپیرس آئے،اسے پارلیمنٹ نے اقتداردیامگرچونکہ یہ ایک
مشروط اقتدارتھااس لئے وہ اپنے اصلاحات کے خواب پورے نہیں کرسکتا تھا،اس
لئے اس نے صرف ایک سال بعداستعفیٰ دے دیااوراپنی سیاسی پارٹی بنا لی۔
اسے۱۹۵۱ء میں پارلیمنٹ میں۱۲۰سیٹیں ملیں مگراکثریت نہ تھی۔اس کے حامی اسے
ایک انقلاب یاعقبی دروازے سے اقتدارمیں لاناچاہتے تھے مگراس نے انکارکر
دیااورپھر وہ ایک دن۱۹۵۶ءمیں لوگوں کے ووٹوں کے ذریعے اقتدارمیں آیااوربارہ
سال تک فرانس پرحکومت کرتارہا۔ایک ایسے ملک میں جہاں سیاست کیمونسٹوں
کوپسندکرتی تھی اوراسے فوجی سمجھتے تھے اورفوج والے اسے اپنا باغی خیال
کرتے تھے۔
ڈیگال اپنی اصلاحات کے ایجنڈے پرعمل درآمدکررہا تھا،اس نے فرانس کومعاشی
استحکام دیا۔اسے امریکا اوربرطانیہ کی پالیسیوں سے آزادکیالیکن اس کی تمام
تر پالیسیاں اس کی ذات کے گردگھومتی تھیں۔پارلیمنٹ اس کے خلاف بولتی تووہ
اسے رَدکردیتا۔ اس کے میڈیا کے نمائندے پورے فرانس کویہ تاثر دے رہے تھے کہ
اگرڈیگال فرانس کی حکومت سے الگ ہوگیاتو فرانس میں کوئی بھی ایسانہیں
جوحکومت سنبھال سکے۔ یوں اپنی ذات میں بنداوراپنی اصلاحات کے تسلسل میں مگن
ڈیگال نے پارلیمنٹ ۳۰مئی۱۹۶۸ء کوتوڑدی۔ ادھرلوگوں میں یہ رائے عام ہوگئی کہ
ڈیگال ساری قوم کوجاہل سمجھتا ہے اوراپنے آپ کوعقلِ کل۔ ڈیگال آئین
بدلناچاہتاتھا۔صدرکومضبوط سے مضبوط ترکرکے اپنی اصلاحات کے ایجنڈے کوآگے
بڑھاناچاہتاتھا۔ اسے پارلیمنٹ کے سیاستدان ناپسندتھے،اس نے۲۰اپریل ۱۹۶۹ءکوان
اصلاحات کیلئے ریفرنڈم کروایا۔ اسے۵۲٪فیصد ووٹ ملے،اس نے اس موقعے پر ایک
خوبصورت بات کی کہ کسی ملک پرایک آدمی کی رائے اور اصلاحات نافذکرنے کیلئے
یہ تعدادبہت کم ہے۔اسے اس وقت پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہنگامے نظرآرہے
تھے۔اسے فیصلہ کرناتھا،فرانس کااستحکام زیادہ عزیزہے یااس کاایجنڈہ؟اوراس
عظیم شخص نے ریفرنڈم کے اگلے دن استعفیٰ دے دیااوراپنے چھوٹے سے قصبے کے
چھوٹے سے مکان میں لوٹ گیا۔ڈیگال نے نقارۂ خداپڑھ لیاتھاتواسے یقین
ہوگیاتھا کہ اس کے دماغ میں جواصلاحات کاتسلسل ہے وہ عوام کاخواب نہیں
اورجو چیزعوام کاخواب نہ ہووہ دیرپانہیں ہوتی لیکن ہم اس میراث کے وارث ہیں
جہاں حکمراں اپنے خواب کودیرپاکرنے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ انہیں عوام کی
آنکھوں میں غصہ،زبان پراحتجاج اور دماغوں میں پلنے والی نفرت کااحساس تک
نہیں ہوتا۔ ہمیں ایوب خان کی طرح بقول الطاف گوہر پتہ اس وقت چلتا ہے جب
گھر کے لان میں پوتے پوتیاں عوام کی دیکھادیکھی معصومیت میں ایوب ہائے ہائے
اور ایوب.........کے نعرے لگتے ہیں۔ہم کبھی نقارۂ خلق کو ملک سے غدّاری
قرار دے دیتے ہیں اورملک کھو نے کے بعدہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔ہمیں
توپرائمری اسکول میں پڑھاہواوہ فقرہ بھی بھول جاتاہے کہ نقارۂ خلق کو آوازِ
خدا سمجھو۔جب تک حکمران اپنی سوچ کوآوازِ خدا سمجھتے رہتے ہیں انہیں پوری
قوم جاہل،ان پڑھ،گنوار اورسمجھ بوجھ سے عاری نظر آتی ہے خواہ ان کی اکثریت
یہ فیصلہ ہی کیوں نہ دیدے کہ ہمیں آپ کی عقل ودانش سے اپنی جہالت کااطمینان
بہترلگتا ہے۔ہم تسلسل کاخواب دیکھتے رہتے ہیں،ڈیگال کی طرح ملک کوحادثے سے
نہیں بچاتے بلکہ حادثے کو آواز دیتے رہتے ہیں۔
میں نے۲۷مئی کوکالم بعنوان''بہت ہوچکا''میں بڑی صراحت کے ساتھ تحریرکیاتھا
کہ میاں صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریرمیں میدان مارلیاہے اوراب
اپوزیشن کومتفقہ ٹی آراوطے کرنے کیلئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیاگیا ہے ۔اس
معاملے پر گرماگرم بحث ابھی جاری ہے کہ میاں صاحب کے نورتن خواجہ آصف
جوگفتگوکے بارے میں نہ صرف خاصے منہ پھٹ بلکہ انتہائی غیرمحتاط ہیں،ایک
مرتبہ پھراسی اوچھی حرکت کامظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں محترمہ شیریں
مزاری کے بارے میں نازیباالفاظ استعمال کرکے ایک نئی بحث کو جنم دے دیاہے
کہ جس کے بعدپاکستان کے انتہائی شریف النفس سابق وزیراعظم ظفرجمالی نے ایسی
اسمبلی سے مستعفی ہونے کی دہمکی دے ڈالی ۔ملک کے سب سے بڑے پارلیمانی فورم
میں دہری وزارت کامزہ لینے والے فردکی ایسی گفتارکے بعداب ضروری ہوگیاہے کہ
انہیں آدابِ محفل اورخواتین سے بات کرنے کا ڈھنگ سکھانے کیلئے فوری
طورپرکسی ایسے ادارے میں داخل کرایاجائے جہاں ان کی تربیت ہوسکے لیکن خدشہ
اس بات کاہے کہ کوئی بھی ادارہ ایسا خطرہ قبول کرنے کیلئے تیارنہیں
ہوگا!کہیں ایساتو نہیں کہ اس ڈرامے کے پیچھے قوم کی اصل مسئلے سے توجہ
ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اب ملک کی لوٹی ہوئی دولت کاہرحال میں حساب
ہونا چاہئے!
اب نقارۂ خلق کا طبل بج چکا ہے بس آوازِخدا کا انتظارہورہا ہے!رہے نام
میرے رب کاجس کے گھر میں دیرتوہے مگراندھیرنہیں!!!
|