ماہِ رمضان اپنی رحمتوں ،مسرتوں ،عظمتوں ،برکتوں
کے لحاظ سے ایک مثالی مہینہ تسلیم کیاجاتاہے دنیاوآخرت کی تمام تر خوشیاں
اورنوازشاتِ ربانیہ کی تمام تر بنیادیں اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔ رمضان
المبارک ایک عصیاں شعار مردمومن کے لیے وجہِ مغفرت ہے ،پژمردہ قلوب کے لیے
سامانِ فرحت وانبساط اور حق پرست وحق آگاہ نفوس کے لیے تجلیات وانوار
کاآئینہ خانہ ہے۔یہ تمام خوبیاں اﷲ عزوجل نے اس پاکیزہ مہینے کو عطافرمائی
ہیں اور اپنے بندوں کو بے شمار انمول انعامات سے نواز نے کاوعدہ
فرمایاہے۔اس ماہِ مبارک میں بندۂ مومن پوری آزادی ،دل جمعی ،ذوق وشوق،امیدو
آس اور سوزِ دروں کے ساتھ اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں سجودِنیاز لٹاتاہے ،اپنی
جبینِ نیاز جھکاتاہے ،رحمتِ الٰہی کو خود سے قریب کرنے کی کوشش میں
لگارہتاہے ،اپنے گناہوں کی معافی کاخواستگار ہوتاہے ،دل کی طہارت اور نفس
کی نظافت پر پورادھیان دیتاہے اور عرفانِ ذات کے حصول کے لیے اپنی تمام تر
توانائیاں صرف کردیتاہے تو رحمتِ الٰہی پرجوش ہوکر اس کااستقبال کرتی ہے
اور اس بندۂ خداکے تمام مطالبات کی تکمیل کاپروانہ ربِ عزوجل اپنے خصوصی
فضل وکرم سے عطافرماتاہے ،اس کی دعائیں مقبولِ بارگاہ ہوتی ہیں ،اسے گناہوں
پر معافی ملتی ہے ،اسے طہارتِ قلب کاسامان فراہم کیاجاتاہے اوراسے نفس کی
پلیدگی اور فکر کی بے راہ روی سے نجات ملتی ہے۔ یہ اس ماہِ مبارک کی خصوصی
برکات ہیں۔
یہی وہ مبارک وپاکیزہ مہینہ ہے جس میں اﷲ عزوجل نے امتِ محمدیہ علی
صاحبہاالتحیۃ والثناء کی ہدایت ونجات کاقانون قرآنِ عظیم نازل
فرمایا۔ارشادباری تعالیٰ ہے:شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ
الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرہ:
۲،آیت :۱۸۵)
رمضان کامہینہ جس میں قرآن اترالوگوں کے لیے ہدایت اور رہ نمائی اور فیصلے
کی روشن باتیں۔(کنزالایمان )
اس آیتِ مبارکہ کے اندر رمضان کے پاکیزہ مہینے کابڑاواضح تصور پیش
کردیاگیاہے جس میں کسی طرح کی کوئی پیچیدگی اور کسی طرح کاکوئی خفاباقی
نہیں رہا۔آیت کے تحت صاحب ِ تفسیر خزائن العرفان صدرالافاضل حضرت علامہ
سیدنعیم الدین مرادآبادی رقم طراز ہیں :
’’اس کے معنی میں مفسرین کے چند اقوال ہیں (۱)یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان
وشرافت میں قرآنِ پاک نازل ہوا (۲)یہ کہ قرآنِ کریم میں نزول کی ابتدا
رمضان میں ہوئی(۳)یہ کہ قرآنِ کریم بتمامہ رمضانِ مبارک کی شبِ قدر میں لوحِ
محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتاراگیا اور بیت العزت میں رہایہ اسی آسمان
پر ایک مقام ہے۔یہاں سے وقتاًفوقتاًحسب اقتضائے حکمت جتناجتنامنظور ِالٰہی
ہواجبریل امین لاتے رہے ۔یہ نزول تیئس سال کے عرصے میں پوراہوا-‘‘(تفسیر
خزائن العرفان )
قارئین کرام !قرآنِ عظیم کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں غور وتدبر سے
معلوم ہوتاہے کہ یہ کتابِ مقدس نہ صرف ہدایت ورہنمائی اور حکمت وموعظت
کاسرچشمہ ہے بلکہ کامیابی اور ہر طرح کے فیصلوں کی تمام تر روشن باتوں اور
بنیادی نکات ودفعات کاقابلِ وثوق حوالہ بھی ہے۔اس آیت کااسلوبِ بیان اس
حقیقت کی طرف اشارہ کرر ہا ہے کہ کسی انسان کو کامل ہدایت یافتہ انسان کب
کہاجائے گا جب وہ اپنی زندگی کے تمام تر فیصلے قرآنِ کریم سے حاصل کرے گا
اور قانونِ الٰہی کو محکم حَکَم تسلیم کرے گا۔آپ خیرالقرون کے روشن تاریخی
حالات وواقعات پڑھیں اور صحابۂ کرام وتابعین کے ادوار کاجائز ہ لیں تو یہ
حقیقت ماننی پڑے گی کہ انہیں دنیاوآخرت کی بے پناہ عزتیں ،سرفرازیاں،کامیابیاں
،اور رضوانِ الٰہی کابھاری بھر کم انعام اس لیے ملاکہ انہوں نے قرآن ِکریم
کو فیصلے اور قانون کی کتاب مان کر اپنی عملی زندگی میں اس کامظاہر ہ
فرمایااور زندگی کے ہرموڑ پر رہ نمائی قرآنِ عظیم سے حاصل کی اور احادیثِ
نبویہ وکردارِ مصطفوی نے ان قرآنی فیصلوں اور قوانین ِربانیہ کی تفصیلات
پیش کیں جن کی روشنی میں قرآن کریم پرعمل کی راہیں مزید آشکارہوگئیں اور وہ
دور،دورِترقی کہلایااسے زمانوں میں بہترین زمانہ قراردیاگیا۔
اب ہمیں سنجیدگی سے سوچناہے کہ کیا ہم بھی ایساکررہے ہیں ؟کیا ہماری
زندگیاں انہیں روشن اصولوں پر قائم ہیں ؟حیاتِ مستعار کے مختلف لمحات میں
کیا ہم قرآنِ کریم کے فیصلے کااحترام کرتے ہیں؟یاقرآنِ کریم کے واضح فیصلوں
پر اپنی رائے کو ترجیح دے رہے ہیں ؟کیازندگی کے اندرپیش آمدہ مسائل کے حل
کے لیے قرآنی فیصلے کاانتظار کیاجاتاہے یاصرف صدیوں سے چلے آرہے غیرشرعی
اور غیراخلاقی رسم ورواج اور سماجی وخاندانی طریقہ ہائے کار کو ناقابل
تردید سمجھ بیٹھے ہیں ؟آخر ہماری زندگی میں انقلاب کیوں نہیں برپاہوتا؟ہم
اپنے دین ومذہب کے حوالے سے روحانی آسودگی کیوں محسوس نہیں کررہے ہیں ؟جب
ہمارا دین ایک آفاقی دین ہے ہماری شریعت ایک مکمل شریعت ہے ، ہمارا قرآن
ایک اٹل قانون ہے اور یہ قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل اور الجھنوں
کاازالہ و حل پیش کرتاہے۔اس کی دفعات ونکات انتہائی اہم اورموزوں ترین ہیں
جس میں کسی قسم کی کمی وبیشی کی گنجائش نہیں تو کیا ہمارے طرز ِعمل سے
ہمارے دین ومذہب کی یہ ہمہ گیریت اور قرآن کی معنویت وگیرائی واضح ہوتی ہے
؟یادانستہ ونادانستہ ہم دنیاکویہ باور کرارہے ہیں کہ ہماراقرآن دورِجدید کے
تمام ترفتنوں کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتایاتمام لاینحل مسائل کاحل
پیش نہیں کرتایامقتضیاتِ زمانہ کے لحاظ سے اس میں لچک دار قوانین موجود
نہیں ہیں یاانسانوں کو اس دور میں ذہنی آسودگی فراہم کرنے کی قوت نہیں
رکھتا؟اعتقاد یات، سماجیات ،اقتصادیات ،صنعت وحرفت ،شادی بیاہ ،طلاق وخلع
،آپسی لین دین ،تعلیم وتعلم، صلہ رحمی، اتحاد ،تکلم وبیان،تحریر
وتقریر،معاملات ومعمولات وغیرہ مختلف جہات میں اگر ہم نے قرآنِ کریم کو
اپنافیصل نہ تسلیم کیااور احادیثِ مبارکہ وسیرتِ نبویہ کو ان کی تفصیلات
کابنیادی ماخذنہ ماناتووہی ہوگا جو ڈاکٹر محمد اقبال نے کہاہے ۔ع
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
عقائدِ اسلامی میں ہماری ناپختگی او ربدمذہبوں سے میل جول ،اتحادو وداد
،عبادات میں غیر معمولی تساہلی ،شادی بیاہ میں حددرجہ اسراف وفضول خرچی
،طلاق وخلع میں ا سلامی فتاویٰ وشرعی فیصلوں کو شبہے کی نگاہ سے
دیکھنا،آپسی لین دین میں بدنظمی وبدعہدی ،تعلیم وتعلم میں سستی وغفلت ،صلہ
رحمی واتحاد میں بے توجہی وغیرہا۔یہ سارے امور ایسے ہیں جو ہمیں عروج
وارتقاکی منزل کاراہی نہ بننے دیں گے بلکہ سراسر فکر ی نارسائی ،تہذیبی
خستگی ،دینی وملی پسپائی کاپیش خیمہ ثابت ہوں گے ،ہماری تجارت میں فروغ
حاصل نہ ہوگا ،ہماری صنعت ترقی پذیر نہ رہے گی ،ہمارے خیالات میں شفافیت
اور بلندی نہ پیداہوگی اور ہم حیاتِ تازہ کے نرم خرام جھونکوں کامزہ لینے
کو ترس جائیں گے۔
جوقوم اپنے تہذیبی ورثے کی حفاظت نہیں کرپاتی اورجو اپنی مذہبی شعائر کے
تحفظ میں سستی کامظاہرہ کرتی ہے وہ اپنی شناخت کھودینے کابہت بڑاگناہ
کربیٹھتی ہے اور پھر اپنی عظمت ِرفتہ کی بازیافت اس کے لیے بڑی مشکل
ڈگرثابت ہوتی ہے ۔کیاہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ بدمذہبیت کے سیلاب نے
ہماری نئی نسل کو کسی قدرمذہب بیزاراور مسلک فروش بنادیا ہے ،دین وشریعت
میں غیر معمولی سہولت دینے کارجحان کس طرح شرعی اصولوں کومسخ کررہاہے ،کیا
ہماری مذہبی شاخت خطرات میں گھر ی ہوی نہیں ہے ؟
صحابۂ کرام، تابعین ِعظام، تبع تابعین ،ائمۂ مجتہدین ،علماے ذوی الاحترام
،مشایخِ طریقت ،سلاسل کے بزرگان دین اور مجددِین امت نے ہمیں جوراہ دکھائی
ہے وہی دین وشریعت کی راہ ہے۔رسولِ اعظم علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اور صحابہ
وتابعین نے جو مسلک ہم تک پہنچایاہے جو ائمۂ مجتہدین سے ہوتاہو اشاہ
عبدالحق محدث دہلوی،شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ،شیخ احمدسرہندی مجددالف ثانی
اورامام احمدرضاقادری بریلوی علیہم الرحمۃ والرضوان کی تحقیقاتِ ا نیقہ کے
ذریعے ہمیں ملاہے اس پرمضبوطی سے جمے رہنااوراس کواپنے خاندان
اوردیگرافرادِقوم میں منتقل کرناہماری بہت بڑی ذمے داری ہے جس پرہمیں پوری
توجہ مبذول کرنی ہے اﷲ عزوجل ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے ،آمین۔
ماہ رمضان اور قرآن فہمی
غارِحرامیں سب سے پہلی و حی اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ نازل
ہوئی اورفَسْـَٔلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
میں علم سیکھنے کی ضرورت واہمیت پرزوردیاگیا۔قرآنِ حکیم نے علم والوں سے
دریافت کرنے کاحکم دیاہے اوروحیِ اول میں تعلیم وقراء ت کی جانب واضح اشارہ
موجودہے ۔ قرآنِ کریم ہمارے تمام مسائل کابنیادی حوالہ اوراسلام وشریعت
کااہم ماخذہے اس لیے دین میں تصلب ، شریعت پراستحکام اورمذہبی اقدارکے تحفظ
کے لیے قرآنِ کریم کوسمجھنا،اس کاعلم حاصل کرناہمارے لیے بے حدضروری ہے اس
لیے عزوجل نے ہمیں بڑامبارک مسعوداورقابلِ اکرام ،موزوں ترین اورنفع بخش
مہینہ رمضان عطافرمایاہے جس کے استقبال کے لیے ہمیں پوری تیاری کرنی ہے
۔ماہِ رمضان دراصل ایک روحانی تربیت کانتیجہ ہے جس میں اﷲ عزوجل نے ا س کے
لیے بڑااچھاانتظام کیاہے کہ ایک بندۂ مومن ان تمام خصائلِ حمیدہ اورعاداتِ
کریمہ سے آراستہ ہوجائے جوتقوی وطہارت قلب کی شرطِ اولین ہیں ۔روزے کی
فرضیت کابنیادی مقصدشجرتقویٰ کی آبیاری اوراس کے برگ وبارکی حفاظت ہے۔
قرآنِ کریم اس حقیقت کی شہادت فراہم کرتاہے ۔ سرکارِدوعالم صلی اﷲ تعالیٰ
وسلم نے ارشادفرمایاہے کہ اس ماہ کااول رحمت ،وسط مغفرت اورآخری حصہ جہنم
سے آزادی ہے ۔رحمت ،مغفرت اورجہنم سے آزادی میں ایک فطری ربط پایاجاتاہے
۔ایک بندۂ خداجب رحمتِ الٰہی کاطلب گارہوگااس کے لیے بنیادی وسائل
کااستعمال کرے گااورپھربخشش کامتمنی ہوگاتوبہ واستغفارکے ذریعے اپنے گناہوں
کی معافی طلب کرے گاتویقینی طورپرفضلِ ربانی سے وہ دوزخ سے آزادی کاپروانہ
حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔روزے کی فرضیت کاثبوت قرآنِ عظیم سے ہے اس
کے فضائل وبرکات احادیثِ نبویہ سے معلوم ہوتے ہیں۔سرکارِدوعالم صلی اﷲ علیہ
وسلم ارشادفرماتے ہیں:من صام رمضان ایماناواحتساباغفرلہ ماتقدم من ذنبہ
جوشخص ایمان اوراحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے گاتواس کے گزشتہ گناہ
بخش دیے جائیں گے۔ (بخاری شریف:ص:۲۵۵،ج :۱)
اس حدیثِ مبارک میں لفظ’’ احتساب‘‘اپنے اندرایک جہان ِ معنی رکھتاہے، رمضان
کاروزہ،ایمان کی پختگی اوراپنی سالانہ کارکردگی کے حساب وکتاب کے ساتھ
رکھاجائے تواس کے ثمرات عجب ہی برآمدہوتے ہوں گے ۔خوداحتسابی بہت بڑاوصف
اور انسان کی ترقی وعروج کازینہ ہے ۔گزشتہ زمانے میں بندۂ مومن نے کیا کیا
کھویا، کیاکیاپایا؟اس پرسنجیدگی سے غوروفکرکرنے ، غلطیوں سے سبق لینے اوران
کی مناسب اصلاح کے بعدجومنضبط لائحہ عمل تیار کرے گااوراس کی روشنی میں
اپنے معمولات ومعاملاتِ دینیہ ودنیویہ کی انجام دہی کی فکرکرے گاتووہ
یقیناکامیابی سے ہم کنارہوگا۔اسے دنیاوآخرت کی سرخروئی نصیب ہوگی اسے
روحانی سکون حاصل ہوگا اور وہ نفس کی شہوات پرقابوپائے گا۔
بے شماراحادیثِ مبارکہ میں ماہِ رمضان المبارک کی تعظیم واکرام کاحکم
دیاگیاہے اوررمضان کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ
’’جب رمضان کامہینہ آتاہے توجنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔(بخاری شریف:
ص: ۲۵۵، ج:۱ )
دوسری حدیث میں ہے:جب ماہ رمضان آتاہے توآسمان کے دروازے کھول دیے جاتے
ہیں،جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں اورشیطان کوقیدکردیاجاتاہے۔
(بخاری شریف:ص:۲۵۵،ج:۱)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:جب رمضان کامہینہ آتاتوحضورصلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایاکرتے کہ تمہارے پاس ایک مقدس ماہ کی آمدہوگئی ہے
۔
(مسنداحمدبن حنبل:ص:۱۵۸،ج:۳)
ماہِ رمضان میں بندۂ مومن آفاتِ ارضی وسماوی سے محفوظ رہتاہے اسے پوری دل
جمعی اورخشو ع وخـضوع کے ساتھ عبادات کرنے کاموقع نصیب ہوتاہے اس مقدس ماہ
میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کابڑاخوبصورت وقت ملتاہے چوں کہ اس مہینے
کوتلاوتِ قرآنِ کریم سے بڑاگہراربط ہے اس لیے کہ یہ نزولِ قرآن کامہینہ ہے
۔حضورسیدِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اورمہینوں کے مقابلے اس مہینے میں
قرآنِ مقدس کی زیادہ تلاو ت کرتے تھے۔
گزشتہ سطورمیں ہم نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیاکہ روزہ روحانی صحت کاضامن
ہے وہ جسم کوروحانی غذافراہم کرتاہے ساتھ ہی جسمانی قوت میں بھی اضافے
کاباعث ہے اورا س کے سائنسی فوائدسے بھی قطعاً انکارنہیں کیاجاسکتااس لیے
جملہ عباداتِ مالیہ وبدنیہ میں کسی بھی اعتبارسے ظاہری وباطنی ،جسمانی
وروحانی نقصان کاتصوریک سرختم کردیاگیاہے۔ایک بندہ ٔ مومن جب روزے کی حالت
میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرتاہے توقرآن کے انواروبرکات اورروزے کی روحانی
تجلیات اس پرنچھاورہوتی ہیں۔اس وقت وہ ہرطرح کی مادی خواہشات سے بالکل عاری
ہوتاہے ہوائے نفس اس کے قریب نہیں پھٹکتی اسے روحانی سکون بھی ملتاہے
اورابدی سعادت سے بھی بہرہ ورہوتاہے ۔ایسے حسین ماحول اورپرسکون وقت میں
تلاو تِ قرآن کے ساتھ فہمِ قرآن پرتوجہ دینابڑاآسان ہوجاتاہے تلاوت میں
تولذت وسرورحاصل ہوتاہی ہے اگراسی وقت قرآن ِکریم کی معنیاتی فضاکے خوش
گوارجھونکوں کامزہ بھی مل جائے تویہ سونے پرسہاگے جیساہوگا۔
چوں کہ ہم دنیاوی کاروبارمیں اس درجہ مشغول ہیں کہ ہم بمشکل ہی نمازوں کے
لیے وقت نکال پاتے ہیں۔تلاوتِ قرآن کی جانب کوئی توجہ نہیں ہوتی فہمِ قرآن
کے متعلق کیادھیان آئے گا؟اس لیے رمضان کے پاکیزہ مہینے میں اگراس طرف
تھوڑی توجہ مبذول کی جائے اورقرآن کوسمجھ کرپڑھنے کاجذبہ پیداکیاجائے
توہمارے ایمان میں پختگی کے ساتھ جلال وجمالِ خداوندی کاحیرت انگیزنظارہ
بھی دیکھنے کومل سکتاہے ۔قرآن کااسلوبِ بیان ،اس کارنگِ اعجازاورقصص وامثال
کے بیان کااچھوتااندازمردِمومن کے دل کی دنیابدل ڈالے گا۔یہ تواحسان ہے
چودھویں صدی ہجری کے عظیم المرتبت اورعبقری مجددامام احمدرضاقادری اوران کے
شاگردِرشید حضور صدر الشر یعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہما الرحمہ کاکہ
کنزالایمان جیسا ایمانی وعرفانی ترجمۂ قرآن امت ِمسلمہ کومل گیاورنہ فہمِ
قرآن کے لیے جوزحمتیں اٹھانی پڑتیں وہ بیان سے باہرہے ۔اس کے لیے
معتبرومستندتفاسیرکابھی مطالعہ کیاجاسکتاہے اوریہ بھی نہیں
ہوسکتاتوباقاعدگی کے ساتھ درسِ قرآن اوردرسِ تفسیروحدیث کی محفل میں شرکت
کریں اور فہمِ قرآن میں جد وجہد کریں ۔قرآنِ عظیم نے جہاں اپنے بارے میں
حکم اور فیصل ہونے کی وضاحت پیش کی ہے وہیں صاحب ِقرآن رسول اﷲ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے فیصلوں کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ آپ جو فیصلہ
فرمادیں دل وجان سے تسلیم کیاجائے ذرہ برابر دل میں غبار نہ رکھا جائے
۔(سورۂ نسا:۶۵)وہ فیصلہ فرمادیں تو کسی کو اختیار نہیں۔ (توبہ:۱۲)
پروفیسر مسعود احمد نقش بندی لکھتے ہیں :
’’ہم قرآنِ کریم نہیں دیکھتے ،ہم قرآنِ حکیم نہیں پڑھتے ،سنی سنائی پر یقین
کرلیتے ہیں ،بہت بھولے ہیں ،جب قرآن ِکریم ہر چیز کاروشن بیان ہے اور ہر
بات کی تفصیل موجود ہے تو یہ قرآنِ کریم سے کیوں نہ پوچھاجائے ادھر ادھر
کیوں بھٹکتے رہیں؟ایک ایک کامنہ کیوں تکتے رہیں؟کوئی کچھ بتاتاہے کوئی کچھ
،دل الجھ کررہ جاتاہے دماغ پراگندہ ہوجاتاہے ،متاع عشق ومحبت بربادہونے
لگتی ہے ،جب وہ بربادہوگئی توپھرکیارہ جائے گا-‘‘(مقالہ تعظیم وتوقیر،
مطبوعہ: کولکاتا ، ص: ۳)
اس لیے اس رمضان میں ہم ایمان واحتساب کے ساتھ روزے رکھیں،قرآنِ کریم کی
تلاوت بھی کریں اورقرآن پڑھنے اورعلم والوں سے سیکھنے کی کوشش بھی کریں ۔ان
شاء اﷲ ہم ضروراپنے اندرتبدیلی محسوس کریں گے- |