صفدر بےفیضا اور امریکی سازش

اسے اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا۔ دور دور سے لوگ' علمی و ادبی تعاون کی حصولی کے لیے تشریف لاتے۔ وہ بساط بھر' ان کی خدمت کرتا۔ مثل معروف چلی آتی ہے' کہ بھلے سے بھلے پڑی ہے۔ وہ اپنی زوجہ ماجدہ سے اس ذیل میں' مار کھا گیا۔ بلا کی زبان طراز تھی۔ عموم میں' ایک سانس' انتالیس منٹ خصوص میں' اس کی زبان بردازی کی کوئی حد ہی نہ تھی۔ وہ وہ پلوتے تولتی' کہ شیطان کی رگ وجان سے واہ واہ کے کلمے نکل جاتے ہوں گے۔ ہر سائز کے' زنانہ و مردانہ آلات کے بخیے ادھڑ اکھیڑ کر رکھ دیتی۔ گرج اور گونج دار برس' آںجہانی والد مرحوم سے ورثہ میں پائی تھی۔ الله انہیں بخشے نہ بخشے' الله کی مرضی‘ جب بولتے دھرتی کانپ جاتی۔ ہاں البتہ اپنی عزت کی جگہ' بےغم صاحب کی سرکار میں بھ بھیڑ ہو جاتے تھے۔ بیٹی کچھ کم نہ تھی۔ آج رانی توپ ہوتی' تو گرج برس کے معاملات میں' بصد احترام اس کے قدم لیتی۔ اس کے برعکس اس کا میاں کسکتا تک نہ تھا۔ وہ اپنی آواز کی گرج برس میں ہیچ قسمتی سے خوب آگاہ تھا۔ ڈھول کے سامنے توتی کی آواز' مسکین کی میں میں سے کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔

بڑے بڑے قلغی بردار' کسی کاغذ پر تقریری پوائنٹس لکھ کر لے جاتے ہیں اور پھر جا کر' تقریر کرتے ہیں۔ کہیں سیکڑوں اور کہیں ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے۔ زکراں جی کا کمال یہ ہوتا ہے' کہ انہوں نے پہلے سے کچھ نہیں لکھا ہوتا' سب موقع پر بولتی ہیں۔ رہ گئی مجمع کی بات ‘ ان کے مقولات و مغلظات سے' پورا علاقہ حظ آلود ہو رہا ہوتا ہے۔ جوان لڑکے لڑکیوں میں' بالغ ہونے کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ خالہ کپتی اگر آج زندہ ہوتی' تو عش عش کر اٹھتی کہ علاقہ میں جانشین' اس کی بھی پیو ہے۔

جو بھی سہی' وہ پنجابی کی ترقی میں اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہی تھی۔ پنجابی کو نئے مرکبات' مہاورات' تشبیہات' عصری تلمیحات' مختلف نوع کے عصری حوالے' لفظوں کو نئے مفاہیم وغیرہ فراہم کر رہی تھی۔ بےشک یہ بہت بڑی علمی خدمت ہے' جس کے لیے باطور پنجابی' اسے اس کا احسان مند رہنا چاہیے

باسابقہ لفظ بےبنیادا' جسے رحمان بابا نے بڑے اہتمام سے استعمال کیا تھا' کمال کی روانی میں بک جاتی۔ ان پڑھ ہو کر بھی اتنا باریک و عمیق مطالعہ' حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اگر صفدر عقل مند ہوتا تو سڑنے کڑنے کی بجائے' اس پنجابی در نایاب کی لفاظی اور لفظوں کی نشت و برخواست پر غور کرتا' تو بہت کچھ سیکھ سکتا تھا۔ پورے پنجاب میں' ایک سے ایک بڑھ کر بولار ہو گی' لیکن یقین کامل ہے کہ اس سی پہونکی' ڈھونڈے سے نہ مل سکے گی۔

میں محسوس کر رہا ہوں' مرچیں شاید کچھ زیادہ ہو چلی ہیں۔ نمک اور دیگر مصالحوں کی اشد ضرورت ہے۔ اچھا اور پرذائقہ پکوان وہ ہی ہے' جس میں ناصرف نمک مرچ متوازن ہوں' بل کہ دیگر مصالحے بھی متناسب ہوں۔ محترمہ نے فقط چار شوق پال رکھے ہیں۔

کھانا‘ کھانے میں مصالحے اور نمک مناسب ڈالتی ہیں ہاں البتہ مرچوں پر زور رکھتی ہیں۔ زور بھی ضرورت سے زیادہ۔ اتنا زیادہ کہ اوپر نیچے سے' پسینے کے چشمے جاری و ساری ہو جاتے ہیں۔
سونا‘ خوب سوتی ہیں۔ سوتے میں' صفدر اور اس کے متعقین کو' لغویات سے سرفراز فرماتی ہیں۔
پھڈا‘ پھڈے کے معاملہ میں' اس کا موقف گرامی ہے' کہ باوجہ پھڈا' پھڈا نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق موڈ سے ہے۔ ایک موڈ اور کیفیت میں نہیں رہا جا سکتا' اس لیے پھڈا ناگزیر ہے۔
چوتھا شوق ڈیش ڈیش ڈیش
اہل اخگر یا گوڈویا نما اس ڈیش ڈیش کی تفہیم سے آگاہ ہوں گے۔

صفدر شروع سے' امریکی قیادت کے حق میں نہیں رہا' تاہم وہ دنیا کے ہر شہری کی' عزت کرتا ہے۔ موجودہ واقعے' جس میں امریکی شہری نے' ہم جنسوں پرستوں کو جہنم رسید کیا' کے متعلق اس کا موقف ہے' کہ وہ امریکہ اور اس کے شہری کا معاملہ ہے' کسی اور کا بھلا اس سے کیا لینا دنیا۔ اسے شہری بنانے کے لیے' سرکاری سطع پر نائی نہیں بھیجا گیا ہو گا۔ وہ مسلمان ہے' اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مسلمان تو دنیا کے ہر خطے میں آباد ہیں۔ یہ ہی صورت دیگر مذاہب سے متعلق لوگوں کی۔ اگر کوئی عیسائی غلطی' خرابی یا اپنے نظریے کے خلاف کی' سرزنش کرتا ہے تو اس کا مدا' مسلمانوں پر کیسے ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر کسی نے' ایسا کرنے کے لیے قاصد بھیجا ہے' تو اس مدے پر بات کرنا بنتی ہے۔

کچھ سال پہلے' صفدر کی بہن نے' زبردستی یہ رشتہ کرایا تھا۔ صفدر بار بار منع کرتا رہا' تو اس کی بہن نے جوابا کہا: تم نبی ہو جو بلادیکھے اور جانے' نہی کا فتوی جاری کر رہے ہو۔
اب وہ ہی' ڈرتی صفدر کی گلی سے گزرتی تک نہیں۔ سوئے اتفاق' آ جائے تو کسکتی تک نہیں۔ اپنی اصل میں بات کوئی اور ہے۔ امریکہ سے بغض و عناد' اسے لے ڈوبا ہے۔ یہ پتھر پر لکیر ہے کہ یہ درپردہ امریکی سازش ہے کہ زکراں کو' صفدر کے گھر میں پلانٹ کرنے میں' اس کی اپنی بہن کو استعمال کیا گیا۔ حیضرت امریکہ بہادر کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔ صاحب جاہ کے ہاتھ ہمیشہ سے لمبے رہے ہیں۔ آج حیضرت امریکہ بہادر کے چرنوں میں سر رکھ دے' دودھ ملائی ملے گی' ڈالر بھی ملیں گے۔ ضمیر کا کیا ہے' ہزاروں سال سے بکتا آ رہا ہے۔ بک رہا ہے' بکتا رہے گا۔

کائنات ضدین پر استوار ہے۔ صبح کے ساتھ شام' جہاں خیر ہے' وہاں شر باوزن موجود رہتی ہے۔ سفیدی' سیاہی کی من بھاتی کھا جا ہے۔ زندگی دنداناتی ہے' لیکن موت اسے ساکت وجامد کرکے رکھ دیتی ہے۔ اسی تناظر میں' اس کی محبت اور تعلق کے' شروع سے دو اسلوب رہے ہیں۔ خیر کے لیے محبت و احترام' جب کہ شر کے لیے نفرت' بل کہ شدید ترین نفرت۔

ان کے ابا حضور خلد قیامی نبی نہیں تو ناسہی' قطب ابدال ضرور تھے' اس لیے ان کے باقیان لائق عزت و احترام ہیں۔ جبی جب ان کی والدہ پدارتیں ہیں' تو انہیں چا چڑھ جاتا۔ صفدر کا کوئی ڈرتے آتا ہی نہ تھا۔ اگر کارقضا آ جاتا ہے' تو صفدر کی جان لبوں پر آ جاتی ہے' مبادا کچھ غلط ہو گیا تو کئی دن بنے۔
اس ذیل میں' اس کے تلفظی دو بانٹ ہیں۔
امی ہوریں آئی تھیں۔
تمہاری فلاں ففے کٹن آئی تھی۔

اس کا اقوال زریں ہے: صفدر تو ہے ہی بےفیضا
قول کی جگہ اقوال اس لیے استعمال کیا گیا ہے' کہ اس کا ایک قول' کئی قولوں پر بھاری اور کئی قولوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔

اس اقوال ارسطوی کے پیچھے' ایک چھوڑ دو جواز رکھتی ہے۔
اول: جب کوئی صفدر کا آتا ہے' چائے پانی سے تواضح کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے' کہ اس کا کوئی آتا ہی نہیں۔
پہلے ابا ہجور آتے تھے' جاتے ہوئے بےچارے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ اب امی ہوریں اور ان کے متعلقین آتے ہیں' البتہ جاتے ہوئے کچھ ناکچھ لے جانا نہیں بھولتے۔ وہ ابا ہجور کے قدموں پر ہیں۔
دوئم: سورگ باسی ابا ہجور کی موت پر' صفدر کو چائے اور بسکٹ سرو کیے گیے۔ یہ بات الگ سے ہے کہ چائے اور بسکٹ' اوروں نے بھی نوش جان کیے تھے۔

صفدر تنہائی میں روتا ہے‘ کیا فائدہ ۔۔۔۔۔ وقت گزرا نہیں‘ حیضرت امریکہ بہادر کے قدم لے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی پھٹی پرانی چٹی مل جائے۔ ڈالرہا کے ہوتے' کوئی نئی دیسن مل سکتی ہے۔ پہلے موجودوں کو' موجود سے بڑھ کر میسر آ جائے گا۔ یہ بھی راضی' نئی بھی راضی اور عہد رفتہ کے بھی راضی۔ صفدر ہے ہی بےفیضا ‘ جو زمین کی بڑی سرکار کا ناشکرا ہے۔ سرکار کی ناشکری سے بڑھ کر' اس کے غلط ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 194170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.