وہ لنکویل قبیلے کا سانپ کم' چھلاوہ زیادہ
تھا۔ دوسرا حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی' جہنمی بلا لگتا تھا۔ کسی ایک
جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ ضرور نکل آتا' مصیبت تو یہ
تھی کہ اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے' آخر کہیں ناکہیں
آرام تو کرتا ہو گا۔ یہ بلا' پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی تھی۔ علاقے
کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک نہ تھی' اس کے پیچھے ایک عوامی
خون خوار تاریخی پس منظر تھا۔ اس سپرپاور' جس کے سامنے علاقے کے پھنے خاں
بھی' قطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں بیٹھے' ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی
طاری تھی۔
وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی' عذاب بن گیا تھا۔ نر مویشی جان سے جاتے' جب
کہ مادہ مویشیوں کا دودھ نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ
لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے' سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ علاقے
کے ہر چھوٹے بڑے کو' بےچارگی اور بےبسی کا یہ عالم' مایوسی کے دروازے تک لے
آیا تھا۔
ذاتی اور اجتماعی طور پر' غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن کوئی حتمی حل ہاتھ
نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت ہوا' مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے
تیار نہ ہو رہا تھا۔ کون اترتا' جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے
توقع' وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا انتظار کیا جا سکتا
تھا۔
کئی دن گزر گئے' کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی گھٹن سے' موتیں ہو رہی
تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی لاشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث'
باہر کی بدبو تو تھی ہی' گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر کسی کا منہ
لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے انسان' چلتی پھرتی لاشیں لگ رہے
تھے۔
ایک دن دوسری ولایت سے آنے والا گامو سوچیار' چونکا دینے والی خوش خبری
لایا۔ اس نے بتایا ادھر شہاب دین کے کھیت میں' ایک لنکویل قبیلے کا اژدھا'
ایک مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں' بےبسی کے عالم میں' پیچ و تاب کھا
رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' گامو سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ' شہاب دین کے
کھیت کی جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے درمیان' اس
کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں'
چھٹکارے کی کوشش میں تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ' ہیروشیما پر
پر گرے بم سے' کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون گرا رہا تھا۔ مگر
کہاں' کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
اصول یہ ہی رہا ہے' طاقت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے اور اسی میں' عافیت خیال
کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے سبب' طاقت کو شہ ملی ہے اور علاقے میں دندناتی
پھرتی ہے۔ ہر سامنے آنے والا ' کم زور یا طاقتور' جان سے جاتا ہے' تاہم ایک
کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔ دینو کا کتا' ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس
گستاخی کی سزا میں' اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں گے اور اس
پر ترس کھانے کی بجائے' جھپٹ پڑا ہو گا۔ موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔
ڈنگ لگنے سے اس کی موت واقع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی
کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طاقت عبرت نہیں لیتی کیوں
کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔ |