عوام اور عوامی نمائندے
(abdul razzaq choudhri, lahore)
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں عوام اپنے
نمائندے خود منتخب کرتے ہیں یہ علٰحد ہ بات ہے کہ پھر یہی عوام پانچ سال تک
اپنے ہاتھوں سے منتخب کیے ہوے ان خود غرض،مطلب پرست اور موقع پرست نمائندوں
کو کوستے رہتے ہیں ۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے ثمرات سے تو کئی ممالک فیضیاب
ہیں لیکن جو جمہوری تماشہ وطن عزیز پاکستان میں دیکھنے کو ملتا ہے دنیا کے
کسی کونے میں میسر نہیں۔اگرہمارے کسی عوامی نمائندے کی انتخاب سے کچھ عرصہ
پہلے کی پھرتیوں پر ہی نظر دوڑا لی جائے تو تفریح طبع کے لیے کافی سامان
میسر ہے ۔ ہمارے یہ گوہر نایاب عوامی نمائندے انتخاب سے پہلے اس قدر چست،
چالاک اور مستعد ہوتے ہیں کہ دیگر ممالک کے عوامی نمائندے ان کی برابری کا
سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ان کے حلقہ انتخاب میں کوئی شادی بیاہ کی رسم ہو یا
کوئی مرگ ہو جائے چشم زدن میں پہنچ جاتے ہیں ۔ حتٰی کہ ایک ایک گھر کی خبر
رکھتے ہیں کہ کس کی شادی ہونے والی ہے کون بیمار ہے کون اللہ کو پیارا ہونے
والا ہے اور کس کے ہاں کسی بچہ کی آمد متوقع ہے ۔ مخبر سے پل پل کی خبر
لیتے ہیں اور چوبیس گھنٹے 1122کے اہلکاروں کی طرح چوکس رہتے ہیں کہ نہ جانے
کب کہاں سے بلاوا آ جائے اور عوام کی خدمت کرنے میں کوئی بھول چوک نہ ہو
جائے ۔بھولے بھالے اور معصوم عوام بھی ان کی محبت کے دام میں پھنس جاتے ہیں
اور انہی کو اپنا مسیحاسمجھ بیٹھتے ہیں ۔ الفاظ کی جادوگری میں مہارت رکھنے
والے یہ ساحر ہاتھوں پر سرسوں جماتے دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن جونہی یہ نام
نہاد خدمت گار منتخب ہو کر اسمبلی کی دہلیز پا ر کرتے ہیں اپنے حلقہ کے
لوگوں کو یوں فراموش کرتے ہیں جیسے یہ ان سے کبھی آشنا ہی نہ تھے۔ حلقہ کے
عام لوگ جن میں زیادہ تر تعداد غریب لوگوں کی ہوتی ہے جن کومتعدد مرتبہ یہ
سبز باغوں کی سیر کروا چکے ہوتے ہیں وہ بیچارے ان فریب کاروں کی پانچ سال
راہ ہی تکتے رہتے ہیں لیکن یہ فصلی بٹیرے مستقبل میں ہونے والے الیکشن سے
پہلے ان کو پکڑائی نہیں دیتے ۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز کے عوامی نمائندوں کا یہی وطیرہ رہا
ہے اور تاحال یہی صورتحال موجود ہے ۔نہ جانے یہ عوام کو بے شعوری کا کیسا
انجکشن لگاتے ہیں کہ عوام بار بار ان ہی کو منتخب کرتی ہے اور اگر کوئی
شریف ،قابل اور ذہین آدمی کبھی الیکشن کے اکھاڑے میں کودنے کی ہمت کر ہی لے
تو اس کی یوں درگت بنتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ وہ شریف آدمی الیکشن میں ضمانت
ضبط کروانے کے علاوہ عمر بھر کر لیے طعنے تشنے بھی وافر مقدار میں جمع کر
لیتا ہے ۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے سچ تو یہ ہے کہ ہمارے عوامی نمائندوں کی
کثیر تعداد منافقت کے لبادے میں ملبوس ہے ۔جن کے آنسو مگر مچھ کے ،مسکراہٹ
کھوکھلی اور تسلی،تشفی،دلجوئی خلوص سے عاری ہوتی ہے ۔ میں کئی مرتبہ ان کی
فریب کاریاں دیکھ کر پھٹ پڑتا ہوں اور غریب اہل محلہ سے پوچھ بیٹھتا ہوں کہ
آپ ایسے اداکاروں کو ہر دفعہ ووٹ کیوں دے دیتے ہیں ۔پانچ سال تک ان کو
گالیاں دیتے ہو اور آخر میں ووٹ پھر ان فریب کاروں کی صندوقچی میں ہی ڈال
آتے ہو ۔ جواب موصول ہوا صاحب آپشن ہی کوئی نہیں ۔جو بھی الیکشن لڑتا ہے
ایک سے بڑھ کر ایک فنکار ہے ۔المیہ تو یہ ہے کہ تعلیم سے کوسوں دور،شعور سے
پیدل اور غربت کی آغوش میں پلنے،بڑھنے اور جوان ہونے والے میرے ان ہم وطنوں
کو کیا خبر کہ اچھا اور برا نمائندہ کیا ہوتا ہے ۔ ان کی نظر تو محض دو وقت
کی روٹی پر مرکوز ہوتی ہے جس نے ان کی اس سلسلہ میں مدد کر دی وہی اچھا
نمائندہ ہے ۔ان کی بلا سے قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبے کیا ہوتے ہیں ۔ان
کو کیا خبر یہ عوامی نمائندے ان کو استعمال کر کے،ان کے ووٹ حاصل کر کے کس
کس طرح ملکی وسائل پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔ان غریبوں،مسکینوں اور محتاجوں کا اس
بات سے کیا لینا دینا کہ ناقص خارجہ پالیسی کس چڑیا کا نام ہے ۔ ان کو بھلا
اس بات سے کیا غرض کہ افراط زر کس عفریت کو کہتے ہیں ۔ یہ تو ہمہ وقت اپنے
پیٹ کی آگ بجھانے میں ہی مصروف رہتے ہیں ۔ پاکستان میں جمہوری حکمرانوں اور
آمروں دونوں کی حکمرانی رہی ۔ ایک قلمکار ہمیشہ جمہوریت پسند ہوتا ہے وہ
کبھی ڈکٹیٹر کی حمایت کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر ایک بات جو دل کو تکلیف
دیتی ہے وہ یہ کہ آخر ان جمہوری حکمرانوں کی کارکردگی کیا ہے ۔ یہ غریبوں
کو الو بنا کر اقتدار کی سیڑھیاں پھلانگتے ہیں اور پھر بس کرپشن کی گنگا
میں نہانا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ ہر وقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح
اگلے الیکشن کے لیے مال اکٹھا کر لیا جائے ۔ دولت کے انبار اکھٹے کرنے کی
دھن میں مگن رہتے ہیں اور فوج سے توقع رکھتے ہیں کہ ہر کام وہ ہی سرانجام
دے ۔ اگر ملک میں زلزلہ آجائے تو وہ بھی فوج سنبھالے ۔ اگر سیلاب کی آفت
غریبوں کو جکڑ لے تو اس کا مقابلہ بھی فوج ہی کرے ۔ اگر کوئی دشمن ملک
سرحدوں کی خلاف ورزی کرے تو اس کو آنکھیں بھی فوج دکھائے ۔مقامِ حیرت ہے کہ
پھر یہ سول حکمران کس مرض کی دوا ہیں ۔اگر سب کچھ فوج ہی نے کرنا ہے ،ہر
برائی فوج نے ہی صفہ ہستی سے مٹانی ہے ،ہر کرپٹ پر فوج ہی نے ہاتھ ڈالنا ہے
ملکی ترقی اور فلاح کے منصوبے فوج ہی نے تشکیل دینے ہیں تو میری سمجھ سے
بالا تر ہے کہ جمہوریت کے ثمرات کہاں ہیں ۔ کس منہ سے ہمارے یہ عوامی
نمائندے فوج کو بدنام کرتے ہیں اور ہر معاملہ میں فوج کی مداخلت کی گر دان
پڑھتے رہتے ہیں ۔ میں مکمل یقین رکھتا ہوں کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت ہی
ہونی چاہئے لیکن ساتھ ہی میری یہ خواہش ہے کہ برسر اقتدارجمہوری حکومت جمہو
رکی آواز بھی ہو ۔ جمہور کا خیال رکھنے والی ہو ،اُس کے دکھ درد کی ساتھی
ہو ۔اُس کے لئے ایسے ایسے منصوبے ترتیب دے جو غربت کے خاتمے کا سبب ہو ں
اور ملکی ترقی کی اڑان آسمان کی بلندیوں کو چھو لے ۔لیکن افسوس سے کہنا
پڑتا ہے کہ میری یہ خواہشات پُر کشش تو ہیں لیکن عملی طور پر ان کا وجود
ملک کے کسی حصہ میں دکھائی نہیں دیتا ۔کیا جمہوری حکمران صرف اس لیے اقتدار
میں آتے ہیں کہ وہ اپنا دامن یا اپنی جھولی میں تو دولت کے ڈھیر سمیٹ لیں
اور عوام کا کوئی پُر سان حالِ نہ ہو ۔ وہ بیشک ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑرگڑ
کرمر جائے ،معمولی معمولی سہولیات کو ترستے رہیں اپنی اِ ک اِک خواہش کے
بدلے اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں۔اپنی اولاد کو معمولی معمولی چیزوں کے حصول
کیلئے بلکتے دیکھتے رہیں لیکن ان ظالموں پر کوئی انگلی نہ اٹھائے یہی اس
اشرافیہ کا وطیرہ رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس رویے میں کسی قسم کی کوئی
تبدیلی رونما ہوتی نظر نہیں آتی ۔عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے نمائندے
منتخب کرتے ہوے اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ان کا نمائندہ دیانت دار، ذہین ،
دور اندیش اور منصوبہ ساز ہو تا کہ وہ غربت کی لکیر کو مٹانے میں معاون
ثابت ہو ۔ دوسری جانب حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ملکی پالیسی سازی کے
خدوخال وضع کرتے وقت ملک کے غریبوں کا خاص خیال رکھے ۔ اور مفلوک الحالوں
کو ان پالیسیوں سے مستفید ہونے کا بھر پور موقع فراہم کر ے۔ ان خاک نشینوں
کے پیٹ کی بھوک مٹے گی تو تبھی کوئی رتی بھر شعور ان کے حصہ میں آئے گا ۔ |
|