امریکہ میں دہشتگردی

امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ایک مسلح شخص نے ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں فائرنگ کر کے 50سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا جبکہ 50 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔یہ واقعہ انتہائی افسوسناک بھی ہے اور قابل مذمت بھی ہے لیکن اگر اس کو گہری بصیرت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس سانحہ کے تناظر میں امریکہ کے لیے ایک سبق بھی موجود ہے ۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس جانب توجہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے جس جانب میں اشارہ کر رہا ہوں ۔نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے دنیا بھر میں ایسی تھرتھلی مچائی کہ ہر روز کسی نے کسی ملک میں یا تو امریکہ انسانی خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیتا یا پھر دہشت گرد خون کی ہولی کھیل کر معصوم اور بیگناہ افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیتے ۔ جبکہ امریکہ دہشت گردوں کی جانب سے روا رکھے گئے ظلم پر مذمتی بیان جاری کر دیتا ۔ نائن الیون کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے کہ دوسرے ممالک کو امریکہ سے اظہار ہمدردی کرنا پڑ رہا ہے اور اس واقعہ پر دنیا بھر کے حکمرانوں کی جانب سے مذمتی بیان دھڑادھڑجاری ہو رہے ہیں ۔اس انسانیت سوز واقعہ نے جہاں سفاکیت کی داستان رقم کی ہے وہیں امریکیوں کو اس درد سے بھی آشنا کروا دیا ہے جو دہشت گردی کے نتیجے میں وجود کا حصہ بنتا ہے ۔دہشت گردی کے اس واقعہ نے جہاں امریکی قوم کو خوفزدہ کر دیا ہے وہیں امریکی سیاسی قیادت کے اوسان بھی خطا کر دئیے ہیں ۔ امریکی صدارتی امیدوارڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے خیالات ،افکار اور جذبات کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی فوٹو کاپی ہیں۔ اس واقعہ کو اسلام سے جوڑنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے واضح کہا ہے کہ اوباما کو اس واقعہ کو مذہب سے منسلک کرنا چاہیے اور اگر ہیلری کلنٹن بھی اس نوع کے خیالات کی مالک نہیں ہیں تو انہیں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہو جانا چاہیے ۔دوسری جانب امریکی صدر باراک اوبامہ نے اس واقعہ کو نفرت پر مبنی واردات قرار دیتے ہوے مذید فرمایا کہ امریکہ اپنی اقدار نہیں چھوڑے گا۔

پوری دنیا جانتی ہے امریکہ کی اقدار کیا ہیں بالخصوص مسلم ممالک تو ان اقدار سے بخوبی واقف ہیں۔امریکہ کو قدرت نے منہ زور طاقت تو عطا کر دی لیکن امریکہ نے اس طاقت کا جس طرح بے دریغ استعمال کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ تکبر غرور اور بے حسی امریکہ کی فطرت بن گئی ۔ امریکہ نے خدا کی بچھائی ہوئی زمین پر سفاکیت ،سازش اور ظلم و بربریت کی ایسی بساط ترتیب دی کہ دنیا بھر کی قوموں کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔کہیں امریکہ دوستی کی آڑ میں بے وفائی کرتا رہا اور کہیں سازشوں کا جال بن کر مدمقابل کو سرنگوں کرتا رہا ۔جب روس نے امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈالی تو امریکہ نے حسب عادت پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ۔ پاکستان نے روس کی پسپائی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ جو روس سے بر سر پیکار تھے روس کی شکست کے بعد مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور اسی خطہ میں باہمی جنگ میں مصروف ہو گئے ۔ امریکہ تو اپنا بوریا بستر گول کر گیا لیکن اس خطہ کو ایسی آگ میں جھونک گیاجس کی حدت سے آج بھی اس علاقہ کے باسی جھلس رہے ہیں ۔ روس امریکہ کا دشمن تھا اس نے روس کی طاقت کا بت تو مسمار کر دیا لیکن ساتھ ہی اپنے دوست پاکستان کو دہشت گردی کا تحفہ بھی دے گیا۔ روس کا غرور چکنا چور ہونے کی دیر تھی کہ امریکہ پوری دنیا پر راج کرنے لگا ۔ امریکہ کی آنکھوں میں شروع ہی سے مسلم ممالک اور ان کے خوددار مسلم حکمران کھٹکتے ہیں۔ امریکہ نے طاقت کے زور پر لیبیاکے مسلم حکمران معمرقذافی کی شان و شوکت کو زمین بوس کیا ۔ اگرچہ قذافی آمر تھا لیکن اسے امریکی غلامی ہرگز قبول نہ تھی ۔ اسی لیے امریکہ نے اس خوددار حکمران کو عبرتناک سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ۔ امریکہ نے سازشوں کا جال بچھانے کے علاوہ طاقت کا اندھا دھند استعمال کر کے بالآخر اپنا مقصد حاصل کر لیا ۔قذافی کے علاوہ امریکہ نے صدام حسین کو بھی بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے ٹھکانے لگایا۔ پہلے اس کو دوست بنا کر ایران سے لڑوایااور جب وہ امریکی مفادات کی راہ میں حائل ہوا تو امریکہ نے نہ صرف صدام کا خاتمہ کر دیا بلکہ عراق کو خانہ جنگی اور دہشت گردی کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے میں عراق کو نہ جانے کتنا عرصہ لگے گا۔سرزمین عراق امریکی منحوس قدموں کی آمد کے بعد سے اب تک امن ،سکون اور خوشحالی کو ترس رہی ہے ۔عراق کو بدحال اور کھنڈرات میں تبدیل کر کے امریکہ کی جب تسلی ہوگئی تو وہ کسی اور اسلامی ملک کے پرامن گل وگلزار کو برباد کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا ۔اب قرعہ فال افغانستان کے نام نکلا ۔ نائن الیون واقعہ کو بہانہ بنا کر اور القائدہ و طالبان کے تعاقب میں امریکہ نے افغانستان میں ایسی گھات لگائی جس کے بد اثرات سے افغانی باشندے پربہارزندگی کے حقیقی معنی ہی بھول گئے ۔طالبان کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ارادہ لے کر افغانستان کی دہلیز پار کرنے والا امریکہ طالبان کو تو ختم نہ کر سکا البتہ افغانی عوام کی زندگی جہنم بنانے میں کامیاب ہو گیا۔جب سے امریکہ نے افغان سرزمین پر قدم رکھے ہیں خون کی ہولی روزانہ کا معمول ہے ۔ بے بس افغانی عوام ان سے جان چھڑا سکتے ہیں نہ ان درندوں کو ملک بدر کر سکتے ہیں۔کوئی پوچھے اس ظالم امریکہ سے تجھے کیا ملتا ہے دوسروں کے ہنستے کھیلتے گل و گلزار اجاڑ کے ۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ وہ رسی دراز تو کر دیتا ہے لیکن ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے والوں کو عبرت ناک سزا ضرور دیتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے پوری دنیا کا امن روندنے والا امریکہ اللہ کی گرفت سے آزاد رہے ۔ اورلینڈو واقعہ تو نقطہ آغاز ہے ۔ عنقریب وہ وقت آنیوالا ہے جب امریکہ کو اپنے گھر بھی ایسی ہی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا جیسی وہ دوسروں کے لیے بڑھکاتا رہا ہے ۔زمانے کے تغیر و تبدل کے کھیل میں قوموں کے عروج و زوال کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔کیا ہوا جو آج امت مسلمہ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ انشااللہ جلد ہی اجالوں کا سفر شروع ہو گا ۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ امریکی تباہی کا کھیل شروع ہونے کو ہے اور امریکی سازشوں ،منافقتوں اور چیرہ دستیوں کا باب بند ہونے کو ہے ۔امریکہ کو کون سمجھائے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ کوئی مذہب انسانیت سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام کی تو بنیادی تعلیمات ہی امن،سکون اور بھائی چارے کے گرد گھومتی ہیں ۔امت محمدی کا کوئی فرد دوسرے کسی انسان کو دکھ تکلیف میں مبتلا نہیں کر سکتا۔ محض ناموں کی مماثلت سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا قابل مذمت اور قبیح عمل ہے ۔ابھی وقت ہے امریکہ کو اپنی پالیسی میں یو ٹرن لے لینا چاہیے ۔ مسلمان ممالک کو آئے روز نشانہ بنانے جیسے مکروہ فعل کو ترک کر کے ان کی جانب خلوص کے ساتھ قدم بڑھائے ۔ آج تک کوئی ملک طاقت کے زور پر کسی قوم کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ اگر امریکہ بھی دنیا کے دل تسخیر کرنا چاہتا ہے تو اپنی تکبرانہ سوچ بدل کر برابری کی بنیاد پر اقوام عالم اور بالخصوص امت مسلمہ سے اپنے تعلقات استوار کرے ۔اور اگر امریکہ موجودہ ڈگر پر ہی گامزن رہا تو امریکہ کو ایسے ہی دیگر واقعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے امریکہ سمیت پوری دنیا کا امن برباد ہونے کا خدشہ ہے ۔
 
abdul razzaq choudhri
About the Author: abdul razzaq choudhri Read More Articles by abdul razzaq choudhri: 96 Articles with 66470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.