سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے زخم ابھی بھرے نہیں
(Abdul Waheed Rabbani, Lahore)
چند روزقبل بھارتی عدالت میں سانحہ گجرات
کا فیصلہ سنایا گیاجس میں ذمہ داران کوسزائے موت سنائی گئی۔ یہ واقعہ 2002
میں پیش آیا تھا اس واقعے میں تیس ہزار سے زائدمسلمانوں کو بے دردی سے
شہیدکردیا گیا تھا۔ اس واقعے کے ماسٹرمائنڈاور موجودہ موجودہ بھارتی
وزیراعظم نریندرامودی تھے۔ جواس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے سانحہ گجرات
اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں مودی اور شہبازشریف کا ایک ہی کردارتھا۔ 17جون2014
کو پنجاب کے درالحکومت لاہور میں منہاج القرآن مدرسہ میں تعلیم کیلئے آئے
ہوئے14 طالبعلموں کوشہیدکردیاگیاجبکہ100 سے زائد افراد کوگولیاں
مارکرشدیدزخمی کردیاگیا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ گولیوں کانشانہ بننے والوں
میں خواتین بھی شامل تھی جون 17کی صبح 2 بجے پنجاب پولیس نے لاہورکے علا قے
ماڈل ٹاو ¿ن میں واقع ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن
انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہرموجودرکاوٹوں کوہٹانے کیلئے ایک آپریشن
کاآغازکیا۔پولیس کے مطابق منہاج القرآن انتظامیہ نے نوگوایریا بنارکھا ہے
جہاں کسی عام آدمی کوجانے کی اجازت نہیں ہے اس نوگوایریا کو ختم کرنے کیلئے
آپریشن ناگزیرقراردیا گیا۔ پولیس کی ایک بھاری نفری پاکستان عوامی تحریک کے
صدر مقام پہنچی۔ جس میں ڈی آئی جی راناعبدالجبار، ایس پی ماڈل ٹاﺅن طارق
عزیز، ایس پی اقبال ٹاﺅن فرخ رضا سمیت کئی دوسرے پولیس عہدیدران شامل تھے۔
پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں قانونی ہیں اور
یہ چار سال قبل اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور دفاتر کے گرد
لگائی گئیں تھی جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے طالبان کے خلاف فتوٰی دیا تھا۔ اس
کے باوجود پولیس نے بلڈوزرز کی مدد سے رکاوٹوں کو ہٹانے اور تباہ کرنے کا
آپریشن شروع کردیا ، پولیس کو ایل ڈی اے کی بھی مدد حاصل تھی۔جس نے عوامی
تحریک کے کارکنان کو پولیس کی کاروئی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرنے پر
اکسایا۔پولیس افسران کو ماڈل ٹاؤن پولیس ہی کی جانب سے جاری کردہ وہ سرکلر
دکھایا گیا، جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عدالتی احکامات کے
مطابق سیکورٹی انتظامات کرنے کا کہا گیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ
بیریئرز فیصل ٹاؤن تھانے کے آفیسرز کی مشاورت اور رہنمائی میں ہی لگائے گئے
ہیں، مگر انہوں نے اس سرکلر کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان عوامی تحریک
کے مرکزی قائدین نے متعدد بار پولیس افسران سے بات چیت کی، مگر پولیس
آفیسرز نے عدالتی احکامات کو ماننے کی بجائے مزید جارحانہ رویہ اختیار کر
لیا اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف ممبران اور طلباءپر لاٹھی چارج کرنا شروع
کر دیا۔ ان تمام معاملات کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ پولیس ان
رکاوٹوں کو ہٹانے نہیں بلکہ کسی اور منصوبے کے تحت یہ آپریشن کرنے آئی ہے۔
پولیس نے جب فائرنگ شروع کی تو دوخواتین موقع پرہی جاںبحق جبکہ متعددزخمی
ہوگئیں۔ آپریشن کرنے والوں میں صرف پنجاب پولیس کے اہلکار ہی نہیں تھے بلکہ
ن لیگ کے اپنے غنڈے بھی پولیس کے شانہ بشانہ تھے جس میں گلوبٹ کا ایک کردار
سامنے آیا تھے جنہوں نے پولیس کے ساتھ مل کر تباہی مچاہی، جلاﺅں گھیراﺅں
اور پتھراﺅں بھی کیا۔ منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پرآپریشن اور اس کے شہداءسے
اظہارِتعزی کرنے کیلئے احتجاج کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیل گیا۔حکومت
پہلے ہی بوکھلاہٹ کاشکار تھی اور اس نے احتجاج کا حصہ بننے والے افراد
کوگرفتار کرنا شروع کردیا۔ان کی بسوں کو قبضے میں لے لیاگیا، پٹرول پمپ بند
کردیئے گئے۔
تحریک منہاج القرآن کو اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرنے دی گئی۔
جبکہ دوسری طرف حکومت نے ڈبل گیم کھیلتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل کردی گئی اور
میڈیاکویہ کہہ کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیاگیا کہ ایک ماہ کے اندراندر اس
واقعے کی رپورٹ سامنے لائے جائے گیا۔ اسی اثناءمیں پنجاب کے وزیرقانون
راناثنااللہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف رانا ثنااللہ نے
اپنے ایک بیان کہا کہ وہ جس رات آ پریشن ہوا اس دن تو وہ صبح نو بجے سو کر
اٹھے تھے میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ اگر رانا ثنااللہ کی یہ بات درست
ہے تو پھر اس نے استعفی کیوں دیا؟ اور وہ جے آئی ٹی ٹیم کے سامنے کیونکرپیش
ہوئے۔ایک ایسی جے آئی ٹی سے آپ کیاامید کرسکتے ہیں جو حکومتِ پنجاب کی اپنی
ہی بنائی ہوئی تھی اور اس میں اس کے اپنے ہی ممبران شامل تھے ایسی جے آئی
ٹی پرآپ کیاانصاف کی امیدکرسکتے ہیںجس نے مظلوموں، شہداءکے گھروالوں،
ڈاکٹرطاہرالقادری اور منہاج القرآن انتظامیہ کے بیان ریکارڈ کیئے بغیررپورٹ
مکمل کردے جائے۔قادری صاحب تو پہلے ہی چیخ چیخ کرکہہ رہے تھے کہ انکو ایسی
نام انہادجے آئی ٹی پرکوئی یقین نہیں ہے اور ہوا بھی وہی جس کی امید کی
جارہی تھی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئی تواس میں سانحے ماڈل ٹاﺅن کے
ماسٹرمائنڈراناثنااللہ اور شہبازشریف کو دود ھ کی طرح پاکیزہ قراردے دیا
گیا۔ اور راناثنااللہ دوبارہ وزیرقانون بن گئے۔
ایک بارپھرقادری صاحب نے احتجاج کا اعلان کردیا ہے کچھ لوگوقادری صاحب کے
اس فیصلے کامسخراٹھا رہے ہیں۔ کہ پہلے کیاکرلیا تھا جو اب پھرآرہے ہیں۔ ایک
صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پیسے ختم ہوگے ہوں گے۔ ناقدین باتیں توکرتے
ہیں اور ان کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ نکتہ چینی کرسکے مگرانکو اس بات کا
لحاظ رکھنا چاہئے کہ ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جواخلاقی
طورپرغلط ہوں۔ قادری صاحب کو ہرفورم پراحتجاج کرنے کا حق حاصل ہے مگر یہ
بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ احتجاج پرُامن ہوں اور ملکی املاک کونقصان نہیں
پہنچنا چاہئے۔ جس بندے کے چودہ کارکنان کو دن دیہاڑے گولیاں ماردی جائے اور
ان کو انصاف بھی نہ ملے تو وہ کہا جائے؟
اگر یہ بات سچ ہے کہ میاں شہباز شریف اس خونیں واقعہ سے بے خبر تھے توصاحب
کو کسی تاخیر کے بغیر اپنے ان وزیروں، مشیروں، ابلاغی ماہرین ، قابل اعتماد
مخبروں، انتظامی و پولیس افسروں اورماڈل ٹاﺅن میں رہائش پذیر مسلم لیگی
رہنماﺅں کے خلاف قتل عام، اختیارات سے تجاوز، فرائض کی ادائیگی میں غفلت
اور حکومت و حکمرانوں کی بدنامی کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی مختلف
دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے فی الفور نذر حوالات کرنا چاہئے جن کی وجہ
سے بیدار مغز، مستعد، باخبر اور پولیس و انتظامیہ کی ہر جگہ رسائی ہوئی اور
یہ کالا دھبااب بھی ان کے ماتھے پرلگاہواہے وزیراعلی شہباز شریف کو چاہیے
کہ جلد از جلد نئے سرے سے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جو ڈاکٹر طاہرالقادری کی
امنگوں کے مطابق ہو تاکہ حکومت پنجاب پر لگا ہوا یہ دھبا دھل سکے
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہوتلاش کرو
سارے شہرنے پہن رکھے ہیںدستانے
|
|