سر محمد اِقبال نے ضربِ کلیم کی ایک نظم
بعنوان آزادی میں فرمایا تھا:
آج کی تازہ شریعت
آج کے دور کی تازہ شریعت کے مطابق اِسلامی جمہوریہ پاکستان کی محافظ افواج
وطن کے دشمنوں اور باغیوں سے لڑتے ہوئے جان سے جائیں تو وہ شہید نہیں بلکہ
اگران کے دشمن اور باغی مارے جائیں تو وہ شہید کہلائیں گے۔ یہ بات برسوں سے
ایک مخصوص جہادی نقطۂ نظر رکھنے والے گروہ کے قریب قریب ہر فرد کے دِل میں
تو تھی مگر اِس کاسرِعام اِظہار جماعتِ اِسلامی کے امیر جناب منور حسن سے
پہلے کسی نے نہ کیا تھا۔
ہر پاکستانی کے دل میں ایک ننھا طالبان
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ہندوستان کی خوبیوں اور خرابیوں میں سے ہمارے
حصے میں خرابیاں زیادہ آئیں کیونکہ پاکستان کے حصے میں برّ صغیرکے زیادہ تر
قبائلی اور غیر ترقی یافتہ علاقے آئے۔ سرحد اور بلوچستان تو مکمل طور پر
قبائلی علاقے تھے جبکہ سندھ اور پنجاب جزوی قبائلی اور جزوی جاگیردارانہ
نظام کے تابع تھے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں حاکم طبقات کے
مفادکے لیے مذہب کو ایک عمدہ آلۂ کار کے طور پر ہمیشہ اِستعمال کیا جاتا
رہا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ مسلم لیگ نوابوں جاگیرداروں اور انگریز
سرکار کے خطاب یافتہ خان بہادروں اور سروں (Sirs) کی جماعت تھی جو جدید
مغربی تعلیم کے زیور سے آراستہ تھے مگر انہوں نے بھی حصولِ مقصد کے لیے
مذہب ہی کو آلہ کار بناکر سیاسی کامیابی حاصل کی تھی لہٰذا فرسودہ عوامی
روایات کے ساتھ چمٹے رہنا اُسکی مجبوری بن گئی تھی جسکے باعث رفتہ رفتہ وہی
طبقات جو قیام پاکستان کے سخت مخالف رہے تھے (اور اِسے ناپاکستان کہتے رہے
تھے) زور پکڑتے گئے اورخواجہ ناظم الدین کے بعد سے اِقتدار پر قابض آمرانہ
فکر کے حامل غیر عوامی حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرنے لگے۔ آمروں کو تو ایسے
ہی عناصر کی ضرورت ہوتی ہے اور بدیہی طور پر اِن عناصر کو آمروں کی، لہٰذا
بیوروکریسی (سول و ملٹری) اور ملائیت کے اشتراک سے جو زہریلا آمیزہ بنا وہ
آج تک قوم کی غالب اکثریت کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔ بعض قارئین کو یہاں
لفظ اکثریت کے اِستعمال پر اعتراض ہوگا کیونکہ عوام کی اکثریت تو ہر الیکشن
میں مذہبی جماعتوں کو مسترد کرتی رہی ہے اور سیکولر اور نیم سیکولرجماعتوں
کو ووٹ دیتی رہی ہے ، مگر میرا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے نیم قبائلی اور نیم
جاگیردارانہ معاشرے میں تقریباً ہر فرد کے دل میں ایک چھوٹا موٹا طالبان (یا
اِنتہا پسند) چھپا بیٹھا ہے جو وقت آنے پر جست لگا کر باہر آجاتا ہے اور
اُچھل کود کرنے لگتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں اور مولوی ملاؤں نے
ہمیں ایک قوم نہیں رہنے دیا اور تحریکِ پاکستان کی روح ہمارے قومی جسد سے
نکال کر فرقہ پرستی، تنگ نظری تعصب اوروحشت کا تعفن بھر دیا اور اب ہم میں
کسی قسم کا اِشتراک و اِتحاد دوبارہ پیدا ہونا بہت مشکل بلکہ قریب قریب
ناممکن ہو چکا ہے۔ ہم لوگ باتیں تو محمود و ایاز کے ایک ہی صف میں کھڑا
ہونے کی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِسلام نے ہمیں تمام تعصبات سے پاک کردیا
ہے مگر بدقسمتی سے مجھے تاریخ کے عمیق مطالعہ کے نتیجے میں یہ یقین ہو چکا
ہے کہ کسی بھی دور میں، کسی بھی صدی میں، کسی بھی عشرے حتیٰ کہ کسی بھی سال
میں ایسا سنہرا وقت نہیں آیا جب ہم مسلمان کہلانے والے طبقات، قبیلوں، ذات
اور برادری کے بندھنوں سے آزاد رہے ہوں۔
کیا ہم سب نسل پرست ہیں ؟
برّصغیر میں مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ سادات کو وہی حیثیت حاصل رہی جو
ہندوؤں میں برہمن کو حاصل تھی، مغل اور پٹھان بھی دیگر قوموں سے افضل
گردانے جاتے رہے کیونکہ یہ جنگجو اور حاکم لوگ تھے، مقامی ذاتوں میں راجپوت
کو نمایاں درجہ حاصل تھا کیونکہ یہ بھی سپہ گری اور حکومت کے لائق سمجھے
جاتے تھے۔ سندھ اور بلوچستان میں اپنی حاکمیت اور جنگجوئی کے باعث بلوچوں
کو غیر بلوچوں پر سبقت حاصل رہی او ر حتٰی کہ سندھ میں جہاں سندھی قوم پرست
بہت زور پکڑ چکے ہیں، آج بھی غیر بلوچ پر بلوچ کو ایک طرح کی حاکمیت حاصل
ہے اور بیشتر جاگیردار،بڑے زمیندار، وڈیرے، ذات کے لحاظ سے رند ، جکھرانی،
بجارانی، کھوسہ، تالپور، جتوئی، زرداری، گادھی، مگسی، چانڈیو، جلبانی،
لاشاری، لغاری، مزاری، مگسی، ڈومکی، بلیدی، دریشک اور پتافی وغیرہ سب بلوچ
ہیں اور آ پ زیادہ تر انہیں میں سے منتخب اراکین کو اسمبلیوں اور سینٹ میں
دیکھتے ہیں۔ پنجاب کے سرائیکی علاقوں میں بھی یہی بلوچ سردار حاوی ہیں جبکہ
پنجاب کے دیگر علاقوں مثلاً میانوالی، کالاباغ، اٹک وغیرہ میں پٹھان غالب
ہیں خواہ وہ کوئی زبان بھی بولتے ہوں۔پنجاب کے اندرونی اور خالص پنجابی
علاقوں میں راجپوت اور جاٹ برادری کے برابر کسی اور کو نہیں سمجھا
جاتاکیونکہ جب یہ ہندو تھے تب بھی حاکم تھے اور جب مسلمان ہوئے تب بھی انکی
حاکمیّت قائم رہی۔بعض تاریخ دانوں کے نزدیک تو برّصغیر کے قدیم حاکم طبقات
کے قبولِ اسلام کی وجہ ہی یہی تھی کہ وہ اپنے علاقوں اور زمینوں کو حملہ
آور قابضین سے محفوظ رکھنا یا واپس لینا چاہتے تھے۔ ہندوستان کے مختلف
علاقوں سے آکر کراچی و حیدرآباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں اور
اُنکی اولادوں میں یہ تفریق بظاہر نظر نہیں آتی مگر شادی بیاہ کے معاملے
میں یہ بھی بہت تنگ نظر ہیں۔ مثلاً سادات غیرِسادات میں رشتہ کرناقریب قریب
گناہ سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ آلِ رسول کے متعلق اکثر غیر سیًد
بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ سادات تو خیر صدیوں سے قابلِ تعظیم سمجھے ہی
جاتے ہیں اب تو جب سے مذہبیت نے زور پکڑا ہے،بہت سے لوگوں نے ہاشمی، علوی،
صدیقی، فاروقی، عثمانی وغیرہ ہونے کا دعویٰ کرکے عزّت حاصل کرلی ہے۔تقسیم
کے بعد شجرۂ نسب لکھنے یا دیکھنے کا تو اب رواج ہی ختم ہوگیا لہٰذا اعلیٰ
سمجھی جانے والی نسلوں سے تعلق قائم کرنا چنداں مشکل نہ رہا۔اگر ہمارے
معاشرے میں نسلی تفریق نہ ہوتی تو آخر اِس تگ و دو کی کیا ضرورت ہوتی؟دوسری
مقامی قوموں کی طرح مہاجرین میں بھی ہندوؤں کی طرز پر پیشہ ورانہ ذات پات
کا رواج ہے اور دھوبی، جلاہے، کنجڑے(سبزی فروش)، قصائی، میراثی وغیرہ کو آج
بھی کمتر سمجھا جاتا ہے ۔ میں اپنے دوستوں اور خاندان بھر میں بڑا روشن
خیال سمجھا جاتا ہوں مگر جب میرے بیٹے نے ایک ڈرائی کلین شاپ قائم کرنا
چاہی تو خاندان بھر میں شور ہو گیا کہ لو جی اب سیّد بھی دھوبی ہونے لگے،
کلجگ ہے کلجگ۔ آخر اسے توبہ کرتے ہی بن پڑی اور میں کچھ بھی نہ کر سکا۔
کیا آپ اپنی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ شیدی برادری میں کرینگے؟
ہمارے ہاں مہاجرین،سندھی، بلوچ، پٹھان خاندانوں کی باہمی رشتہ داریوں کی
بہت ہی کم مثالیں ملیں گی اور مکرانی شیدی برادری کو تو شاید ہی کسی برادری
نے اِس قابل سمجھا ہو۔ مغربی معاشرے، جن کے ہاں شاذونادر نسل پرستی کا کوئی
واقعہ ہو تو ہمارے اخبارات اسے بری طرح ایکسپلائٹ کرتے ہیں، کالے گوروں کے
درمیان شادیوں کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں اور کوئی اسے برا نہیں سمجھتا۔
خود مجھ سے شادی کرنے ایک امریکی خاتون پاکستان آئیں اور آج ان سے میرا ایک
گیارہ سال کا بیٹا بھی ہے۔ پاکستانیوں کو انکی حرکتوں کے باعث مہذب دنیا
میں عام طور پراچھا نہیں سمجھا جاتا، پھر بھی یہاں ہزاروں غیرملکی بیویاں
ہیں۔ کیا آپ نے کسی ایسے پاکستانی گھرانے کے متعلق سنا ہے جس نے اپنی بیٹی
کا رشتہ خوشی سے کسی کالے کو چھوڑیں، گورے کو دیا ہو؟ صرف اِکّا دکّا
مثالیں ملیں گی ،وہ بھی کسی غریب پاکستانی خاندان کی بیٹی کی کسی عرب یا
ایرانی و افغانی سے شادی کی۔ یہ رجحان واضح کرتا ہے کہ ہم اس روئے زمین کے
متعصّب ترین افراد میں سے ہیں مگر خود کو بڑا وسیع القلب اور غیر متعصب
سمجھتے ہیں۔
ماضئ قریب میں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ کراچی میں کسی پختون بچی نے
مہاجر یا پنجابی سے کورٹ میرج کرلی تو شہر بھر کے پٹھانوں اس امر سے مشتعل
ہوکر اسے پٹھانوں کی غیرت پر حملہ سمجھا ، جلسے، جلوس اور ہنگامہ آرائی کی،
یہاں تک کہ پریمی جوڑے پر قاتلانہ حملے کیے، بعد ازاں اِنسانی ہمدردی رکھنے
والی مہذب قوموں نے انہیں اپنے ہاں پناہ دی۔ سندھ اور بلوچستان میں تو کارو
کاری کے واقعات کے پیچھے اکثر یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ پنجا ب میں البتہ مہاجرین
اور پنجابیوں کے درمیان رشتۂ مناکحت قائم ہونے کی زیادہ مثالیں ہیں مگر ایک
تو پنجاب اور یوپی ایک طرح سے جڑواں صوبے رہے ہیں اور تقسیم سے بھی پہلے سے
انکے باشندوں کے درمیاں گہرے مراسم تھے، انگریز نے سب سے پہلے پنجاب کی
سرکاری زبان فارسی کے بجائے اردو قرار دی اور اردو تعلیم کے باعث پنجاب کے
گھر گھر میں اردو نفوذ کر گئی۔ یو پی اور پنجاب دونوں زرخیز زمینوں کے حامل
بھی تھے لہٰذا کلچر بھی ملتا جلتا تھا اور اردو و پنجابی زبانوں کے درمیان
بہت کم فرق ہے لہٰذا ایک زبان بولنے والا دوسری زبان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص پنجابی بول رہا ہے اور دوسرا بغیر کسی
دقّت کے اسے اردو میں جواب دے رہا ہے۔یوپی اور پنجاب کے لوگوں کی شکل و
صورت اور رنگت میں بھی کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا ان کے درمیان معاشرتی تعامل
کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔
کیا آپ ہندو اور عیسائی کو اپنے برابر سمجھتے ہیں ؟
یہ تو ہیں لسانی اور ذات پات کی تقسیم کی مثالیں ۔ اب مقامی اور غیر مقامی
کی کشمکش جاننا چاہیں تو اندرونِ سندھ اور بلوچستان میں مقامی آبادی کے
مہاجرین اور پنجابیوں کے متعلق خیالات اور جذبات دریافت کرلیں یا وہاں مقیم
اردو اور پنجابی بولنے والوں سے پوچھ لیں تو وہ بنائیں گے کہ وہ مقامی
آبادی کے درمیان ایسے رہتے ہیں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان تنہا زبان۔اسی
طرح کراچی میں رہنے والے ہمارے کچھ سندھی دوستوں کو مہاجرین سے تعصّب کی
شکایات ہیں۔ مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ۷۰ کی دہائی کے ابتدائی حصے میں
بھٹو صاحب کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کی حکومت نے جو لسانی فسادات کروائے
تھے ، ان دنوں ہمارا خاندان جیکب آباد شہر میں راتیں جاگ جاگ کر گزارتا تھا
کہ سوتے میں ہمارے گھر پر حملہ نہ ہو جائے۔ شہر بھر میں جہاں اردو میں کوئی
سائن بورڈ یا نیم پلیٹ لگی تھی، وہ جگہیں تباہ کر دی گئی تھیں۔ اندرون سندھ
اور بلوچستا ن میں ہزاروں سال سے آبادہندو یعنی مقامی فرزندانِ زمین تو سب
سے زیادہ کمزور اور ارذل مخلوق سمجھے جاتے ہیں جب کہ یہی ہندو محض ۶۶ سال
قبل تک اِس سرزمین کے وارث اور کرتا دھرتا تھے۔ہماری د رسی کتابوں میں چاہے
کچھ بھی لکھا جائے مگر حق تو یہ ہے کہ ہم مسلمان تاریخی طور پر رواداری سے
دور ہیں جبکہ ہم پروپیگنڈا کچھ اور ہی کرتے ہیں۔ مذہبی تفریق ہندوؤں میں
بھی ہے مگر یہ سوچیں کہ اگرواقعی ہندو شروع سے ہی مسلمانوں سے نفرت کرتے
تھے تو محمد ابن قاسم کے قبضے سے بھی پہلے سے مسلمان اِس خطۂ ارض پر کیونکر
رہ سکتے تھے؟ اور پھر ابنِ قاسم کے بعد چند عشرے مسلمانوں کی حکومت رہی اور
بہت سے علاقے مقامی سرداروں نے مسلمانوں سے واپس چھین لیے تھے مگر عام
مسلمان پر اس کا کوئی فرق نہ پڑا اور وہ بدستور یہاں رہتے رہے۔ہمارے تعصب
کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہم میں سے بیشتر پاکستانی ، عیسائیوں کو کافر،
بھنگی اور چمار کہتے ہیں۔ میں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک ۴۵ سال کے
عرصے میں اپنے علاوہ صرف ایک شخص دیکھا ہے جو عیسائیوں کے برتنوں میں کسی
کراہت کے بغیر کھا پی سکتا تھا۔ سندھی لوگ البتہ ہندوؤں کے ساتھ کھا پی
لیتے ہیں مگر کراچی میں تو میں نے تقریباً ہر شخص کو ہندوؤں کے ساتھ کھانے
پینے سے کراہت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔اِسی طرح قادیانی حالانکہ ہم میں سے ہی
ہیں مگر جماعتِ اِسلامی اور دیگرچند انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے زہریلے
پروپیگنڈے کے باعث اُن پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا چکا ہے ، حتیٰ کہ پنجاب میں
بعض مقامات پر تو اُن کے مردوں کی ہڈیوں کو قبروں سے نکال نکال کے باہر
پھینک دیا گیا کہ اب اِس قبرستان کو خالص اِسلامی بنایا جا سکے۔ اقلیتوں کے
لئے فضا اِس قدر مسموم کر دی گئی ہے کہ اُنکے لیے ترکِ وطن کے سوا کوئی
آپشن ہی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ اگر کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم جیسی
سیکولر اور غیر متعصّب جماعت کا تحفّظ حاصل نہ ہوتا تو نہ جانے جماعتِ
اِسلامی ان بے چاروں کے ساتھ کیا کرتی۔
جہادی حضرات، کلاشنکوف سے پوری دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں
اِن تفاریق سے بڑھ کر جان لیوا فرقہ وارانہ تفریق ہے جو کہیں کہیں تو ایک
ہی گھر میں بھی پیدا ہو چکی ہے۔ مثلاً ہمارے گھر میں ایک ہی خاندان کے شیعہ،
سنًی (بریلوی)، سنًی (دیوبندی) اور سیکولر مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں اور
بعض اوقات مذہبی معاملے پر اختلافات اور تلخی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے
نہیں لگتا کہ میں زیادہ عرصہ ان بہن بھائیوں کے درمیان رشتہ اخوت قائم رکھ
پاؤں گا کیونکہ ہمارے ملک میں قرآن کی بیسیوں ایک دوسرے سے مختلف تفاسیر
ہیں ۔ ہر تفسیر اپنے مخصوص عقیدے کو مدّنظر رکھ کر لکھی گئی ہے اِس طرح
قرآن کو اپنے اپنے رنگ میں ڈھالا جا چکا ہے۔تقسیمِ ہند کی تحریک میں
سنی(بریلوی)، شیعہ(اِثنا عشری یا بارہ اِمامی)، شیعہ (فاطمی یا اِسماعیلی و
بوہری) کے علاوہ جماعتِ احمدیہ کا بڑا اہم کردار تھاالبتہ دیوبندی جماعتوں
(جماعتِ اسلامی، جمیعتِ علمائے ہند، مجلسِ احرار وغیرہ) پاکستان کے سخت
خلاف تھیں لہٰذا بہت ہی کم دیوبندی بھائیوں نے تشکیلِ پاکستان میں حصہ لیا
مگر بعد میں انہوں نے ہوشیاری سے اس ملک کو مملکتِ خداداد مشہور کر کے مسلم
لیگ کی اہمیت ختم کردی اور اسے اِسلام کا قلعے کا نام دے کر سادہ لوح
اورعظمت رفتہ کے خوابوں میں خوش رہنے والے مسلمانوں کے دل جیت لیے اور اب
وہ بم دھماکوں اور کلاشنکوف کے سہارے تمام دنیا کو بذریعہ جہاد سرنگوں کرنے
کی ٹھانی۔پاکستان اور افغانستان اِس خواب کی محض ابتدائی منازل ہیں اور اسی
سلسلے میں آج دیوبندی فرقہ پرست جماعتیں اور عسکری تنظیمیں اسی ملک پر قبضہ
کرنا چاہتی ہیں جسے انہوں نے ناپاکستان قرار دیا تھا کیونکہ اس زمانے میں
وہ اکھنڈ بھارت کی حامی تھیں۔ انہوں نے بریلوی سنّی، شیعہ، اِسماعیلی وغیرہ
کو کافر اور مشرک قرار دے رکھا ہے جبکہ احمدی تو باقی سب (علاوہ اسماعیلی و
بوہری) کے لیے بھی کافر ہیں۔ کبھی یہ لوگ یا علی مدد اور یا اللہ مدد کی
غیر ضروری بحثیں چھیڑتے تھے ، پھرانہوں نے خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ رائج
کروا کے اِسلام کی خدمت کی، اب یہ گریہ و ماتم کے علاوہ تمام تفریحات و
فنونِ لطیفہ یہاں تک کہ قہقہہ لگانے کو بھی غیر اِسلامی قرار دیتے ہیں اور
اِس ملک کو مکمل طور پرطالبانائز کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیوبندی فرقہ
سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اِس تنگ نظری کے حامی نہیں ہیں مگر وہ کھل کر
ان کی مخالفت بھی نہیں کرتے بلکہ ایک تذبذب کی کیفیت میں ہیں۔
اِنتہا پسندوں کے تین گروہ
ملاؤں اور نام نہاد مجاہدین کا یہ گروہ ایک ہی ہدف رکھنے کے باوجود نہایت
ہوشیاری سے تین الگ الگ حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ غیر متشددانہ طور پر
تبلیغ اور قلمی جہاد کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو اِسلام کی سادہ سی
تعلیمات کی طرف راغب کرکے نیک نامی کا تاثر قائم کرتا ہے اور اپنے گروہ کی
افرادی قوت میں اضافہ کرتا ہے جبکہ دوسرا ونگ مذہب اور سیاست کے اِمتزاج کے
ذریعے اپنے حامیوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر نیم متشددانہ سیاست کے ذریعے
اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرکے اس تیسرے ونگ کو چھتری فراہم کرتا ہے جو
عملی جہاد کی متشددانہ تشریح پر عمل درآمد کرکے بندوق کے ذریعے فوری
اِقتدار پرقبضے کے لیے کوشاں ہے۔ اِن تینوں کا اصل ہدف ہے کہ پوری دنیا سے
غیر مسلموں کا صفایا یا کم از کم انہیں مسلمانوں کی آفاقی طاقت کے آگے
سرنگوں کرنا۔ اِس مقصد کے حصول کیلئے ہرجائز و ناجائز طریقے اِختیار کرنے
کے ضمن میں وہ شرعی دلائل بھی رکھتے ہیں جو کہ دراصل چند کمزور اور وضعی
احادیث سے اخذ کرتے ہیں ۔ ہنسی تو اِس بات پر آتی ہے کہ وہ اُسی مغرب کی
ٹکنالوجی کے دریوزہ گر ہیں جسے یہ تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اُسی علم و
سائنس کے دشمن ہیں جس کی ایجادات ،لاؤڈاسپیکر،ذرائع نقل و حمل، کمپیوٹر،
انٹرنیٹ، موبائل اور سٹلائٹ فون، ریڈیو اور جدید اسلحے کے ذریعے اپنی دہشت
گردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کیا تمام مذہبی جماعتیں انتہا پسند ہیں؟
ہمارے سادہ لوح عوام کو ایک جھٹکا سا لگا جب جماعتِ اِسلامی کے امیر جناب
منّور حسن نے کھل کر طالبان کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج
کے شہیدوں کو ہلاک یا متوفّی قرار دیا ۔ ہم اور دیگر تمام غیر متعصّب ،
روشن خیال مصنفّین اور کالم نگار عشروں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ مذہب کے نام
پر سیاست کرنے والے، مختلف ناموں کے باوجود سب کے سب بنیاد پرست اور علم و
ترقی کے دشمن ہیں ، چاہے وہ سلفی کہلائیں، دیوبندی، شیعہ یا بریلوی، سب کا
اپنا اپنا ایک ایجنڈا ہے جن کا نقظۂ اِرتکاز ہے رجعت پسندی۔ اور جلد یا
بدیر رجعت پسندی بالآخر انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے، اور آج یہ جماعتیں
بڑی حد تک کامیاب ہیں اور روشن خیال قوتیں ناکام۔ اِسی لئے میں نے جو شروع
میں کہا تھاوہ نقش بہ دیوار ہے ۔ آج اِس قوم کا قریب قریب ہر شخص اپنے مذہب،
فرقے، لسانی گروہ یا نام نہاد نظریاتی عقیدے کا غلام ہے اور اس کے علاوہ
کوئی بات سننا پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اب تو ایک ہی نظریہ کی سربلندی کے لیے
لڑنے والے ترقی پسند اور روشن خیال بھی بری طرح دھڑے بندیوں کا شکار ہیں۔
کیا ہمارے خطے پر خوفناک ترین اسلحہ اِستعمال ہوسکتا ہے؟
ہمارے ملک میں فرقہ پرستوں کے اِس خوفناک گروہ کے متعلق کوئی صحافی، دانشور
یا کالم نگار کھل کر نہیں لکھتا کیونکہ ایک تو اِس کے خودکش اور ٹارگٹ کلر
دستوں کا خوف لاحق ہے دوسرے دیوبندی ریڈرشپ متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے
اور تیسری زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ وہ کسی گروہ کی دل آزاری کو اچھا نہیں
سمجھتے۔ شاید یہ لوگ اِس عفریت کی ہولناکی کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر ہیں
اور نہیں جانتے کہ اِس کھوہ کو آج پاٹا نہ گیا اور اگر یہ بلائیں اپنی
ہولناکی سمیت بھرپور طریقے سے جلوہ نما ہو گئیں تو ہماری نازک مزا ج اور
بظاہر سادہ دل حکومت انہیں قابو کرنے میں ناکام رہے گی بالآخر عالمی قوتیں
مداخلت پر مجبور ہوں گی کیونکہ آخر ترقی یافتہ اور مہذب اِنسانوں کوبھی تو
اِسی چھوٹی سے دنیا میں رہنا ہے اور پھربڑے سرمایہ داروں کے جدید ترین اور
خوفناک ترین اسلحہ کے عملی تجربات کا اِس سے بہتر موقع کب ہاتھ آئیگا؟
|