بچپن میں ایک مشہوری دیکھتا تھا۔
’’لو صبا آگئی۔۔۔ تمہیں کیسے پتا؟ خوشبو بتا رہی ہے۔۔تھوڑا سا میوزک اور
مشہوری ختم۔۔۔! ‘‘
لیکن میری مشہوری کسی بھی وقت ختم نہیں ہوتی۔ہر وقت عجیب و غریب لطیفے سننے
کو ملتے ہیں۔ اور وہ لطیفے میری ذات سے متعلق ہوتے ہیں تو میرے سوا سبھی
لوگ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں جب کہ میرا دل اس سر شاری سے باغ باغ ہو جاتا
ہے کہ میں لوگوں میں کتنا مقبول ہوں اور آئے دن شہرت کی بلندیوں کو چھوتا
جا رہا ہوں ۔
لو زید آگیا۔۔۔تمہیں کیسے پتا؟ اس کے سر سے منعکس ہونے والی شعائیں بتار ہی
ہیں۔۔۔قہقہہ۔۔۔! لوگ اسی طرح مجھ پر ہنستے رہتے ہیں۔ میرے وجود کا سب سے
اہم حصہ ان کے چہروں پر رونقیں بانٹتا رہتاہے۔
اکثر مجھے لوگوں کے طنز بھرے عجیب و غریب رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بہت سے لوگوں کے چہروں سے شرافت کے نقاب اترتے ہیں تو ظرافت چھلکنے لگتی
ہے۔
ایک صاحب نے ایک دن مجھے راہ چلتے روک کرکہا’’ بھائی صاحب ایک بات سنیں
گے۔‘‘
میں ان صاحب کو کافی عرصے سے جانتا تھا اور معززین میں شمارکرتا تھا۔ میں
نے بصد احترام عرض کیا ــ’’جی حضور فرمائیے؟‘‘
ـ’’بھائی صاحب آج کل ٹریفک پولیس والوں نے کافی سختی کر رکھی ہے۔ کہتے ہیں
بنا ہیلمٹ کے چلان ہوجائے گا۔ اب آپ کے پاس تو قدرتی ہیلمٹ موجود ہے یہ
والا مجھے دے دیجیے۔ انہوں نے میرے ہاتھ میں پکڑے ہیلمٹ کی جانب اشارہ
کیا۔‘‘ قریب کھڑے لوگوں نے قہقہہ بلند کیا اور میں بھی ان کے ساتھ مل کر
کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
میرے ساتھ مذہقہ خیز رویہ میرے دوست احباب ہی نہیں بلکہ چھوٹے بچے اور مجھ
سے بہت کم تر لوگ بھی روا رکھتے ہیں۔ مجھے جاتا دیکھ کر گھروں کے پردوں کے
پیچھے سے جھانکتی خواتین ایک دوسرے کو آنکھ مارتی ہیں تو کبھی بچے ایک
دوسرے کے کان میں چہ میگوئیاں کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک دن درجہ چہارم کے ڈرائیور کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ شکل سے تو بے
وقوف نہیں لگتا تھا ، قد کاٹھ بھی ٹھیک ٹھاک تھا لیکن اس نے مجھ راندہ
درگاہ قسم کے شخص کو جس نے ساری دنیا کے بائیو آملے، تیل، املوک، گوبر،
گوبھی ، تیل اور سرمہ سب کچھ سر پر مل کر دیکھ لیا تھا لیکن افاقہ نہیں ہو
ا تھا، مشورہ دینا چاہا۔
ـ’’ سر جی آپ کو ایک بات بتاؤں؟ ــ‘‘ہاں بولو۔ میں نے تھوڑا سا اکٹر کرکہا۔
’’سر جی سنا ہے ناریل کا پانی سر کے بالوں کے لیے۔۔۔ ‘‘وہ ابھی اتنا ہی بول
پایا تھا کہ میں نے اسے جھڑک کر رکھ دیا۔ابے چپ۔۔۔ چپ سالے۔۔۔ چپ! میرے اس
بگڑے رویے کی وجہ شاید یہ تھی کہ ابھی ایک سینئر سے سر کے بالوں کے لیے مفت
مشورہ لے کر آیا تھا۔
جہاں بھی جانا ہو، جب بھی جانا ہو، ہر جگہ بہت سارے غم خوار اردو گرد نظر
آئے۔ پہلے پہل تو ان کی باتیں غور سے سنتا تھا اور سر پر طرح طرح کے نسخے
ٹوٹکے آزماتا رہا آخر جب بالوں پر کوئی زور نہ چلا تو ان کی باتوں پر غصہ
آنے لگا۔ جب غصہ کرنے سے بھی بات نہ بنی تو کم شکل کنواری لڑکی کی طرح
مستقبل قریب و بعید کے ممکنہ سسرالیوں کی طرح شرماکر چھپ جانے لگا۔
شادی قریب آئی تو سب نے مشورہ دیا کہ نئے رشتہ داروں پر اس عظیم حقیقت کا
انکشاف نہیں ہونا چاہیے اس لیے وگ کا استعمال کیا جائے۔ چنانچہ رشتہ دیکھنے
سے شادی کے بعد تک وگ صاحب سر پر جمی رہی۔ مجال ہے جو ہم نے اسے ذرہ برابر
بھی اپنی جگہ سے سرکنے دیا ہو۔ لیکن ایک دن اچانک جب بیگم صاحبہ پیار کے
موڈ میں تھیں تونجانے کیسے وگ اتر گئی اور اس کے بعد جو کچھ ہوایقینا آپ اس
کو چشمِ تصور سے دیکھ سکتے ہوں گے۔
سر پر بال کم ہوتے ہوتے رہے نہ رہے یہ ہمیشہ ثانوی مسئلہ رہا۔ جس مسئلے کا
دن رات سامنا کرنا پڑا وہ دوستوں، عزیزوں کی وہ ہمدردیاں تھیں جنہوں نے
زندگی اجیرن کر دی۔ میری دعا ہے کہ زندگی بھر کوئی شخص گنجا نہ ہو اور اگر
ہوتو اس کے اتنے خیال رکھنے والے دوست عزیز رشتہ دار نہ ہوں جتنے میرے
ہیں۔۔۔میری آپ سے درخواست بھی ہے کہ اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کیجیے ورنہ
میری یہ دعا بددعا میں بھی بدل سکتی ہے کہ اﷲ کرے آپ سب کے گھروں میں بھی
میرے ڈوپلیکیٹ پیدا ہوں اور آپ بھی میری طرح گنجے ہوں ! |