پہلا اور آخری آپشن

جو حق سچ اور انسانی فلاح و خدمت کو شعار بنائے‘ لائق عزت و احترام ہے۔ سقراط اس حوالہ سے‘ یونان کا ہی نہیں‘ پوری انسانی برادری کا ہیرو ہے۔ علم و فضل میں کمال رکھتا تھا۔ وقت کے عالم فاضل یہاں تک کہ دیوتا بھی‘ اس کی اہلیت اور بلند فکری کے قائل تھے۔ ہر الجھا معاملہ‘ اس کی طرف پھیرتے۔ اتنے بڑے شخص کو وقت کی بےہدری قوت کھا گئی لیکن سقراط اور اس کی عظمت کے نشان نہ مٹا سکی۔

کہتے ہیں اس کی بیوی بولتی تھی اور بےتحاشا بولتی تھی۔ بولتے بولتے بےہوش جاتی۔ پھر سقراط دوا دارو کرتا‘ تو ہوش میں آتی۔ ایک بار اس نے پوچھا ‘ میں اتنا بولی تم کیوں نہیں بولے۔ جوابا سقراط نے کہا‘ میرے حصہ کا تم بول چکی ہو‘ میں کیا بولتا۔ بیگم سقراط کو حسن کی بدہضمی تھی۔ طاقت کو‘ شروع سے میں کی بدہضمی رہی ہے‘ تب ہی تو جب بولتی ہے‘ روزن پشت سے بولتی ہے۔

حضور کریم صلی الله علیہ وسلم نے دھیمی بااخلاق آواز میں گفت گو کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ بولنے میں جسم کے بہت سے اعضا ملوث ہوتے ہیں۔ مثلا پھیپھڑے‘ دل‘ سانس کی نالی‘ گلا‘ زبان‘ دونوں جبڑے‘ منہ کے زریں و بالائی حصے‘ سر کے اعصاب‘ کندھے کے اعصاب‘ جبین کے اعصاب‘ نتھنے‘ آنکھیں‘ اطراف کی کن پٹی‘ دو ہاتھ اور بازو‘ سپائنل کارڈ وغیرہ۔ گویا بلند آوازی نقصان دہ ہے۔ اسی تناظر میں غصہ کو حرام قرار دیا گیا۔

زکراں کی آواز کی بلند پروازی قابل حیرت ہے۔ صفدر بھی منہ میں زبان رکھتا ہے‘ بول سکتا ہے‘ کیوں نہیں بولتا۔ یقینا بہت بڑا سوالیہ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک کے مقابلے میں سو سننا پڑتیں تو بھی بولتا۔ یہاں معاملہ برعکس ہے۔ ایک کا دس ہزار سے کیا مقابلہ۔ اوپر سے ٹائم کی کوئی قید نہیں۔ آلو کے مفاہیم الو لیے جائیں تو کچھ کہا سنا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک بار اس نے کہا‘ کتنا بول چکی ہو‘ اب چپ ہو جاؤ۔ اس نے جوابا کہا‘ میں اپنے منہ سے بولتی ہوں‘ تمہارے منہ سے نہیں بولتی۔ جواب معقول تھا۔ اسے چپ لگ گئی۔ دوسرا اس کے تو صرف دونوں کان ملوث تھے۔ وہ بھی متضاد کردار ادا کرتے تھے‘ یعنی ایک سے سنتا تھا تو دوسرے سے نکالتا تھا۔ یہ منافقت نہیں‘ نظریہءضرورت کے تحت تھا۔ کوئی ضرورت کی چیز لانے کو کہتی‘ تو لا کر دیتا تھا۔ یہ بھی کہ اس قسم کی بات دوسرے کان سے نکالنے بھی نہیں دیتی تھی۔

صفدر مہامنشی ہاؤس کا کارندہ نہ ہو کر‘ کارندہ سا بن گیا تھا۔ مہامنشی ہاؤس‘ ایک چپ اور سو سکھ کا قائل ہے۔ جتنی مرضی درخواستیں گزر لو‘ اپنی جان کو رو پیٹ لو‘ جو مرضی کر لو‘ ان کا چلن نہیں بدلتا۔ ان کے ہاں کوئی کچھ نہیں۔ وہاں جاؤ باؤ بادشاہ کے قدم لو‘ کھیسہ گرم کرو اور واپس چلے آؤ‘ پھر آنیوں اور جانیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ملازم کی اے سی آر انتہائی خفیہ دستاویز ہے۔ پرموشن کے وقت‘ ملازم کو خود مہیا کرنی پڑتی ہے۔ اس سے بڑھ کر چپ کا دور دورہ کیا ہو سکتا۔ صفدر بےچارا عزت بچانے کی خاطر‘ بےعزتی کروا لیتا ہے اور چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے۔ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشنن ہے ہی نہیں۔ مہامنشی ہاؤس والوں کے پاس بھی‘ وصولی ہی پہلا اور آخری آپشن ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 194212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.