ملکیت میں کوئی کم یا زیادہ قیمت
کی چیز‘ جہاں ذی روح کو اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہے‘ وہاں اس میں تکبر کا
عنصر بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ فرعون کو یہ میں لے ہی ڈوبی۔
وہ تاریخ تو الگ رہی‘ الہامی کتب میں بھی مردود اور قابل دشنام قرار پایا۔
یہ سب جانتے ہیں‘ انسان کی ملک میں کچھ بھی نہیں۔ اصل مالک الله کی سوہنی
اور سچی ذات ہے۔ سب کچھ اسی کی طرف پھرتا ہے۔
ملکیت کی چیز‘ چھن سکتی ہے
کسی خرابی کا شکار ہو سکتی ہے۔
کسی وقت بھی حادثے کی نذر ہو سکتی ہے
بلاوجہ ریورس کے عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔
موت تہی دست کر دیتی ہے۔
جب یہ طے ہے کہ انسان کا ذاتی کچھ نہیں‘ تو کچھ ہونے کی صورت میں‘ تشکر
باری سے منہ موڑ کر تکبر کی وادی میں قدم رکھنا‘ جائز نہیں بنتا۔ اچھی کرنی
اچھی کہنی ہی امرتا کا جام نوش کرتی ہے۔
کہاں ہے مقتدر یا ملا ابو عمر حمادی کسی کو معلوم تک نہیں کہ یہ کون ہیں‘
منصور کو ہر کوئی جانتا ہے۔سقراط کو کس بدبخت بادشاہ نے موت کے گھاٹ اتارا‘
اس کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ سقراط کو کون نہیں جانتا۔ کل میں انٹرنیٹ پر
سرمد شہید کا مزار دیکھ رہا تھا‘ پھول اور عقیدت مند موجود تھے۔ اورنگ زیب
بادشاہ تھا‘ مقبرہ تو بن گیا‘ وہاں ویرانیوں کا پہرہ تھا۔ مجھے تکبر اورعجز
کا فرق محسوس ہو گیا۔
انتقام لینا ناجائز نہیں‘ ہاں البتہ معاف کر دینا‘ کہیں بڑھ کر بات ہے۔
جیسے کو تیسا‘ بہرطور رویہ موجود رہا ہے۔ انو‘ بڑا ہی مذاقیہ ہے۔ روتے کو
ہنسا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ ہی کوئی پان سات دن پہلے کی بات
ہے‘ گلی میں سے گزر رہا تھا کہ شرفو درزی کا کتا بلا چھیڑے‘ اس پر بھونکنے
لگا۔ وہ نیچے بیٹھ گیا اور جوابا بھونکنے لگا۔ کتا چپ ہو گیا اور اسے بٹر
بٹر دیکھنے لگا۔ شاید پہلی بار‘ عجب قسم کا ہم جنس دیکھنے کو ملا تھا۔ میں
نے پوچھا: یار تم ادھر لینے کیا گیے تھے۔
اوہ جی جانا کیا تھا‘ بہن کے گھر آٹا لینے گیا تھا۔
مل گیا۔
جی ہاں‘ مل گیا۔ میں کون سا پہلی بار گیا۔ مل ہی جانا تھا۔
میرے اندر عرفی کا یہ مصرع‘ مچلنے لگا۔
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را
کتا غالبا بل کہ یقینا‘ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاگل کسی غیر کے سامنے
دست سوال دراز کرنے کی بجائے‘ رب سے کیوں نہیں مانگتے۔ خیر انو تو ایک طرف‘
ہماری دفتر شاہی ہو کہ محلاتی دنیا‘ کاسہ تھامے نظر آتی ہے۔ مولویوں سے کیا
گلہ‘ جو درس میں پڑھنے والے بچوں کو‘ گھر گھر مانگنے بھیجج دیتے ہیں۔ دست
سوال دراز کرنے والے ذلت اٹھاتے ہیں‘ سو اٹھا رہے ہیں۔
زکراں کا باپ‘ توڑے بھر سامان لے جاتا‘ تو بابے فجے کآ ناہنجار کتا ضرور
بھونکتا۔ چوروں اور بھرے کھیسے والوں پر کتے ضرور بھونکتے ہیں اوریہ فطری
امر ہے۔
ہمارے ہاں کے لوگ‘ میمیں کرتے آ رہے ہیں۔ داماد یا داماد کے ملک کے وسائل
سے لابھ اٹھانا‘ ان کا آئینی حق ہے۔ یہ سب صفرر ہی تو ہیں ‘ جو مصلحت کی
صلیب پر مصلوب ہو رہے ہیں۔ ایک کی ککرے آمیز بینائی‘ بہت سوؤں کے گوڈوں
گٹوں میں بیٹھتی ہے‘ سو بیٹھ رہی ہے۔
کسی کم زور پر کتے کا بھونکنا‘ بہ ظاہر حیرت سے خالی نہیں۔ تاریخ اٹھا کر
دیکھ لیں‘ کتے کم زورں پر بھونکے اور ان کی جانب لپکے ہیں۔ کم زوروں کے پاس
بہت زیادہ ناسہی‘ ان کا کھیسہ خالی نہیں رہا۔ سومنات کا مندر یوں ہی نہیں
توڑا گیا‘ اس میں منوں سونا تھا۔ زہے افسوس ‘ فردوسی سے چوری خور لوگوں نے
ایک لٹیرے کو نبی قریب کر دیا۔ اصل حقائق پس پشت چلے گیے۔
مائی چراغ بی بی بیس سال سے رنڈیپا کاٹ رہی تھی۔ اس کے کردار پر انگی
رکھنا‘ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ بےچاری تھکے قدموں گلی میں سے گزر رہی تھی۔
گلی کا عام آوارہ بدبخت کتا پڑ گیا۔ گرنے کو تھی کہ پیچھے شیدے تیلی نے
سمبھالا دے دیا۔ دعا دینے کی بجائے‘ بولنا کیا‘ نوکیلی اور دھار دھار آواز
میں بھونکنے لگی۔ بڑھاپے میں بھی یہ زناٹا‘ ارے توبہ۔ اس کی پوترتا کو سلام
و پرنام۔ بڑھاپے کی جو بھی صورت رہی ہو‘ لگی ہونے کا احساس پوری شدت سے
موجود تھا۔ کتا اس لیے بھونکا‘ کہ اس کے ہاتھ میں کلو بھر گوشت کا شاپر
تھا۔ |