اکیسویں صدی اور اردو ناول :ایک جائزہ

’’ نئی صدی کی ابتدا سے تا حال جو ناول شائع ہوئے ہیں ، ان میں سے بیشتر کو پڑھ کر میں مطمئن نہیں ہوں کیوں کہ یہ ناول حسن معنویت اور ندرت سے اس قدر محروم ہیں کہ ان میں نہ کوئی کسی جہان دیگر کی سیر کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کے مطالعے سے نئی روشنی ملتی ہے ۔‘‘
تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : اکیسویں صدی اور اردو ناول
مصنف : ڈاکٹر سیفی سرونجی
قیمت : 200/-=روپئے ۔صفحات : 144
ملنے کے پتے : سیفی لائبریری سرونج ( ایم پی ) موبائل ،9425641777
سدبھاؤنا منچ سرونج ( ایم پی )
سیفی سرونجی ایک طویل عرصہ سےجاری اردو جریدہ’ انتساب‘ کے مدیر ہیں ۔ وہ نثرکے ساتھ ساتھ شاعری بھی اچھی خاصی کرلیتے ہیں ،اب تک مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جوحسب مراتب عوامی خراج بھی وصول چکی ہیں ’’اکیسویں صدی اور اردو ناول ‘‘ ان کی تازہ ترین کتاب ہے ۔جس پر کچھ تاخیر سے گفتگو ہورہی ہے ۔’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘۔ خیر آمدم برسر مطلب ، مصنف نے اس کتاب میں مختلف ناول نگاروں کی تخلیقات کا ایک جائزہ لیا ہے ، جوکہ انتہائی مختصر اور سرسری ہے، وہ چاہتے تو اس تجزیئے میں مزیدتعمق اور وسعت پیدا کرسکتے تھے ،ایسی صورت میں اگر کتاب کی ضخامت بڑھ جاتی تو کیا فرق پڑتا ۔ان کے قلم کی برق رفتاری، تیز بہتے ہوئے اس سیلابی پانی کی طرح ہے، جو اپنے ساتھ اشیاء کا ایک ڈھیر بھی بہا لاتی ہے،اب قاری ہمت جٹائے اور اس ڈھیر سے کچھ اپنے کام کی چیزیں نکال لے ۔اس طرح یہ کتاب قاری کی ممتحن بھی ہے ۔ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے غضنفر، نورالحسنین ، رحمان عباس ، مشرف عالم ذوقی ، آنند لہر ، صوفیہ انجم تاج ، شائستہ فاخری ، صادقہ نواب سحر، اقبال متین ، ترنم ریاض ، وحشی سعید ، اقبال انصاری ، عمر فرحت ،شمس الرحمان فاروقی ، جتیندر بلّو ، دیپک کنول ، مقصود الہٰی شیخ ، نقشبند قمرنقوی ، سرور غزالی ، قمر جمالی اور نند کشور وکرم کے ناولوں کا مختلف جہات سے جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ فہرست میں چند ایسی قدآور شخصیات ہیں جن کی ادبی خدمات اظہرمن الشمس ہیں ،توکچھ ایسی ہیں جو اتنی معروف نہیں، لیکن ان کی بلند نگاہی اور تخلیقی صلاحیتیں بہت جلداپنا ادبی تعین کرلیں گی ۔مگر وہیں کچھ ایسے بھی نام موجود ہیں جوتخلیق نگاری کی اس منزل پر ہیں جنہیںلکھنے سے زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ کتاب کا مقدمہ پروفیسر علی احمد فاطمی نے لکھا ہے، جو طویل تو ہے لیکن پرمغز اور چشم کشا ہے ۔ایک جگہ انہوں نے صاحب کتاب کا ایک اقتباس نقل کرکے افسانوں کی موجودہ تخلیق و ہیئت پر بڑی مفید بحث کی ہے ۔
’’ نئی صدی کی ابتدا سے تا حال جو ناول شائع ہوئے ہیں ، ان میں سے بیشتر کو پڑھ کر میں مطمئن نہیں ہوں کیوں کہ یہ ناول حسن معنویت اور ندرت سے اس قدر محروم ہیں کہ ان میں نہ کوئی کسی جہان دیگر کی سیر کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کے مطالعے سے نئی روشنی ملتی ہے ۔‘‘
‘یہ اور اس طرح کے کچھ اور بھی اقتباسات پیش کئے جاسکتے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ صدی میں بلا شبہ اچھے ناول لکھے بھی جارہے ہیں اور انہیں قاری بھی فراہم ہورہے ہیں، لیکن ان کی تعداد بس انگلیوں پر ہی شمار کی جاسکتی ہے ۔یہ صورتحال بہر حال اردو ادب کے تحفظ اور بقا کے تعلق سے تشویشناک ہے ،جس پر نہ صرف یہ کہ غوروخوض کیا جائے بلکہ اس کے تدارک و علاج پر کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ اس جائزے کے دوران تجزیہ کار کہیں کہیں انتہائی مستعد نظر آتے ہیں اور جملہ تنقیدی لزومات کا بڑی حد تک خیال رکھتے ہوئے معنی خیز بحث کرتے ہیں، لیکن اگلے ہی صفحات میں کمزور پڑجاتے ہیں۔ اس طرح ان کے محض سرسری طور سے آگے بڑھ جانے کے سبب قاری شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔اس کے باوجود یہ کتاب اکیسویں صدی کی ناول نگاری کی تفہیم میں ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر کھڑے رہ کر تحقیق کی کچھ اور راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔زبان سادہ عام فہم اور رواں ہے جو قاری او ر مصنف کے درمیان رابطےکو مضبوط بناتی ہے ۔
متاع لوح وقلم ( شعری مجموعہ )
ڈاکٹر ذاکرحسین ذاکر ایک ریٹائرڈ پولس افسر ہیں۔ جن کا زمینی تعلق تو اصلا ً جونا گڑھ گجرات سے ہےلیکن بعد میں ان کے خاندان نے کھنڈوہ ( ایم پی ) میںسکونت اختیار کرلی ، فی الحال وہ بلاسپور (ایم پی ) میں قیام پذیر ہیں ۔ادب سے ایک خاص لگاؤ بچپن سے ہی تھاجس نے انہیں شاعری کی طرف راغب کیا ، مشاعروں اور ادبی نشستوں میں مسلسل شرکت نے ان کے ذوق و شوق کو اور بھی جلا بخشی ، ملازمت سے سبکدوشی کے بعداب وہ کل وقتی طور پر اسی میدان میں اپنے تخلیقی جوہر آزمانے میں مصروف ہیں ۔ متاع لوح و قلم ( شعری مجموعہ ) ان کی اولین کاوش ہے ،جو بیشتر غزلوں پر مشتمل ہے ، کچھ نظمیں بھی ہیں ۔جس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ موصوف کے اندر اپنی بات سلیقہ مندی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن وہ شعور ابھی اپنی ابتدائی منزلوں پر ہے ۔ شاعری اور خاص طور سے غزل گوئی کیلئےجس فکری معیار اور بلندآہنگ کی ضرورت ہوتی ہے ابھی وہاں پہنچنے کیلئے انہیں کئی سخت مراحل درکار ہیں ۔اس امید کے ساتھ کہ وہ جلد ہی اس جانب توجہ مبذول کرلیں گے ۔حسن و عشق ہی ان کا خاص فکری محور ہے۔ بلکہ اسی کو انہوں نے بنیا د بنایا ہے ۔غم روزگاراور غم آلام کا تذکرہ بس خال خال ہی نظر آتا ہے ، ایسا لگتا ہےکہ ان کی بند آنکھوںمیں صرف حسن دل افروز کے ہی خواب بسے ہوئے ہیں ، ورنہ انہیں سماج و معاشرے کی وہ خارداروادیاں بھی نظر آجاتیں جن پر چل کر پاؤں میں آبلے پڑجاتے ہیں ۔بہر حال یہ ان کے شعری سفرکا ابھی پہلا پڑاؤ ہے ، امید کی جانی چاہئے کہ جلد ہی وہ ان وادیوں کو بھی سر کرلیں گے اور ان کی شاعری زندگی کے مختلف رنگوں سے مزین ہو جائے گی۔ پھر غم جاناں اور غم دوران دونوں کے امتزاج سےایک نئی جہت سامنے آسکتی ہے ، مگر اس سے پہلے انہیں زبان و بیان میں مزید قدرت ونکھار کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔چند اشعار نذر قارئین کئے جارہے ہیں ۔
تم نے غیروں کیلئے خوب سجائی محفل روکنے کو مجھے دروازہ پر درباں بیٹھا
کسی کو دولت وطاقت پر جب غرور آیا عذاب او ر زوال اس پر پھر ضرورآیا
بس ان کے دست حنائی ہی چومنا ہے مجھے بلا سے مہندی وہ لگوائیں سر سے پاؤں تلک
200/-روپئے میں یہ کتاب ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر، بھائی جی پبلشنگ ہاؤس 327/19جونی لائنس بلاسپور 49500(چھتیس گڑھ ) موبائل : 09425079326سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
بے ساختہ ( افسانچے )
افسانچوں پر مبنی اس کتاب کے خالق ڈاکٹر جاوید حسین پالوجی شارب ہیں ۔ اردو اخبارات کے قارئین کیلئے یہ نام نیا نہیں ہے۔موصوف ایک عرصہ سے سیاسی ، ادبی او ر طبی موضوعات پر نہ صرف مسلسل لکھ رہے ہیں ،بلکہ عوام الناس کو ایک جہت بھی فراہم کررہے ہیں ۔شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں ، صحرا کے پھول نامی شعری مجموعہ کچھ عرصہ قبل شائع ہوچکا ہے ، اور اب افسانچوں کی طرف بھی متوجہ ہوئے ہیں ،اور بڑی بے ساختگی کے ساتھ اپنی ایک اور کتاب’ بے ساختہ‘ بھی لے آئے ہیں۔مختلف اصناف پر ان کی گرفت دیکھ کر ایسالگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب، علامہ اقبال کےشعر ’دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے‘ کی عملی تشریح میں مصروف ہیں ۔کتاب کے بیشتر افسانچے سماج کے مختلف اتار چڑھاؤکو بڑی بے باکی سے اجاگر کرتے ہیں ، یہی نہیں یہ افسانچے ایسا آئینہ خانہ بن گئے ہیں جن میں سماج کے مختلف النوع چہرے اپنی اصل حالت میں صاف صاف نظر آتے ہیں ۔مصنف کی بے ساختگی بڑی حد تک افسانچوں کواہم بناتی ہے لیکن اگر وہ زبان و بیان اور تیکنک پربھی دھیان دیتے تو ان کے افسانچے نہ صرف قیمتی بن جاتےبلکہ ان کی اثرانگیزی اور بھی بڑھ جاتی ۔ یہ کتاب بہر صورت قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ، 170/-روپئےمیںیہ کتاب مندرجہ ذیل نمبروں سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔9322811430/9867044326
ماہنامہ گل بوٹے ( ممبئی )
گل بوٹے کا تازہ شمارہ بازار میں پہنچ چکا ہے ۔حسب معمول اپنے دامن میں وہ ساری دلچسپیاں سمیٹے ہوئے ہے جو بچوںکے اندر ترغیبی و مسابقتی جذبے کو ابھارتی ہیں ۔ مدیر فاروق سید کی ذاتی توجہ اور خوش اہتمامی ورق ورق سے مترشح ہورہی ہے ۔اس شمارے کے قلمکاروں میں منور حسن کمال ، حامد اقبال صدیقی ، امان الحق بالاپوری ، نوشاد بیگم ، حیدر بیابانی ، حشمت کمال پاشا ، قیصر سرمست ، ستار فیضی وغیرہم شامل ہیں ۔ سفرنامہ کراچی کی صورت میں مدیر کی تحریر نہ صرف معلومات افزاہے ،بلکہ زبان و بیان کی روانی کے ساتھ دلچسپ بھی ہے ۔ رسالے کی قیمت 30/-روپئے ہے اسے بچوں کو بطور تحفہ دیا جاسکتا ہے ۔ مدیر سے رابطے کا نمبر : 9322519554
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.