کتابوں پر تبصرے

تعلیمی زاویئے : تعلیم میں رائج نئے اصولوں پر ایک مفید کتاب
تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : تعلیمی زاویئے
مصنف : بشیر احمد انصاری
ناشر : سلیقہ کتاب گھر ، ۱۵۶۰، کیمپ پونہ
صفحات : 98قیمت : 100/-روپئے ش
ملنے کے پتے : کیمپ پونہ ( ۱) موبائل : 9850414456 ۔سیفی بکڈپو
، امین بلڈنگ ۵۳؍ابراہیم رحمت اللہ روڈ ممبئی ۳ ۔ شاہد انصاری مہاراشٹر
ہاؤسنگ بورڈ کالونی ، مالیگاؤں ناسک
’’چار دہائی قبل جب میں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی کتاب ’’ خطبات ‘‘ پرھی تھی تو اندازہ ہوا کہ اردو زبان میں تعلیم کے موضوع پر کم لکھا گیا ہے اور خطبات میں شامل عنوانات پر لکھنے کی بہت ضرورت ہے ۔اس دو ر میں تعلیم کے موضوع پر انگریزی میں کتابیں شائع ہوتی رہیں، ان میں کئی کتابیں غیر ملکی مصنفین کی تھیں۔ آج بھی ایم ایڈ جیسے امتحان میں غیر ملکی کتابوں اور اصولوں کی سفارش کی جاتی ہے ۔انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کتابیں اردو زبان کے طلباء پڑھنے اور سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ۔البتہ گذشتہ دو تین دہائیوں میں اردو زبان میں مختلف تعلیمی عنوانات پر مضامین لکھے جانے لگے ۔تاہم تعلیم میں نصاب اور انتظامیہ میں جس تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں اس کا تقاضا ہے کہ تعلیم میں رائج ہونے والے نئے اصولوں اورانتظامیہ پر اردومیں زیادہ سے زیادہ لکھا جائے۔‘‘

یہ اقتباس محترم بشیر احمد انصاری کی تازہ کتاب تعلیمی زاویئے سے ماخوذ ہے ۔جسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا قطعا ً مشکل نہیںہوگا کہ موصوف تعلیم کے موضوع سے نہ صرف غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں ،بلکہ انہیں قوم و ملت کے اندر تعلیمی فقدان اور اس کے ہولناک نتائج کا بھی بخوبی ادراک ہے ۔اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو بلا شبہ حق بجانب ہیں ۔موصوف کا تعلق تعلیمی میدان سے محض رسمی نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ اس میدان میں ان کی بے انتہا دلچسپی اور اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں مختلف جہتوں میں ان کی پیش قدمی یہ باور کرتی ہے کہ وہ اس میدان کے کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ ایک ایسے شہسوار ہیں جو اپنی پیرانہ سالی کے باوجود نہ سست گام ہوئے ہیں نہ ہی ان کے ارادوں اور جذبات میں کسی طرح کااضمحلال آیا ہے ۔

غالباً ۲۰۰۸ میں موصوف کی ایک کتاب ’ تہذیبی نقوش‘ منظر عام پر آئی تھی جس پر سب سے پہلا تبصرہ اردو ٹائمز میں راقم نے ہی کیا تھا لیکن نہیں معلوم کہ موصوف اپنی تازہ کتاب ’ تعلیمی زاویئے ‘ میں اس کا ذکرنہ کرسکے ۔ممکن ہے ، موصوف کو میری کم علمی کا اندازہ ہوگیا ہوگا ، یا پھر میری کم آمیزی آڑے آئی کیونکہ تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ پی آر او شپ کے اس دور میں جس نے زیادہ خود نمائی کی وہ کامیاب ہوا ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ موصوف کی نظر سے وہ تبصرہ ہی نہ گذرا ہو ،خیر ہمیں بدگمانی کے بجائے خوش گمانی کی ہدایت دی گئی ہے ، سو ہم اس اندیشےکو یہیں چھوڑ تے ہیں ۔ کتاب میں کل گیارہ مضامین شامل ہیں جن کے ذریعے موصوف نے کاروان علم کوآگے بڑھانے اورنوجوانان ملت کو اس کارواں سے نہ صرف جڑنےبلکہ اپنی بساط و حیثیت سے بھی زیادہ اسے تقویت پہنچانے کے مختلف طریقوں اور جہات پر روشنی ڈالی ہے جس پر روبہ عمل ہوکر سماج او ر معاشرے میں سرخروئی حاصل کی جاسکتی ہے ۔بقول مصنف کتاب میں شامل بیشتر مضامین پچیس تیس برس قبل تحریر کئے گئے تھے لیکن اردو والوں کے بیشتر مسائل چونکہ آج بھی بڑی حد تک وہیں کے وہیں ہیں اس لئے یہ مضامین بھی گویا غیر مستعمل ہی ہیں ، ایسے میں ان مضامین پر پرانے ہونے کا لیبل کس طرح لگایا جاسکتا ہے ، وہ آج بھی اپنی افادیت ، ضرورت اور اہمیت کے اعتبار سے کنوارگی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔دوسری طرف ہم اردو والوں کی بے بضاعتی ، سرد مہری اور زوال آمادگی بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اتنا طویل عرصہ گذرجانے کےباوجود ہمارے اندر آج بھی فعالیت کا زبردست فقدان ہے ۔کتاب میں شامل مضامین میں سے چند عنوانات یہ ہیں مثلا ً نصابی کتب کی تیاری میں سماج کا حصہ ، عبارت خوانی کی صلاحیت اور معیار خواندنی ، تعلیم میں سنسر شپ ، معیاری اردو زبان کی تدریس ، اضافت کی علامات ، بول چال اور ادبی زبان کا فرق ۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف نے کس قدر گہری اور ہمہ جہتی بحث کی ہوگی ۔مصنف عربی و فارسی زبانوں پر بھی درک رکھتے ہیں جس کے سبب ان کی زبان مصفی ٰ، رواں دواں اور شیریں ہے ۔ اردو کی زبوں حالی اور اردو والوں کی بے حسی کے تناظر میں یہ کتاب آب حیات سے کم نہیں ۔ایوان اردو میں ہم اس کتاب کا خیر مقدم کرتےہیں ۔
اجالے تخیل کے ( شاعر یوسف ندیم )

شاعری انسانی جذبات و احساسات کی خوبصورت ترسیل کا نام ہے ،گوکہ اب یہ فن صرف تفنن طبع تک ہی محدود رہ ہوکر رہ گیا ہے اس کے باوجود اس کی اہمیت اوراثرانگیزی کی صفت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔اچھے اشعارآج بھی توجہ مبذول کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن زبان و ادب سے بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی ، خصوصا ً اردو ادب کے انحطاط نے سب سے زیادہ ستم شاعری پر ڈھائے ہیں ۔نثر نگاری توبڑی حدتک آج بھی معتبریت کابھرم قائم رکھے ہوئے ہے لیکن زوال پذیر شاعری نے جیسے ادب کا جنازہ ہی نکال دیا ہے ۔آج اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کا ایک بہت بڑا حصہ غیر معیاری اور ابتذال آمیز شاعری پر مشتمل ہوتا ہےاس پر مستزاد یہ کہ ہر شاعرخود کو میروغالب سے کسی طرح کمتر نہیں سمجھتا اور خودپرتنقید کو حرام سمجھتا ہے ۔بہر حال ان جملوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں نکالنا چاہئے کہ فی زمانہ شاعری کے سوتے خشک ہوگئے ہیں ۔اچھی شاعری اب بھی ہوتی ہے لیکن بس خال خال ۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ادبی قحط میں اچھی شاعری شاذ و نادر ہی سہی کس قدر خوش کن اور مسرت بخش لمحات سے ہم کنار کرتی ہوگی ۔

یوسف ندیم کی شاعری انہی فرحت انگیز کیفیات کی نقیب ہے ،جو فکری وسعت ، گہرے احساسات اور سماجی و معاشرتی مدوجزر کی آئینہ دار ہے ، اسی کے ساتھ ساتھ جب پیشکش کا انداز دل نشیںاور جادوئی ہو تو وہ شاعری دوآتشہ ہی نہیں سہ آتشہ اور چہار آتشہ ہوجاتی ہے ۔ایک عرصے تک شعبہ تدریس سے وابستگی اور معاشرت سے قربت کے سبب ان کی شاعری زمینی سطح سے اچھی طرح مربوط ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں غم جاناں سے زیادہ غم دوران کا درد پایا جاتا ہے ۔ وہ اپنی شاعری کو اس عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں جو انسان کو انسان کامل بنانے کی طرف مائل کرتی ہے ۔ ان کے کلام میں زیریں لہریں صاف محسوس کی جاسکتی ہیں ،جو دل کے نہاں خانوں کو روشن و منور کردینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ۔ وہ اپنی فکر کو جب شعری پیکر میں تبدیل کرتے ہیں تو ان کی شاعری ایک ایسا آئینہ خانہ بن جاتی ہے ، جس میں اچھی یا بری تمام تصویریں اپنی اصل حالت میں نظر آنے لگتی ہیں ۔

اس سے قبل ’’پر پرواز ‘‘ کے ذریعے اپنی غزلوں کے حوالے سے لوگوں کو دلوں میں ہلچل مچا چکے ہیں۔اب دوسری پیشکش کے ذریعے بڑی گہرائی تک دلوں میں اتر بھی گئے ہیں ۔یہ کمال بلا شبہ انکی شاعری کا ہے جو لوگو ں کو حال سے آشنا اورمستقبل سے آگاہ کرتی ہے ۔اپنے اشعار میں وہ محاوروں کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں ۔زبان و بیان پر قدرت اور شیریں لب و لہجے کے ساتھ قدیم و جدید رنگوں کی آمیزش سے جب ایک نیا رنگ ابھرتا ہے تو ان کی شاعری قوس قزح بن جاتی ہے جس سے مسرتوں کے چشمےابل پڑتے ہیں۔چند اشعار بطور تمثیل یہاں درج کئے جارہے ہیں ۔

؍قتل ناحق پہ ہے غمگین اذان مسجد ؍غمزدہ ہوگئے مندر کے شوالے کتنے ؍ایک نشہ ہے تمہارے جلوؤں میں؍میری آنکھوں کی بے خودی تم ہو ؍رنگ سب کھل گئے زمانے کے ؍ دن گئے رازکو چھپانے کے ؍آج مہروخلوص و عشق و وفا ؍ دانت ہیں یہ فقط دکھانے کے ؍زخم آنسو، اذیتیں پیہم؍ یہ تو انعام ہیں زمانےکے ؍
سہ ماہی انتساب ( سرونج ۔مدھیہ پردیش )

سیفی سرونجی کی ادارت میں ۳۴؍برسوں سے اشاعت پذیر انتساب کا ۱۰۱؍واں شمارہ ہمیں اس قدر تاخیر سے موصول ہوا کہ اس کی دوسری اشاعت کا وقت موعود آپہنچا ، لیکن ا س کے مشمولات اور حسن انتخاب نے مجبور کردیا کہ کالم میں ا سےشامل کیا جائے ۔مضامین کی طویل فہرست میں کچھ اہم تخلیقات توجہ مبذول کرتی ہیں ۔افسانوں کا انتخاب سابقہ شماروں سے قدرے بہتر ہے۔ جبکہ غزلوں اور نظموںمیں بھی ایک اہتمام نظر آتا ہے ۔ڈاکٹر حنیف ترین کے شعری سفر پر گوشہ شائقین ادب کیلئے کسی توشے سے کم نہیں ۔جن اہل قلم کی تحریروں سے انتساب روشن ہے ان میں اقبال مجید، حقانی القاسمی ، احمد طارق ، شاد سجاد، ڈاکٹر محفوظ الحسن ، نکہت پروین ، اعجاز احمد میر ، نورشاہ ، مراق مرزا ، رؤف خوشتر ، ڈاکٹر فرغانہ ، ڈاکٹر غلام حسین وغیرہم شامل ہیں ۔تقریبا ً تین سو صفحات پرمحیط اس رسالے میں اہم اور مختلف ادبی مواد موجود ہیں ،جس کیلئے مدیر سیفی سرونجی قابل مبارکباد ہیں ۔شمارے کی قیمت 100/-روپئے ہے ، مدیر سے رابطے کا نمبر 9425641777
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.