کلمہ کی بنیاد پر ایک ہوجائیں…!

اپنے فروعی اختلاف کو بھلا کر اصول پر جمع رہیں تبھی ہم ہندوستان میں اپنا حق چھین سکتے ہیں ۔ حق وہ مانگے جو فقیر ہوں کیوں کہ فقیر باہر سے آتے ہیں۔ہم اسی ہندوستان کے رہنے والے ہیں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اگر وہ ہمیں حق نہیں دے رہے ہیں تو ہم ان سے چھین لیں … لیکن چھیننے کی صلاحیت ہم میں جبھی پیدا ہوگی جب ہم متحد ہوں گے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ دیوبندی ،بریلوی کے یہاں رشتہ کرنانہیں چاہتا اہل حدیث اپنی لڑکی بریلیوں کو نہیں دیتا کہ وہ کافرہے۔بریلوی اپنی لڑکیاں دیوبندی کو نہیں دیتے کہ وہ گستاخ رسول ہے۔ ارے کہاں کے گستاخ ؟ کون گستاخ ؟ جتنا بریلوی نبی ﷺ سے محبت کرتے ہیں اتنا ہی دیوبندی بھی کرتے ہیں ، جتنا بریلوی قرآن پڑھتے ہو اتنا اہل حدیث بھی قرآن پڑھتے ہیں پھر کیوں یہ مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں۔ نوجوان نسل ان مسائل سے مزیددوچارہے ۔ہمارے جاننے والوں میں لڑکی کا رشتہ گھروالوںکو اس لئے پسندنہیںکہ لڑکادیوبندی ہے ۔یہ ایک المیہ ہے ۔آج سے دو سو سال پہلے کون دیوبندی تھا …کون بریلوی تھا …کون اہل حدیث …کوئی بتا سکتا ہے؟ سب آپس میں رشتے دار ہی تھے نہ پھر کیوں آج دور ہوگئے …کیوں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے پرتلے ہوئے ہو ۔کافروں سے بھی کفر کی وجہ سے عناد رکھنا اور اس سے بات چیت نہ کرنا غلط ہے وہ بھی اللہ کے بندے ہیں اللہ نے آپ پر احسان کیا آپ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اگر انہیں بھی توفیق مل جائے گی وہ بھی اسلام لے آئیں گے ۔
قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کا تذکرہ بیت ہی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سولہویں پارے میں جہاں حضرت موسی علیہ السلام کے طور پر جانے کاذکرہے وہیں یہ بھی مذکور ہے کہ جاتے ہوئے انہوں نے اپنا خلیفہ اور اپنا نائب اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بنایا تھا۔ پوری قوم بنی اسرائیل کے نگراں ایک نبی نے اپنے عدمِ موجودگی میں دوسرے نبی کو بنایا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام کے طور پر تشریف لے جانے کے بعد قوم میں موجود ’’سامری‘‘ نامی شخص نے ایک ایسابچھڑا بنایا جس میں کھنکھناہٹ تھی۔ اور بنی اسرائیل کو اس بات پر ابھارا کہ یہی تمہارا معبود ہے تم اسی کی پرستش کرو۔ اس نئے فتنہ کی وجہ سے قوم کے بعض افراد سامری کے جال میں پھنس گئے اور انہوں نے بچھڑا کو اپنا معبود تسلیم کرلیا۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی ہوئی اور انہیں اس واقعہ کی اطلاع ملی تو غصہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی کو پکڑ لیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا کہ’’ اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر کو نہ پکڑ مجھے اس بات کاخوف تھا کہ تم کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کردیا ہے اور میری بات کا لحاظ نہیں کیا۔ ‘‘ اب اگر یہاں رک کر سوچا جائے تو ایک بہت بڑی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ محض اتحاد و اتفاق کو قوم میں برقرار رکھنے کیلئے ایک نبی نے بھی کچھ دنوں تک شرک جیسی قبیح شے کو برداشت کیا ہے تو پھر آج آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ایک ہی نبی ایک خدا ایک قرآن اور ایک قبلہ اور ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر ایک مسلک کے نزدیک دوسرے مسلک کا عمل غیر شرعی اور حرام ہے تب بھی بنیادی چیزوں میں یکسانیت تو برقرار ہے۔ اتنا یادرکھیں ہم دیوبندی بریلوی اہل حدیث کے چکر میں پڑکر اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ۔ حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ اسی طرح منتشر رہیں ہم انہیں مزید پستی کی طرف دھکیلتے رہیں اور جب یہ بیدار ہوں تب تک سارا معاملہ ہمارے ہاتھ میں ہو۔ اور آج شاید یہی وقت ہے کہ حکومت پالیسیاں مسلمانوں کے خلاف بنانے کی کوشش کررہی ہے ہے۔کبھی طلاق ثلاثہ کا مسئلہ موضوع بحث بنایا جارہا ہے تو کبھی کوئی اور شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کی وحدانیت اوراتحادکوپرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت اگر کوئی قانون مسلم مخالف بناتی ہے تو مسلمانوں کا ایک گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے لیکن وہیں دوسرا گروہ اسے قبول کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے انہیں مزید قوت ملتی ہے اور انہیں اسے پاس کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ کوئی بھی مسلم مخالف مسئلہ اُٹھایا جاتا ہے ہم مسلکی عینک لگا کر دیکھتے ہیں لیکن مسلم دشمن عناصر مذہبی عینک سے اسے دیکھتے ہیں کہ ہم انہیں اسلام سے کتنا دور کرسکتے ہیں انہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ سمجھتے نہیں۔ فروعات میں الجھ کر اصول سے انحراف کرتے جارہے ہیں۔ وہ کس کس طرح سے ہمارے ایمان پر شب خون مارنے کے لئے کوشش کررہے ہیں ہمیں اس کا ادراک نہیں ہمیں سمجھنا ہوگا نہیں تو ہم بھی صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے باقی ہمارے اعمال وہی کافروں والے ہوں گے ہم بھی یوگا کریں گے وہ بھی یوگا کریں گے تو ہم میں اورمیں فرق کیا رہ جائے گا۔ حکومت نے پہلے کہا تھا یوگا ایک ورزش ہے اسے کرنا چاہئے مسلمانوں کے ایک گروہ نے کہا ہاں ورزش ہے اسے کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن دوسرے گروہ نے کہا ہمارے پاس نماز جیسی چیز موجود ہے تو پھر ہم کیوں یوگا کریں ؟۔ اس میں شرکیہ کلمات کا ورد ہے جو مذہب اسلام کے منافی ہے ۔ ہم اسے نہیں کرسکتے ۔ بات آئی گئی … لیکن جب وزارت آیوش نے عالمی یوگا کے دوسرے سال کے لئے اپنا منشور بنایا تو اس میں اوم کے جاپ کو لازم قرار دیا اور کہا کہ بنا اوم کے یوگا میں مزہ ہی نہیں آتا ہے کیا اب بھی مسلمانوں کے دوسرے گروہ اسے مسلم مخالف نہیں سمجھیں گے۔ خدارا وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آپس میں متحدہوجائیں۔اپنے فروعی اختلاف کو بھلا کر اصول پر جمع رہیں تبھی ہم ہندوستان میں اپنا حق چھین سکتے ہیں ۔ حق وہ مانگے جو فقیر ہوں کیوں کہ فقیر باہر سے آتے ہیں۔ہم اسی ہندوستان کے رہنے والے ہیں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اگر وہ ہمیں حق نہیں دے رہے ہیں تو ہم ان سے چھین لیں … لیکن چھیننے کی صلاحیت ہم میں جبھی پیدا ہوگی جب ہم متحد ہوں گے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ دیوبندی ،بریلوی کے یہاں رشتہ کرنانہیں چاہتا اہل حدیث اپنی لڑکی بریلیوں کو نہیں دیتا کہ وہ کافرہے۔بریلوی اپنی لڑکیاں دیوبندی کو نہیں دیتے کہ وہ گستاخ رسول ہے۔ ارے کہاں کے گستاخ ؟ کون گستاخ ؟ جتنا بریلوی نبی ﷺ سے محبت کرتے ہیں اتنا ہی دیوبندی بھی کرتے ہیں ، جتنا بریلوی قرآن پڑھتے ہو اتنا اہل حدیث بھی قرآن پڑھتے ہیں پھر کیوں یہ مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں۔ نوجوان نسل ان مسائل سے مزیددوچارہے ۔ہمارے جاننے والوں میں لڑکی کا رشتہ گھروالوںکو اس لئے پسندنہیںکہ لڑکادیوبندی ہے ۔یہ ایک المیہ ہے ۔آج سے دو سو سال پہلے کون دیوبندی تھا …کون بریلوی تھا …کون اہل حدیث …کوئی بتا سکتا ہے؟ سب آپس میں رشتے دار ہی تھے نہ پھر کیوں آج دور ہوگئے …کیوں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے پرتلے ہوئے ہو ۔کافروں سے بھی کفر کی وجہ سے عناد رکھنا اور اس سے بات چیت نہ کرنا غلط ہے وہ بھی اللہ کے بندے ہیں اللہ نے آپ پر احسان کیا آپ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اگر انہیں بھی توفیق مل جائے گی وہ بھی اسلام لے آئیں گے ۔ ہمارا مشاہدہ ہے گھروں میں رہنے والے ایک بھائی دیوبندی ہیں تودوسرے بریلوی لیکن مسلکی ملائوں نے ان میں اتنا زیادہ تفرقہ پیدا کردیا ہے کہ وہ اسی میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کوکافر قرار دے رہے ہیں ۔ اسلام بھائی چارے کامذہب ہے لیکن یہاں بھائی بھائی سے جدا ہورہا ہے تو پھر ہم کون سے اسلام پر عمل پیرا ہیں بتا سکتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے جب مکہ سے ہجرت کرکے نبی اقدس ﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو انصاران مدینہ نے مواخات کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک پیش نہیں کی جاسکتی۔ اپنے اعمال پر نظر رکھتے ہوئے کیا ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اسی انصاران مدینہ کے چاہنے والے ہیں جنہوں نے مکہ کے مہاجروں کے لئے اپنی زمینیں دے دیں ،گھر دے دیئے، دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے کران سے اپنے مہاجربھائیوں کی شادیاں کروادی ں۔قرآن مجیدمیں ان کے جذبہ ایثارکی تعریف کی گئی۔ اس اخوت دینی کونعمت خداوندی بتاکرصحابہ ؓ کی توصیف کی گئی۔کیا دے سکتے ہیں ہم ایسی قربانیاں ؟ آخر ہم بھی تو انہیں ہی چاہتے ، ہیں توپھرکیو ںنہیں دیتے ۔ اتنا یاد رکھیں ما انا علیہ واصحابی پر عمل پیرا ہی فرقہ ہی ناجی ہوگا اسے ہی جنت میں جگہ ملے گی ۔ اور باقی تہتر فرقے جو شرک کے مرتکب نہیں ہوں گے کلمہ کی بنیاد پر وہ بھی اعمال کی سز بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔ اب ہم اپنے اعمال کا حضورﷺ اور اصحاب رسول ﷺ سلف صالین سے موازنہ کرلیں تو ہمیں شاید معلوم ہوجائے کہ ہم کہاں ہیں ہم نجات پانے والوں میں سے ہیں یا جہنم کے وادیوں میں پھینکنے جانے کے لائق ہیں۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.