عبدالرئوف صاحب ! جواب حاضر ہے
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
مورخہ 2 جون بروز جمعرات روزنامہ جنگ میں عبدالرئوف صاحب کا کالم بعنوان ’’جماعت اسلامی جواب دے‘‘شائع ہوا۔ہم نے اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر روزنامہ جنگ میں بھیجا، لیکن کئی روز گزرنے کے باوجود انہوں نے ہمارا نقطمہ نظر شائع نہیں کیا ۔ اب یہ نقطہ نظر ہم یہاں پر قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ |
|
مورخہ 2 جون بروز جمعرات روزنامہ
جنگ میں عبدالرئوف صاحب کا کالم بعنوان ’’جماعت اسلامی جواب دے‘‘شائع
ہوا۔پڑھ کر حیرت ہوئی افسوس نہیں ہوا۔ حیرت اس بات پر ہوئی عبدالرئوف صاحب
جیسے فرد نے ایک ایسا کالم لکھا جس میں حقائق کے بجائے محض سنی سنائی باتوں
پر زور دیا گیا ، حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ خلاف
حقیقت باتیں بیان کی ہیں۔ افسوس اس لیے نہیں ہوا کہ جس طبقے سے ان کا تعلق
ہےجماعت اسلامی پر جھوٹے الزام لگانااس طبقے کا پرانا کام ہے ، اس میں کوئی
نئی بات نہیں تھی اس لیے کوئی افسوس نہیں ہوا، ہاں حیرت ضرور ہوئی کہ
عبدلرئوف صاحب بھی بہر حال نام کے ہی دانشور نکلے۔
بہر حال یہاں ہم کوشش کریں گے کہ ان کے اٹھائے کے ان سوالات کے جواب دیں جو
کہ جماعت اسلامی مختلف ادوار میں مختلف فورمز پر دیتی رہی ہے ، ایک بار پھر
ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔
سب سے پہلے اس پر بات کرلی جائے کہ جماعت اسلامی طالبان کے خلاف بھی ایک
رکشہ مارچ کرلیتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کو جماعت اسلامی نے بنایا ہے؟
جواب ہے کہ جی نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ طالبان کو جماعت اسلامی نے
نہیں بلکہ آپ کی نام نہاد جمہوری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے تخلیق کیا
ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ فخریہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ٓایم مدر آف
طالبان۔ جس دور میں طالبان کا ظہور ہوا، اس دور میں جماعت اسلامی طالبان کی
واحد نظریاتی مخالف جماعت تھی اور ہے۔ 1996میں جب اخبارات فتح کابل کی
سرخیاں لگا رہے تھے، جماعت اسلامی اس وقت بھی طالبان کی مخالف تھی،( ہاں یہ
ضرورہے کہ جماعت اسلامی نے اندھا دھند فوج کشی کی ظالمانہ آپریشن کی
مخالفت کی۔) سوال یہ ہے کہ جب طالبان کو تخلیق کرنے والی پی پی پی اور بے
نظیر بھٹو ہیں تو اس حوالے سے آ?پ کا قلم خاموش کیوں ہوجاتا ہے؟ محض اس
لیے کہ وہ ایک سیکولر سوشلسٹ جماعت ہے اورجماعت اسلامی ایک مذہبی جماعت ہے۔
دوسرا الزام کہ جماعت اسلامی ضیاء الحق اور جنرل مشرف کا ساتھ دے کر غداری
کی مرتکب نہیں ہوئی؟ فاضل کالم نگار سے میرا سوال ہے کہ ضیا ء الحق کے
گیارہ سالہ دور اقتدار میں جماعت اسلامی کتنے عرصے اس کی حکومت کا حصہ رہی
ہے؟ جواب ہے کہ صرف دس ماہ۔ جب کہ آج آپ کے جمہوریت کے چیمپین بننے والے
میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور دیگر ضیاء الحق کی
کابینہ میں شامل رہے ہیں لیکن ان پر کوئی تنقید نہیں، ان پر کوئی گرفت
نہیںکیوںکہ وہ مذہبی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے نا۔ اس لیے گرفت صرف جماعت
اسلامی پر۔
رہی جنرل مشرف کی بات تو صاحب کچھ تو انصاف کی بات کریں۔ جماعت اسلامی نے
بحیثیت پارٹی جنرل مشرف سے کوئی معاہدہ کیا؟ کوئی مفاد حاصل کیا؟ کوئی ڈیل
کی ہو تو آپ بات کریں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے
اتحادی جماعتوں کے ساتھ اسمبلیوں میں آئی تھی۔ ایم ایم اے کی قیادت نے
جنرل مشرف سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت جنرل مشرف نے وعدہ کیا کہ وہ دسمبر
2004 تک فوجی عہدہ چھوڑ دیں گے۔ یہ ایم ایم اے کی کامیابی تھی کہ اس نے بے
لگام جنرل مشرف کو پہلی بار ایک معاہدے کا پابند کیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف
اپنے اس وعدے سے مکر گئے اور اعلانیہ یہ کہا کہ میرا وعدہ کوئی قرآن و
حدیث نہیں ہے۔ موصوف کے نزدیک ایک تسلیم شدہ جھوٹا شخص قابل ِگرفت نہیں ہے
ہاں مذہبی جماعتیں ضرور قابل گردن زدنی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کیا جنرل مشرف
کے دور میں واحد جماعت اسلامی تھی جو اسمبلیوںمیںپہنچی تھی۔ اس دور میں ن
لیگ کے رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد مشرف کی چھتری تلے بننے والی ق لیگ میں
شامل ہوکر حکومت کا حصہ بن گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ نے مشرف کی کھل کر حمایت
کی نہ صرف یہ بلکہ مشرف کی حمایت میں متحدہ قومی موومنٹ نے جسٹس موومنٹ کے
خلاف کام کیا اور 12 مئی 2007 کا سانحہ رونما ہوا۔ وہ ساری جماعتیں آ پ کے
نزدیک قابل معافی ہیں ، ان پر کوئی گرفت نہیں ہاں جماعت اسلامی اس کا جواب
ضرور دے کہ وہ مشرف کے دور میں اپوزیشن میں بھی کیوں شامل رہی؟
رہی بات افغانوں کی جو پاکستان کے مفاد کے خلا ف کام کرتے ہیں ، تو جناب
عالی ان کو واپس بھیجنا حکومت کا کام ہے کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔ جنرل
مشرف، اس کے بعد پی پی پی ، اس کے بعد موجودہ حکومت ، یہ تو ان کی ذمہ داری
ہے کہ وہ افغانوںکو واپس بھیجے۔ بجائے اس کے کہ آپ اس کا جواب بر سر
اقتدار پارٹیوں سے مانگتے ، الٹا اس کا الزام بھی جماعت ِ اسلامی کے سر
ڈالتے ہیں۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے؟
پھر آپ کہتے ہیں کہ ’’ اس ملک میں تعلیم کے نظام کی خرابی کی ایک بڑی وجہ
یہاں کے تعلیمی اداروں میں آپ کی جماعت کے اثر رسوخ کو بھی بڑا دخل ہے۔ ان
کے اس اثر کے باعث یہ کالج اور یونیورسٹیاں پست درجے کے ادارے بن گئے ہیں
جہاںتعلیم کے نام پر دھوکہ ملتا ہے۔‘‘ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں
بھی عبدالرئوف صاحب جماعت اسلامی سے اپنی کسی ذاتی پرخاش کے باعث تعلیمی
نظام کی تباہی کا ذمہ داری بھی جماعت اسلامی کو گردانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
کیا کالج اور یونیورسٹیوں کا نصاب جماعت اسلامی بناتی ہے؟ کیا اسکول ، کالج
اور یونیورسٹیوں میں بھرتی ہونے والے اساتذہ جماعت اسلامی کے ارکان یا
کارکنان ہوتے ہیں یا جماعت ِ اسلامی انہیں بھرتی کرتی ہے؟ جواب ہے کہ ایسا
کچھ نہیں ہے۔ نصاب تعلیم کی تیاری سے لے کر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی
بھرتی اور امتحانات تک کے نظام میں جماعت اسلامی کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اس
میں بھی بر سر اقتدار پارٹیاں اپنا اثر و رسوخ ا استعمال کرتی ہیں۔ اس لحاظ
سے دیکھا جائے تو تعلیمی نظام کی تباہی کے ذمہ داربھی آپ کی یہی بر سر
اقتدار پارٹیاں یعنی پی پی پی ، مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم اور ق لیگ یا
جنرل مشرف ہیں جماعت ِ اسلامی نہیں۔ اس لیے تعلیمی اداروں کی تباہی کا ذمہ
دار جماعت اسلامی کوٹھہرانا انتہائی لغو بات ہے۔
اب میں آتا ہوں ان کے مضمون کے اس حصے کی طرف جس کا تعلق سابقہ مشرقی
پاکستان یا موجودہ بنگلہ دیش سے ہے۔عبدالرئوف صاحب کی اس حوالے سے لکھتے
ہیںکہ ’’اس وقت یہ جماعت اگر باقی جماعتوں کے ساتھ مل کر یحیٰ خان کا ساتھ
خان کا ساتھ دینے کے بجائے جمہوری حکومت بننے میں مددگار ہوتی تو شاید
بنگلہ دیش الگ نہیںہوتا۔‘‘ اس جملے کو غور سے دیکھیں تو اس میں تضاد بیانی
بھی ہے اور جھوٹ بھی۔ تضادبیانی یہ کہ جب آپ خود کہتے ہیں دوسری جماعتوں
کے ساتھ ملک کریحیٰ خان کا ساتھ دینے کے بجائے یعنی آپ اس بات کو مانتے
ہیں کہ دوسری جماعتیں بھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے رہی تھیں تو پھر
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جماعتوں کے خلاف آپ نے کبھی آواز کیوںنہیں
اٹھائی؟ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے سب سے اہم کردار تو پی پی پی کے بانی
سربراہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب تھے جو کہ یحیٰ خان کے دست راست تھے، لیکن
ان کے خلاف کبھی آپ نے کوئی مضمون نہیں لکھا لیکن جماعت اسلامی کے خلاف
اپنی توپوںکا رخ موڑ دیا۔ جب کہ اس جملے میںجھوٹ یہ ہے کہ’’ یحیٰ خان کا
ساتھ خان کا ساتھ دینے کے بجائے جمہوری حکومت بننے میں مددگار ہوتی‘‘۔ جناب
جماعت اسلامی نے کبھی بھی یحیٰ خان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ پاکستان کا ساتھ
دیا۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی واحد جماعت تھی جس نے اپنی شکست کو
کھلے دل سے تسلیم کیا اور اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے پر زور دیا، لیکن
بھٹو صاحب کی ضد اور ہوسِ اقتدار نے ایسا نہیں ہونے دیا، یہ بھٹو صاحب ہی
تھے جنہوںنے جب حالات درست ہوتے دیکھے تو کھلے عام دھمکی دی تھی کہ ’’
مغربی پاکستان سے اگر پی پی پی کا کوئی رکن پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے
لیے مشرقی پاکستان گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔‘‘ یقیناً
عبدالرئوف صاحب اس سے اچھی طرح واقف ہونگے لیکن جانتے بوجھتے حق کو چھپا
گئے۔
اس حوالے سے عبدالرئوف صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’انہوں نے البدر اور
الشمس ایسی تنظمیں بنائی جو بقول بعض بنگالی دانشوروں کے ان بنگالی
مسلمانوںکے قتل میں ملوث جو پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے، اس نے مشرقی
پاکستان میں امن کی فضا کو قائم نہیں ہونے دیا۔‘‘ یہاںپر بھی عبدالرئوف
صاحب نے تاریخی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے جان بوجھ کر جماعت اسلامی پر جھوٹے
الزامات لگائے ہیں۔ سب سے پہلی بات کہ یہاںبھی عبدالرئوف صاحب کی ہمدردیاں
پاکستان کے مخالفین کی جانب ہیں پاکستان کی ہمدرد جماعت کی طرف نہیں۔ دوسری
بات یہ کہ مشرقی پاکستان میں قتل عام کی داستانیں محض داستانیں ہی ہیں ان
کو ثابت نہیں کیا جاسکا، اگر ایسا ہوتا تو جماعت اسلامی کے ارکان کو چالیس
سال بعد مقدمات میں نہیں پھنسایا جاتا بلکہ اسی وقت جب معاملہ گرم تھا،
سزائیں دے دی جاتیں۔ تیسری بات یہ کہ جماعت اسلامی کبھی بھی وہاں قتل و
غارت گری میں ملوث نہیں رہی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جماعت اسلامی نے اس کٹھن
وقت میں پاکستانی فوج کا ساتھ ضرور دیا تھا، جب اجنبی زمین، اجنبی زبان اور
ناموافق حالات میں گھری ہوئی فوج کو سہارے کی ضرورت تھی، اس وقت جماعت
اسلامی نے حب الوطنی کے تقاضے کے تحت پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ ( یہی
صورتحال آج ہمارے قبائلی علاقوں میں بھی نظر آتی ہے جہاں طالبان کے خلاف
فوج کی مدد سے مقامی لشکر تیار کیے گئے جو طالبان کے خلاف فوج کی مدد کررہے
ہیں۔)
حیرت انگیز بات ہے کہ عبدلرئوف صاحب خود اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ وہاں
علیحدگی پسند قوتیںموجود تھیں لیکن ان قوتوں کے خلاف ملک کی فوج کا ساتھ
دینے والوںکو وہ لعن طعن کا نشانہ بنا رہے ہیں۔میرا سوال ان سے یہ ہے کہ
میرے منہ میں خاک اگر آج یہاںکوئی علیحدگی کی تحریک چل پڑے تو آپ کس کا
ساتھ دیںگے، علیحدگی پسندوں کا یا فوج کا؟ ہر محب وطن کا جواب یہ ہوگا کہ
وہ فوج کا ساتھ دے گا، یہی کام جماعت ِ اسلامی نے کیا تو وہ باعث تنقید ہے۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی کے ارکان بنگلہ دیش میں
پاکستان سے محبت کے جرم میں تختہ دار پر لٹکائے جارہے ہیں، پوری دنیا اس نا
انصافی پر محو حیرت ہے اور عبدالرئوف صاحب اس وقت بھی جان بوجھ کر لوگوںکو
گمراہ کررہے ہیں۔
ہماری محترم عبدالرئوف صاحب سے گزارش ہے کہ البدر و الشمس اور مشرقی
پاکستان کے حوالے سے کرنل صدیق سالک کی کتاب ’’ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے
دیکھا‘‘، پاکستانی فوج کے بھگوڑے افسر اور بعد ازاں مشرقی پاکستان میں پاک
فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کو منظم کرنے والے کرنل شریف الحق دالیم کی کتاب
’’ بنگلہ دیش : ان کہی کہانی ‘‘ اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر
کی کتاب ’’ شکست ا?رزو‘‘ کا مطالعہ کرلیںتو کافی بہتر ہوگا اور جماعت
اسلامی کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے بجائے حقائق لوگوں تک پہنچائیں۔ شکریہ
|
|