داتا کی نگری لہو لہو: مجرم کون؟

میرا جب بھی لاہور جانا ہوا ہے تو میں داتا دربار ضرور جاتا ہوں اور دس پندرہ منٹ وہاں ضرور گزارتا ہوں ایک عجیب پرسکون سا ماحول ہے وہاں کا اور میں جب بھی جاتا ہوں تو داتا کی آخری آرام گاہ پر چار قل پڑھ کر صحن میں کچھ دیر بیٹھتا ہوں لیکن وہ داتا کی نگری بھی خون میں نہلا دی گئی۔ دشمن اپنی چال میں ایک بار پھر کامیاب ہوگیا اور ارباب اختیار حسب معمول ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، وفاق پنجاب حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور صوبائی حکومت اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال رہی ہیں لیکن عملی اقدامات کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ایسے واقعات کو روکنے کی ذمہ داری انٹیلی جنس اداروں کی ہے۔ انٹیلی جنس ادارے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے چار دن پہلے یا دس دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ دہشت گرد فلاں فلاں جگہ کو نشانہ بناسکتے ہیں یا اتنے اتنے دہشت گرد صوبے میں داخل ہوگئے ہیں۔ اور عوام یہ سوچتے ہیں کہ ہم کہاں جائیں؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں وزیروں اور مشیروں کی حفاظت میں لگی ہوئی ہیں تو عوام کی حفظت کیسے کی جاسکتی ہے؟ یادش بخیر چند ماہ پیشتر سندھ کے وزیر داخلہ جناب ذوالفقار مرزا نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر اسمبلی میں فرمایا تھا کہ مجھے کوئی کیوں نہیں مارتا؟ اور ان کا یہ لطیفہ سن کر عوام ہنس بھی سکتے کہ ہمارے وزیر مصوف اتنی بچکانہ باتیں بھی کرسکتے ہیں۔ محترم وزیر داخلہ کبھی بغیر پروٹوکول اور بغیر کسی پروگرام کے کسی عوامی مقام پر جانے کی ہمت تو کریں اس کے بعد ہی ان کو حالات کا اندازہ ہوگا۔

مساجد، امام بارگاہوں اور عوامی مقامت کے بعد اب اولیاء کرام کے مزارات پر دہشت گردی کرنے والے درندے انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ لیکن میں غلط کہہ رہا ہوں یہ تو درندے بھی نہیں ہیں درندے بھی صرف اپنی بھوک مٹانے کے لئے حملہ کرتے ہیں اور اس میں بھی وہ اپنی جنس اور اپنی نسل کے جانوروں پر حملہ نہیں کرتے یہ کیسے لوگ ہیں جو بغیر کسی وجہ کے اپنے ہی جیسے انسانوں کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔؟ ان دھماکوں کے بعد ایک بار پھر اس یہ بات سامنے آئی کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے، چاہے بم دھماکے ہوں یا ٹارگٹ کلنگ ہر موقع پر لاشوں کی سیاست کی جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر مخالفین پر سیاسی حملے کیئے جاتے ہیں، ایک دوسرے پر نا اہلی کے الزامات عائد کر کے سیاسی پوائنٹ اسکور کئے جاتے ہیں۔ اپوزیشن حکومت کو ذًہ دار قرار دیتی ہے اور حکومت اپوزیشن کو۔ اور اسی کھینچا تانی میں عوام کا حال برا ہو رہا ہے۔

اور ہر دھماکے کے بعد سب سے آسان نسخہ یعنی خود کش بمبار پر ساری ذمہ داری ڈال کر قانون نافذ کرنے والے ادارے، حکومت اور انیٹلی جنس ایجنسیاں مطمئین ہوجاتے ہیں کہ جی خود کش دھماکہ تھا ہم کیا کر سکتے ہیں۔ حسب معمول اس دھماکہ کو بھی خود کش دھماکہ کہہ دیا گیا اور اس کے بعد نہ کوئی تفتیش، نہ تحقیق کہ جی بس خودکش دھماکہ تھا لیکن افسوس کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حکومت کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے۔ کیوں کہ جس فرد کو انہوں نے خود کش حملہ آور کہا وہ تو خود کش حملہ آور تھا ہی نہیں وہ تو خود داتا دربار پر حاضری دینے والا داتا کا ایک عیقدت مند تھا۔

میڈیا پر جب دھماکے کی فوٹیج جاری کی گئی تو میں بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہ ویڈیو دیکھ رہا تھا کہ ہمارے انچارج صاحب نے کہا کہ “ یار سلیم یہ دیکھو کہ رضا کار سلیم اختر جو کہ دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور جو دہشت گرد بھاگ رہا ہے دونوں نے ایک ہی جیسے کپڑے (یعنی رضاکاروں جیسی ٹوپی اور سینے پر پٹی) پہنے ہوئے ہیں اور یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ دہشت گرد کی شناخت اس طرح ہوئی کہ اس کے بھائی اس کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں آئے تھے۔ اور وہاں سے ان کو گرفتار کیا گیا۔“ اور واقعی ایسا ہی تھا۔ کچھ دیر کے بعد جب یہ خبر چلائی گئی کہ دہشت گرد کی شناخت ہوگئی ہے تو معاملہ مزید گھمبیر ہوگیا کیوں کہ تحقیق کے مطابق جس فرد کو دہشت گرد کہا جارہا ہے وہ خود داتا کا مرید اور گاؤں میں پیری مریدی کرنے والا فرد ہے اور اس کے گھر والوں کے بقول وہ ہر جمعرات داتا دربار جاتا ہے اور وقوعے والے روز بھی وہ گھر سے داتا دربار کے لئے دودھ لیکر گیا تھا اور اس کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعرات داتا دربار جاتا تھا اور رات گزارنے کے بعد جمعہ کو واپس آتا تھا اور اس کا کسی کالعدم یا دہشتگرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ (یہاں میں یہ بات کہتا چلوں کہ میری بات پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے داتا دربار حملے کی فوٹیج کو روک روک کر زرا غور سے دیکھئے گا تو میری بات سمجھ میں آئے گی )
یہاں جو بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے وہ نقطہ یا اہم بات جس کو میڈیا اور انٹیلی جنس اداروں نے نادانستہ یا شائد جان بوجھ کر اجاگر نہیں ہے۔ اگر ہم لوگوں کے بیانات اور ویڈیو فوٹیج کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں دھماکوں میں بریف کیس استعمال کیا گیا ہے یعنی مبینہ دہشت گرد عثمان کے ہاتھ میں بھی بریف کیس تھا جس کو لیکر وہ بھاگ رہا تھا اور دوسرے دھماکے کے وقت بھی ایک فرد بریف کیس لیکر مزار کے اندر جاتا دکھائی دیا اور اس کے چند لمحوں بعد دھماکہ ہوگیا۔ یہاں ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کی طرف دھیان کیوں نہیں دیتے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دھماکے خود کش نہ ہوں بلکہ ریموٹ کنٹرول یا ٹائم بم دھماکے ہوں اور کسی نے ان لوگوں کو استعمال کیا ہو کہ یہ بریف فلاں فرد کو پہنچا دو اور اس کے بعد دھماکے ہوئے ہوں۔

یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جس فرد کو مبینہ خود کش حملہ آور کہا گیا ہے وہ خود داتا دربار پر پابندی سے حاضری دینے والا اور داتا کا مرید تھا جبکہ اب تک دہشت گردوں کی جو پہچان یا شناخت بتائی گئی ہے وہ اس مکتبہ فکر سے مختلف ہے۔ اب کہنے کو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیری مریدی کرنے والے بھی دہشت گرد ہیں لیکن یہ بات حقیقت کے خلاف ہے بات وہی ہے جو ہم ایک عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت اور امریکی سی آئی آے ملوث ہے اور اس طرح وہ ان دھماکوں سے کئی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

نمبر ایک ان دھماکوں سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ یہاں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نمبر دو ان دھماکوں سے ملک میں فرقہ واریت اور عوام کو لڑانے کی ایک بہت گہری اور گھناؤنی سازش کی جارہی ہے تاکہ ملک میں افراتفری اور خانہ جنگی کی نوبت آجائے۔ تیسرے ان دھماکوں کے ذریعے امریکہ، حکومت پاکستان کو بلیک میل کرتا ہے کہ اگر افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن ختم کیا گیا تو اس سے ملک کو نقصان پہنچے گا جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں آپریشن کرنے سے امریکی اور نیٹو افواج کو آسانی حاصل ہوتی ہے اور اسی لئے وہ افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کو ان علاقوں میں مصروف رکھنے کے لئے یہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ غور کریں کہ ان سب باتوں سے کس کا فائدہ ہے؟

ہم دہشت گردوں کے خلاف کامیاب نہیں ہوسکتے، ہم اصل مجرموں تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ہم پہلا درست قدم نہیں اٹھاتے جب ہم درست سمت میں قدم اٹھائیں گے تو انشاء اللہ یہ سارے دہشت گرد سلاخوں کے پیچھے ہونگے ہماری ارباب اختیار اور میڈیا کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ ہر واردات کے بعد سوچے سمجھے بغیر خود کش حملہ آوار کا راگ نہ الاپا کریں بلکہ تھوڑا سا تفتیش بھی کریں اور کچھ نہیں تو جو ویڈیو آپ لوگ پوری دنیا کو دکھاتے ہیں کم از کم اسے ہی غور سے دیکھ لیا کریں کہ وہ ویڈیو کیا ظاہر کر رہی ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1474025 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More